حدیث : عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ.
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔(۱)اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اور بے شک محمداللہ کے رسول ہیں۔ (۲)نماز قائم کرنا۔(۳)زکوٰۃ ادا کرنا۔(۴) حج کرنا۔ (۵)رمضان کے مہینے کا روزہ رکھنا۔[صحیح بخاری،کتاب الایمان،حدیث:۷]
حدیث:حَدَّثَنِى أَبِى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ لاَ يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلاَ يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِى عَنِ الإِسْلاَمِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « الإِسْلاَمُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمَ الصَّلاَةَ وَتُؤْتِىَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلاً. قَالَ صَدَقْتَ. قَالَ فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ. قَالَ فَأَخْبِرْنِى عَنِ الإِيمَانِ. قَالَ « أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ ». قَالَ صَدَقْتَ. قَالَ فَأَخْبِرْنِى عَنِ الإِحْسَانِ. قَالَ « أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ ». قَالَ فَأَخْبِرْنِى عَنِ السَّاعَةِ. قَالَ « مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ ». قَالَ فَأَخْبِرْنِى عَنْ أَمَارَتِهَا. قَالَ « أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِى الْبُنْيَانِ ». قَالَ ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا ثُمَّ قَالَ لِى « يَا عُمَرُ أَتَدْرِى مَنِ السَّائِلُ ». قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ « فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ ».َ.
ترجمہ: حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک ایک شخص نمودار ہوئے،نہایت سفید کپڑے اور انتہائی کالے بال والے،ان پر سفر کا کوئی اثر نہیں دیکھائی دے رہا تھا اور ہم میں سے کوئی اُنہیں جانتا بھی نہیں تھا،بالآخر وہ نبی کریم کے پاس بیٹھ گئے اور اپنے گھٹنے کو حضور کے گھٹنے سے ملادیا اور اپنا ہاتھ حضور کے زانو مبارک پر رکھ دیا اور عرض کیا: یا محمدﷺ ! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے۔حضور اکرمﷺ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ،اور نماز قائم کرو ،زکوٰۃ ادا کرو،رمضان کے روزے رکھو اور اگر طاقت ہوتو بیتُ اللہ شریف کا حج کرو۔اُس شخص نے کہا:آپ نے سچ فرمایا۔حضرت عمر کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی تصدیق بھی کرتا ہے۔اس کے بعد آنے والے شخص نے عرض کیا:مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر،اس کے فرشتوں پر،اس کی کتابوں پر،اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر یقین کرو اور تقدیر کی اچھائی اور برائی کا یقین کرو۔اُس شخص نے کہا کہ آپ نے سچ فر مایا پھر عرض کیا کہ مجھے احسان کے بارے میں بتائیے۔آپﷺ نے فرمایا :احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اِس کیفیت کے ساتھ کرو کہ تم اُسے دیکھ رہے ہو اور اگر یہ مرتبہ حاصل نہ ہو تو اتنا یقین رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔اُس شخص نے عرض کیا:مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے۔آپﷺ نے فرمایا جس سے سوال کیا گیا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا،اُس شخص نے کہا اچھا تو اس کی نشانیوں کے بارے میں بتائیے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ لونڈی اپنے مالکن کو جنے گی اور تم دیکھوگے کہ ننگے پاؤں ننگے بدن رہنے والے تنگ دست چرواہے بڑی بڑی عمارتوں پر اِترائیں گے۔حضرت عمر کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلے گئے اور میں کچھ دیر تک ٹھہرا رہا تو مجھ سے نبی کریمﷺ نے فرمایا:ائے عمر! کیا تم جانتے ہو کہ سوال کرنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا:اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا یہ (حضرت) جبرئیل (علیہ السلام )تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لئے آئے تھے۔ [صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان الایمان والاسلام والاحسان الخ،حدیث:۸]
حدیث : عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : لاَ يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ بِأَرْبَعٍ : بِاللَّهِ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ ، وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ ، وَالْقَدَرِ.
