احادیث رسول ﷺ



جس عنوان پر احادیث پڑھنا چاہتے ہیں،اس پر کلک کریں،اور پھر اسی پر کلک کر کے بند کریں




ایمان

حدیث : عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ.

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔(۱)اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اور بے شک محمداللہ کے رسول ہیں۔ (۲)نماز قائم کرنا۔(۳)زکوٰۃ ادا کرنا۔(۴) حج کرنا۔ (۵)رمضان کے مہینے کا روزہ رکھنا۔[صحیح بخاری،کتاب الایمان،حدیث:۷]

حدیث:حَدَّثَنِى أَبِى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ لاَ يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلاَ يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِى عَنِ الإِسْلاَمِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « الإِسْلاَمُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمَ الصَّلاَةَ وَتُؤْتِىَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلاً. قَالَ صَدَقْتَ. قَالَ فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ. قَالَ فَأَخْبِرْنِى عَنِ الإِيمَانِ. قَالَ « أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ ». قَالَ صَدَقْتَ. قَالَ فَأَخْبِرْنِى عَنِ الإِحْسَانِ. قَالَ « أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ ». قَالَ فَأَخْبِرْنِى عَنِ السَّاعَةِ. قَالَ « مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ ». قَالَ فَأَخْبِرْنِى عَنْ أَمَارَتِهَا. قَالَ « أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِى الْبُنْيَانِ ». قَالَ ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا ثُمَّ قَالَ لِى « يَا عُمَرُ أَتَدْرِى مَنِ السَّائِلُ ». قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ « فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ ».َ.

ترجمہ: حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک ایک شخص نمودار ہوئے،نہایت سفید کپڑے اور انتہائی کالے بال والے،ان پر سفر کا کوئی اثر نہیں دیکھائی دے رہا تھا اور ہم میں سے کوئی اُنہیں جانتا بھی نہیں تھا،بالآخر وہ نبی کریم کے پاس بیٹھ گئے اور اپنے گھٹنے کو حضور کے گھٹنے سے ملادیا اور اپنا ہاتھ حضور کے زانو مبارک پر رکھ دیا اور عرض کیا: یا محمدﷺ ! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے۔حضور اکرمﷺ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ،اور نماز قائم کرو ،زکوٰۃ ادا کرو،رمضان کے روزے رکھو اور اگر طاقت ہوتو بیتُ اللہ شریف کا حج کرو۔اُس شخص نے کہا:آپ نے سچ فرمایا۔حضرت عمر کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی تصدیق بھی کرتا ہے۔اس کے بعد آنے والے شخص نے عرض کیا:مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر،اس کے فرشتوں پر،اس کی کتابوں پر،اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر یقین کرو اور تقدیر کی اچھائی اور برائی کا یقین کرو۔اُس شخص نے کہا کہ آپ نے سچ فر مایا پھر عرض کیا کہ مجھے احسان کے بارے میں بتائیے۔آپﷺ نے فرمایا :احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اِس کیفیت کے ساتھ کرو کہ تم اُسے دیکھ رہے ہو اور اگر یہ مرتبہ حاصل نہ ہو تو اتنا یقین رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔اُس شخص نے عرض کیا:مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے۔آپﷺ نے فرمایا جس سے سوال کیا گیا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا،اُس شخص نے کہا اچھا تو اس کی نشانیوں کے بارے میں بتائیے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ لونڈی اپنے مالکن کو جنے گی اور تم دیکھوگے کہ ننگے پاؤں ننگے بدن رہنے والے تنگ دست چرواہے بڑی بڑی عمارتوں پر اِترائیں گے۔حضرت عمر کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلے گئے اور میں کچھ دیر تک ٹھہرا رہا تو مجھ سے نبی کریمﷺ نے فرمایا:ائے عمر! کیا تم جانتے ہو کہ سوال کرنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا:اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا یہ (حضرت) جبرئیل (علیہ السلام )تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لئے آئے تھے۔ [صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان الایمان والاسلام والاحسان الخ،حدیث:۸]

حدیث : عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : لاَ يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ بِأَرْبَعٍ : بِاللَّهِ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ ، وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ ، وَالْقَدَرِ.