ترجمہ: حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:کوئی بندہ اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ چار باتوں پر ایمان نہ لے آئے۔۱:پہلی بات یہ کہ اللہ ایک ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں۔۲:اور بے شک میں اللہ کا رسول ہوں۔۳:مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو نا حق ہے۔۴:اور تقدیر حق ہے۔[ابن ماجہ،المقدمہ،باب فی القدر،حدیث:۸۱]
حدیث : عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : إِنَّ مَجُوسَ هَذِهِ الأُمَّةِ الْمُكَذِّبُونَ بِأَقْدَارِ اللهِ ، إِنْ مَرِضُوا فَلاَ تَعُودُوهُمْ ، وَإِنْ مَاتُوا فَلاَ تَشْهَدُوهُمْ ، وَإِنْ لَقِيتُمُوهُمْ فَلاَ تُسَلِّمُوا عَلَيْهِمْ.
ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اس امت کے مجوسی اللہ کی تقدیر کو جھٹلانے والے لوگ ہیں،اگر وہ بیمار ہوں تو اُن کی عیادت نہ کرو اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے نماز جنازہ میں نہ جاؤ اور اگر ان سے ملاقات ہوجائے تو ان سے سلام نہ کرو۔[ابن ماجہ،المقدمہ،باب فی القدر،حدیث:۹۲]
حدیث: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : صِنْفَانِ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ لَيْسَ لَهُمَا فِي الإِسْلاَمِ نَصِيبٌ الْمُرْجِئَةُ , وَالْقَدَرِيَّةُ.
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس امت کے دو گروہ ایسے ہیں جن کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے۔پہلا مرجئہ ہے اور دوسرا قدریہ ہے۔[ابن ماجہ،المقدمہ،باب فی القدر،حدیث:۷۳] (مرجئہ فرقہ اس بات کا قائل ہے کہ ایمان لانے کے بعد کوئی گناہ نقصان نہیں پہونچاتا ہے،اور قدریہ تقدیر کے انکار کرنے والے کو کہا جاتا ہے۔)
حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهُ قَالَ « وَالَّذِى نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لاَ يَسْمَعُ بِى أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ يَهُودِىٌّ وَلاَ نَصْرَانِىٌّ ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِى أُرْسِلْتُ بِهِ إِلاَّ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ».
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے۔اِس امت کا کوئی بھی یہودی اور عیسائی جو میری بات سنے جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں (یعنی اسلام) اور وہ اُس پر ایمان نہ لائے تو اس کا ٹھکانہ جہنم والوں میں سے ہوگا۔[صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب وجوب الایمان برسالۃ نبینا محمد الی جمیع الناس ونسخ الملل بملتہ،حدیث:۱۵۳]
حدیث: حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَابْنُ أَمَتِهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَأَنَّ النَّارَ حَقٌّ أَدْخَلَهُ اللَّهُ مِنْ أَىِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ شَاءَ ».
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس بات کا قائل ہو جائے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں،اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے نبی،حضرت مریم کے بیٹے اور کلمۃ اللہ ہیں جو اس نے حضرت مریم کی طرف القا کیا کیا تھا اور روح اللہ ہیں اور یہ کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے تو وہ جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے۔[صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب الدلیل علی انّ من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعا،حدیث:۲۸]
حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « وَاللَّهِ لَيَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَادِلاً فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ وَلَيَضَعَنَّ الْجِزْيَةَ وَلَتُتْرَكَنَّ الْقِلاَصُ فَلاَ يُسْعَى عَلَيْهَا وَلَتَذْهَبَنَّ الشَّحْنَاءُ وَالتَّبَاغُضُ وَالتَّحَاسُدُ وَلَيَدْعُوَنَّ إِلَى الْمَالِ فَلاَ يَقْبَلُهُ أَحَدٌ ».
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم!حضرت عیسیٰ ابن مریم ضرور اتریں گے،وہ انصاف کرنے والے حاکم ہوں گے تو وہ صلیب توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے،جزیہ موقوف کریں گے اور جوان اونٹنیاں چھوڑیں گے مگر ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرے گا،لوگوں کے دلوں سے کینہ،بغض اور حسد ختم ہو جائے گا،وہ لوگوں کو مال و دولت کی طرف بلائیں گے مگر کوئی بھی مال قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔[صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب نزول عیسیٰ ابن مریم حاکما بشریعۃ نبینا محمد ،حدیث:۱۵۵]
حدیث: عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ - قَالَ أَبُو بَكْرٍ رُبَّمَا قَالَ وَكِيعٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ مُعَاذًا - قَالَ بَعَثَنِى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « إِنَّكَ تَأْتِى قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ. فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنِّى رَسُولُ اللَّهِ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِى كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ فِى فُقَرَائِهِمْ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ ».
تر جمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺ نے (یمن کی طرف) بھیجا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک تم اہلِ کتاب کے کچھ لوگوں کے پاس جارہے ہو،پہلے تم انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور بے شک میں اللہ کا رسول ہوں۔اگر وہ اس کو مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے دن رات میں پانچ نمازیں ان پر فرض فر مایا ہے۔اگر وہ اِس کو بھی مان لیں تو اُن کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر زکوٰۃ فرض فرمایا ہے جو دولت مندوں سے لے کر انہی کے غریب طبقہ میں تقسیم کی جائے گی۔اب اگر وہ اِس کو بھی مان لیں تو تم اُن کا بہترین مال ہر گز نہ لینا اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا کیونکہ مظلوم کی بددعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔۔[صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب الدعا الی الشھادتین وشرائع الاسلام ،حدیث:۱۹]
حدیث: عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « يَا مُعَاذُ أَتَدْرِى مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ ». قَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ « أَنْ يُعْبَدَ اللَّهُ وَلاَ يُشْرَكَ بِهِ شَىْءٌ - قَالَ - أَتَدْرِى مَا حَقُّهُمْ عَلَيْهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ ». فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.قَالَ « أَنْ لاَ يُعَذِّبَهُمْ »
تر جمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ائے معاذ!کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا:اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا:وہ یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔آپ نے فرمایا:کیا تو جانتا ہے کہ بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر کیا ہے؟ جب وہ ایسا کریں۔میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:یہ ہے کہ وہ اُن کو عذاب نہ دے۔[ صحیح مسلم،کتاب الایمان، باب الدلیل علی انّ من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعا،حدیث:۳۰]
حدیث: عَنْ أَبِى ذَرٍّ - رضى الله عنه - قَالَ خَرَجْتُ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِى فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَمْشِى وَحْدَهُ ، وَلَيْسَ مَعَهُ إِنْسَانٌ - قَالَ - فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَكْرَهُ أَنْ يَمْشِىَ مَعَهُ أَحَدٌ - قَالَ - فَجَعَلْتُ أَمْشِى فِى ظِلِّ الْقَمَرِ فَالْتَفَتَ فَرَآنِى فَقَالَ « مَنْ هَذَا » . قُلْتُ أَبُو ذَرٍّ جَعَلَنِى اللَّهُ فِدَاءَكَ . قَالَ « يَا أَبَا ذَرٍّ تَعَالَهْ » . قَالَ فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً فَقَالَ « إِنَّ الْمُكْثِرِينَ هُمُ الْمُقِلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، إِلاَّ مَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ خَيْرًا ، فَنَفَحَ فِيهِ يَمِينَهُ وَشِمَالَهُ وَبَيْنَ يَدَيْهِ وَوَرَاءَهُ ، وَعَمِلَ فِيهِ خَيْرًا » . قَالَ فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً فَقَالَ لِى « اجْلِسْ هَا هُنَا » . قَالَ فَأَجْلَسَنِى فِى قَاعٍ حَوْلَهُ حِجَارَةٌ فَقَالَ لِى « اجْلِسْ هَا هُنَا حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكَ » . قَالَ فَانْطَلَقَ فِى الْحَرَّةِ حَتَّى لاَ أَرَاهُ فَلَبِثَ عَنِّى فَأَطَالَ اللُّبْثَ ، ثُمَّ إِنِّى سَمِعْتُهُ وَهْوَ مُقْبِلٌ وَهْوَ يَقُولُ « وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى » . قَالَ فَلَمَّا جَاءَ لَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قُلْتُ يَا نَبِىَّ اللَّهِ جَعَلَنِى اللَّهُ فِدَاءَكَ مَنْ تُكَلِّمُ فِى جَانِبِ الْحَرَّةِ مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَرْجِعُ إِلَيْكَ شَيْئًا . قَالَ « ذَلِكَ جِبْرِيلُ - عَلَيْهِ السَّلاَمُ - عَرَضَ لِى فِى جَانِبِ الْحَرَّةِ ، قَالَ بَشِّرْ أُمَّتَكَ أَنَّهُ مَنْ مَاتَ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ ، قُلْتُ يَا جِبْرِيلُ وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى قَالَ نَعَمْ . قَالَ قُلْتُ وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى قَالَ نَعَمْ ، وَإِنْ شَرِبَ الْخَمْرَ » .
ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:میں ایک رات باہر نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہﷺ اکیلے چلے جا رہے ہیں،آپ کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہے۔میں سمجھا شاید آپ کو اچھا نہ لگتا ہو کہ کوئی آپ کے ساتھ چلے،میں چاند کے سائے میں چلنے لگا،آپ نے میری طرف دیکھا تو فرمایا: کون ہو؟ میں نے کہا:مجھے اللہ تعالیٰ آپ پر قربان کرے،میں ابو ذر ہوں۔آپﷺ نے فرمایا:ابوذر آجاؤ،میں کچھ دیر آپ کے ساتھ چلا تو آپﷺ نے فرمایا:زیادہ جمع کرنے والے قیامت کے دن سب سے کم مال والے ہوں گے سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ مال عطا کرے،تو وہ اُسے دائیں بائیں آگے پیچھے خرچ کرے اور اس کے ساتھ بھلائی کے کام کرے۔پھر میں کچھ دیر آپ کے ساتھ چلتا رہا آپ نے مجھے ایک نرم زمین پر بیٹھایا جس کے ارد گرد پتھر پڑے ہوئے تھے،آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:یہاں بیٹھے رہو جب تک میں واپس نہ آجاؤں،آپ حرہ (نامی وادی) میں چلتے ہوئےآنکھوں سے اوجھل ہو گئے،پھرمیں نے کافی دیر بعد آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے آتے سنا کہ "اگرچہ وہ چوری کرے یا زنا کرے"جب آپ آئے تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا،میں نے عرض کیا:ائے اللہ کے نبی ﷺ ! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے،حرہ کی طرف کس شخص سے بات کی جارہی تھی؟ میں نے کسی شخص کو جواب دیتے ہوئے نہیں سنا۔آپ ﷺ نے فرمایا:وہ جبرئیل تھے جو حرہ کی جانب مجھ سے ملے اور کہنے لگے اپنی امت کو خوشخبری دے دیجئے کہ جو شخص اس حال میں دنیا سے گیا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھہرایا وہ جنت میں داخل ہو گا۔میں نے کہا:ائے جبرئیل اگرچہ اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو؟ جبرئیل نے کہا:ہاں۔میں نے کہا:اگرچہ اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو؟ جبرئیل نے کہا:ہاں۔اگرچہ اس نے شراب بھی کیوں نہ پی ہو۔(اس حدیث شریف کا خلاصہ یہ ہے کہ گناہ کبیرہ کرنے سے کوئی مومن اسلام سے خارج نہیں ہوتا) [صحیح بخاری،کتاب الرقاق،باب المکثرون ہم المقلون،حدیث:۵۹۶۲]
حدیث: عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِىِّ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- صَلاَةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ فِى إِثْرِ السَّمَاءِ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ « هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ». قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ « قَالَ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِى مُؤْمِنٌ بِى وَكَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ.فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِى وَكَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا. فَذَلِكَ كَافِرٌ بِى مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ ».