ترجمہ: حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:کوئی بندہ اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ چار باتوں پر ایمان نہ لے آئے۔۱:پہلی بات یہ کہ اللہ ایک ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں۔۲:اور بے شک میں اللہ کا رسول ہوں۔۳:مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو نا حق ہے۔۴:اور تقدیر حق ہے۔[ابن ماجہ،المقدمہ،باب فی القدر،حدیث:۸۱]

حدیث : عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : إِنَّ مَجُوسَ هَذِهِ الأُمَّةِ الْمُكَذِّبُونَ بِأَقْدَارِ اللهِ ، إِنْ مَرِضُوا فَلاَ تَعُودُوهُمْ ، وَإِنْ مَاتُوا فَلاَ تَشْهَدُوهُمْ ، وَإِنْ لَقِيتُمُوهُمْ فَلاَ تُسَلِّمُوا عَلَيْهِمْ.

ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اس امت کے مجوسی اللہ کی تقدیر کو جھٹلانے والے لوگ ہیں،اگر وہ بیمار ہوں تو اُن کی عیادت نہ کرو اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے نماز جنازہ میں نہ جاؤ اور اگر ان سے ملاقات ہوجائے تو ان سے سلام نہ کرو۔[ابن ماجہ،المقدمہ،باب فی القدر،حدیث:۹۲]

حدیث: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : صِنْفَانِ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ لَيْسَ لَهُمَا فِي الإِسْلاَمِ نَصِيبٌ الْمُرْجِئَةُ , وَالْقَدَرِيَّةُ.

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس امت کے دو گروہ ایسے ہیں جن کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے۔پہلا مرجئہ ہے اور دوسرا قدریہ ہے۔[ابن ماجہ،المقدمہ،باب فی القدر،حدیث:۷۳] (مرجئہ فرقہ اس بات کا قائل ہے کہ ایمان لانے کے بعد کوئی گناہ نقصان نہیں پہونچاتا ہے،اور قدریہ تقدیر کے انکار کرنے والے کو کہا جاتا ہے۔)

حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهُ قَالَ « وَالَّذِى نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لاَ يَسْمَعُ بِى أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ يَهُودِىٌّ وَلاَ نَصْرَانِىٌّ ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِى أُرْسِلْتُ بِهِ إِلاَّ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ».

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے۔اِس امت کا کوئی بھی یہودی اور عیسائی جو میری بات سنے جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں (یعنی اسلام) اور وہ اُس پر ایمان نہ لائے تو اس کا ٹھکانہ جہنم والوں میں سے ہوگا۔[صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب وجوب الایمان برسالۃ نبینا محمد الی جمیع الناس ونسخ الملل بملتہ،حدیث:۱۵۳]

حدیث: حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَابْنُ أَمَتِهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَأَنَّ النَّارَ حَقٌّ أَدْخَلَهُ اللَّهُ مِنْ أَىِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ شَاءَ ».

ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس بات کا قائل ہو جائے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں،اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے نبی،حضرت مریم کے بیٹے اور کلمۃ اللہ ہیں جو اس نے حضرت مریم کی طرف القا کیا کیا تھا اور روح اللہ ہیں اور یہ کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے تو وہ جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے۔[صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب الدلیل علی انّ من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعا،حدیث:۲۸]

حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « وَاللَّهِ لَيَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَادِلاً فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ وَلَيَضَعَنَّ الْجِزْيَةَ وَلَتُتْرَكَنَّ الْقِلاَصُ فَلاَ يُسْعَى عَلَيْهَا وَلَتَذْهَبَنَّ الشَّحْنَاءُ وَالتَّبَاغُضُ وَالتَّحَاسُدُ وَلَيَدْعُوَنَّ إِلَى الْمَالِ فَلاَ يَقْبَلُهُ أَحَدٌ ».

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم!حضرت عیسیٰ ابن مریم ضرور اتریں گے،وہ انصاف کرنے والے حاکم ہوں گے تو وہ صلیب توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے،جزیہ موقوف کریں گے اور جوان اونٹنیاں چھوڑیں گے مگر ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرے گا،لوگوں کے دلوں سے کینہ،بغض اور حسد ختم ہو جائے گا،وہ لوگوں کو مال و دولت کی طرف بلائیں گے مگر کوئی بھی مال قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔[صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب نزول عیسیٰ ابن مریم حاکما بشریعۃ نبینا محمد ،حدیث:۱۵۵]

حدیث: عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ - قَالَ أَبُو بَكْرٍ رُبَّمَا قَالَ وَكِيعٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ مُعَاذًا - قَالَ بَعَثَنِى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « إِنَّكَ تَأْتِى قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ. فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنِّى رَسُولُ اللَّهِ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِى كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ فِى فُقَرَائِهِمْ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ ».

تر جمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺ نے (یمن کی طرف) بھیجا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک تم اہلِ کتاب کے کچھ لوگوں کے پاس جارہے ہو،پہلے تم انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور بے شک میں اللہ کا رسول ہوں۔اگر وہ اس کو مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے دن رات میں پانچ نمازیں ان پر فرض فر مایا ہے۔اگر وہ اِس کو بھی مان لیں تو اُن کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر زکوٰۃ فرض فرمایا ہے جو دولت مندوں سے لے کر انہی کے غریب طبقہ میں تقسیم کی جائے گی۔اب اگر وہ اِس کو بھی مان لیں تو تم اُن کا بہترین مال ہر گز نہ لینا اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا کیونکہ مظلوم کی بددعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔۔[صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب الدعا الی الشھادتین وشرائع الاسلام ،حدیث:۱۹]

حدیث: عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « يَا مُعَاذُ أَتَدْرِى مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ ». قَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ « أَنْ يُعْبَدَ اللَّهُ وَلاَ يُشْرَكَ بِهِ شَىْءٌ - قَالَ - أَتَدْرِى مَا حَقُّهُمْ عَلَيْهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ ». فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.قَالَ « أَنْ لاَ يُعَذِّبَهُمْ »

تر جمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ائے معاذ!کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا:اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا:وہ یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔آپ نے فرمایا:کیا تو جانتا ہے کہ بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر کیا ہے؟ جب وہ ایسا کریں۔میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:یہ ہے کہ وہ اُن کو عذاب نہ دے۔[ صحیح مسلم،کتاب الایمان، باب الدلیل علی انّ من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعا،حدیث:۳۰]

حدیث: عَنْ أَبِى ذَرٍّ - رضى الله عنه - قَالَ خَرَجْتُ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِى فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَمْشِى وَحْدَهُ ، وَلَيْسَ مَعَهُ إِنْسَانٌ - قَالَ - فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَكْرَهُ أَنْ يَمْشِىَ مَعَهُ أَحَدٌ - قَالَ - فَجَعَلْتُ أَمْشِى فِى ظِلِّ الْقَمَرِ فَالْتَفَتَ فَرَآنِى فَقَالَ « مَنْ هَذَا » . قُلْتُ أَبُو ذَرٍّ جَعَلَنِى اللَّهُ فِدَاءَكَ . قَالَ « يَا أَبَا ذَرٍّ تَعَالَهْ » . قَالَ فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً فَقَالَ « إِنَّ الْمُكْثِرِينَ هُمُ الْمُقِلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، إِلاَّ مَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ خَيْرًا ، فَنَفَحَ فِيهِ يَمِينَهُ وَشِمَالَهُ وَبَيْنَ يَدَيْهِ وَوَرَاءَهُ ، وَعَمِلَ فِيهِ خَيْرًا » . قَالَ فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً فَقَالَ لِى « اجْلِسْ هَا هُنَا » . قَالَ فَأَجْلَسَنِى فِى قَاعٍ حَوْلَهُ حِجَارَةٌ فَقَالَ لِى « اجْلِسْ هَا هُنَا حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكَ » . قَالَ فَانْطَلَقَ فِى الْحَرَّةِ حَتَّى لاَ أَرَاهُ فَلَبِثَ عَنِّى فَأَطَالَ اللُّبْثَ ، ثُمَّ إِنِّى سَمِعْتُهُ وَهْوَ مُقْبِلٌ وَهْوَ يَقُولُ « وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى » . قَالَ فَلَمَّا جَاءَ لَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قُلْتُ يَا نَبِىَّ اللَّهِ جَعَلَنِى اللَّهُ فِدَاءَكَ مَنْ تُكَلِّمُ فِى جَانِبِ الْحَرَّةِ مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَرْجِعُ إِلَيْكَ شَيْئًا . قَالَ « ذَلِكَ جِبْرِيلُ - عَلَيْهِ السَّلاَمُ - عَرَضَ لِى فِى جَانِبِ الْحَرَّةِ ، قَالَ بَشِّرْ أُمَّتَكَ أَنَّهُ مَنْ مَاتَ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ ، قُلْتُ يَا جِبْرِيلُ وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى قَالَ نَعَمْ . قَالَ قُلْتُ وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى قَالَ نَعَمْ ، وَإِنْ شَرِبَ الْخَمْرَ » .

ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:میں ایک رات باہر نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہﷺ اکیلے چلے جا رہے ہیں،آپ کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہے۔میں سمجھا شاید آپ کو اچھا نہ لگتا ہو کہ کوئی آپ کے ساتھ چلے،میں چاند کے سائے میں چلنے لگا،آپ نے میری طرف دیکھا تو فرمایا: کون ہو؟ میں نے کہا:مجھے اللہ تعالیٰ آپ پر قربان کرے،میں ابو ذر ہوں۔آپﷺ نے فرمایا:ابوذر آجاؤ،میں کچھ دیر آپ کے ساتھ چلا تو آپﷺ نے فرمایا:زیادہ جمع کرنے والے قیامت کے دن سب سے کم مال والے ہوں گے سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ مال عطا کرے،تو وہ اُسے دائیں بائیں آگے پیچھے خرچ کرے اور اس کے ساتھ بھلائی کے کام کرے۔پھر میں کچھ دیر آپ کے ساتھ چلتا رہا آپ نے مجھے ایک نرم زمین پر بیٹھایا جس کے ارد گرد پتھر پڑے ہوئے تھے،آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:یہاں بیٹھے رہو جب تک میں واپس نہ آجاؤں،آپ حرہ (نامی وادی) میں چلتے ہوئےآنکھوں سے اوجھل ہو گئے،پھرمیں نے کافی دیر بعد آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے آتے سنا کہ "اگرچہ وہ چوری کرے یا زنا کرے"جب آپ آئے تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا،میں نے عرض کیا:ائے اللہ کے نبی ﷺ ! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے،حرہ کی طرف کس شخص سے بات کی جارہی تھی؟ میں نے کسی شخص کو جواب دیتے ہوئے نہیں سنا۔آپ ﷺ نے فرمایا:وہ جبرئیل تھے جو حرہ کی جانب مجھ سے ملے اور کہنے لگے اپنی امت کو خوشخبری دے دیجئے کہ جو شخص اس حال میں دنیا سے گیا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھہرایا وہ جنت میں داخل ہو گا۔میں نے کہا:ائے جبرئیل اگرچہ اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو؟ جبرئیل نے کہا:ہاں۔میں نے کہا:اگرچہ اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو؟ جبرئیل نے کہا:ہاں۔اگرچہ اس نے شراب بھی کیوں نہ پی ہو۔(اس حدیث شریف کا خلاصہ یہ ہے کہ گناہ کبیرہ کرنے سے کوئی مومن اسلام سے خارج نہیں ہوتا) [صحیح بخاری،کتاب الرقاق،باب المکثرون ہم المقلون،حدیث:۵۹۶۲]

حدیث: عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِىِّ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- صَلاَةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ فِى إِثْرِ السَّمَاءِ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ « هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ». قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ « قَالَ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِى مُؤْمِنٌ بِى وَكَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ.فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِى وَكَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا. فَذَلِكَ كَافِرٌ بِى مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ ».

ترجمہ: حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حدیبیہ میں رسول اللہﷺ نےہم لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی،اس وقت رات کی بارش کا اثر باقی تھا،نماز سے فارغ ہو کر آپ نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا:اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں،آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے کچھ بندے صبح ایمان پر اور کچھ کفر پر کرتے ہیں،جس نے کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوتی ہے تو یہ مجھ پر ایمان لانے والے ہیں اور ستاروں کا انکار کرنے والے ہیں اور جس نے کہا کہ فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوتی ہے تو وہ میرا انکار کرنے والے اور ستاروں پر ایمان لانے والے ہیں۔[صحیح مسلم، کتاب لاایمان،باب مُطرنا بالنوء،حدیث:۷۱]

حدیث : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لاَ يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتَّى يُقَالَ هَذَا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ آمَنْتُ بِاللَّهِ ».