ترجمہ: حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حدیبیہ میں رسول اللہﷺ نےہم لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی،اس وقت رات کی بارش کا اثر باقی تھا،نماز سے فارغ ہو کر آپ نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا:اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں،آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے کچھ بندے صبح ایمان پر اور کچھ کفر پر کرتے ہیں،جس نے کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوتی ہے تو یہ مجھ پر ایمان لانے والے ہیں اور ستاروں کا انکار کرنے والے ہیں اور جس نے کہا کہ فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوتی ہے تو وہ میرا انکار کرنے والے اور ستاروں پر ایمان لانے والے ہیں۔[صحیح مسلم، کتاب لاایمان،باب مُطرنا بالنوء،حدیث:۷۱]
حدیث : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لاَ يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتَّى يُقَالَ هَذَا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ آمَنْتُ بِاللَّهِ ».
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا کہ مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ تو جو آدمی اپنے دل میں اس طرح کا کوئی وسوسہ اپنے دل میں پائے تو وہ بس یہ کہے کہ میں اللہ پر ایمان لایا۔۔[صحیح مسلم، کتاب لاایمان،باب بیان الوسوسۃ فی الایمان وما یقولہ من وجدھا،حدیث:۳۴ ۱]
حدیث : عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ ذَكَرُوا الشُّؤْمَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ كَانَ الشُّؤْمُ فِي شَيْءٍ فَفِي الدَّارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ.
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ کے پاس لوگوں نے نحوست کا تذکرہ فرمایا تو آپ نے فرمایا: اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو گھر،عورت اور گھوڑے میں ہوتی۔[صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب مایتقی من شؤم المرأۃ،حدیث:۵۰۹۴]
حدیث : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ ».
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے،تو ہر شخص کو دیکھ لینا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔[سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب من یؤمر ان یجالس، حدیث:۴۸۳۳ ]
حدیث : عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّمَا امْرِئٍ قَالَ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا إِنْ كَانَ كَمَا قَالَ وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَيْهِ ۔
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کہتا ہے"ائے کافر" تو وہ ضرور اُن دونوں میں سے کسی ایک کی طرف لوٹتا ہے۔جسے کہا گیا اگر وہ واقعی کافر ہے تو ٹھیک ۔نہیں تو اسی کی طرف لوٹ جاتا ہے۔[صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم یا کافر،حدیث:۶۰]
حدیث : عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ الإِيمَانَ لَيَخْلَقُ فِي جَوْفِ أَحَدِكُمْ كَمَا يَخْلَقُ الثَّوْبُ الْخَلِقُ ، فَاسْأَلُوا اللَّهَ أَنْ يُجَدِّدَ الإِيمَانَ فِي قُلُوبِكُمْ .
تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بے شک ایمان تمہارے سینوں میں اسی طرح خراب ہوتا رہتا ہے جس طرح کپڑا بوسیدہ اور پُرانا ہو جاتا ہے،تو تم اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرو کہ وہ تمہارے ایمان کو تازہ کرتا رہے۔[المستدرک،کتاب الایمان،حدیث:۵]
حدیث : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيبًا فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ ۔
تر جمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا :اسلام غریبوں سے شروع ہوا اور عنقریب غریبوں ہی کی طرف پلٹ آئے گا تو غریبوں کے لئے خوشخبری ہو۔[صحیح مسلم،کتاب الایمان، باب بیان انّ الاسلام بدأ غریبا و سیعود غریبا،حدیث:۱۴۵]