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا کہ مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ تو جو آدمی اپنے دل میں اس طرح کا کوئی وسوسہ اپنے دل میں پائے تو وہ بس یہ کہے کہ میں اللہ پر ایمان لایا۔۔[صحیح مسلم، کتاب لاایمان،باب بیان الوسوسۃ فی الایمان وما یقولہ من وجدھا،حدیث:۳۴ ۱]

حدیث : عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ ذَكَرُوا الشُّؤْمَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ كَانَ الشُّؤْمُ فِي شَيْءٍ فَفِي الدَّارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ.

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ کے پاس لوگوں نے نحوست کا تذکرہ فرمایا تو آپ نے فرمایا: اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو گھر،عورت اور گھوڑے میں ہوتی۔[صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب مایتقی من شؤم المرأۃ،حدیث:۵۰۹۴]

حدیث : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ ».

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے،تو ہر شخص کو دیکھ لینا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔[سنن ابی داؤد،کتاب الادب،باب من یؤمر ان یجالس، حدیث:۴۸۳۳ ]

حدیث : عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّمَا امْرِئٍ قَالَ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا إِنْ كَانَ كَمَا قَالَ وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَيْهِ ۔

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کہتا ہے"ائے کافر" تو وہ ضرور اُن دونوں میں سے کسی ایک کی طرف لوٹتا ہے۔جسے کہا گیا اگر وہ واقعی کافر ہے تو ٹھیک ۔نہیں تو اسی کی طرف لوٹ جاتا ہے۔[صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم یا کافر،حدیث:۶۰]

حدیث : عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ الإِيمَانَ لَيَخْلَقُ فِي جَوْفِ أَحَدِكُمْ كَمَا يَخْلَقُ الثَّوْبُ الْخَلِقُ ، فَاسْأَلُوا اللَّهَ أَنْ يُجَدِّدَ الإِيمَانَ فِي قُلُوبِكُمْ .

تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بے شک ایمان تمہارے سینوں میں اسی طرح خراب ہوتا رہتا ہے جس طرح کپڑا بوسیدہ اور پُرانا ہو جاتا ہے،تو تم اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرو کہ وہ تمہارے ایمان کو تازہ کرتا رہے۔[المستدرک،کتاب الایمان،حدیث:۵]

حدیث : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيبًا فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ ۔

تر جمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا :اسلام غریبوں سے شروع ہوا اور عنقریب غریبوں ہی کی طرف پلٹ آئے گا تو غریبوں کے لئے خوشخبری ہو۔[صحیح مسلم،کتاب الایمان، باب بیان انّ الاسلام بدأ غریبا و سیعود غریبا،حدیث:۱۴۵]

علاماتِ ایمان

حدیث : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنْ الطَّرِيقِ وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنْ الْإِيمَانِ ۔

تر جمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا :ایمان کی ستر[۷۰] سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں۔اُن میں سب سے افضل لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کا اقرار کرنا ہے اور ان میں سب سے نچلا درجہ کسی تکلیف دینے والی چیز کو راستے سے دور کر دینا ہے۔اور حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔[صحیح مسلم،کتاب الایمان،حدیث:۵۱]

حدیث : عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ۔

تر جمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والدین،اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ [صحیح بخاری،کتاب الایمان،حدیث:۱۴]

حدیث : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ ۔

تر جمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ: جس شخص کے اندر تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس کو پالے گا۔[۱]اللہ اور اس کارسول اُسے باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں۔[۲]جس شخص سے بھی اُسے محبت ہووہ صرف اللہ کی وجہ سے ہو۔[۳]وہ کفر میں لوٹنے کو اسی طرح ناپسند کرتا ہو جیسے آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہو۔[صحیح بخاری،کتاب الایمان،حدیث:۱۵]

حدیث : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلُوهُ إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ قَالَ وَقَدْ وَجَدْتُمُوهُ قَالُوا نَعَمْ قَالَ ذَاكَ صَرِيحُ الْإِيمَانِ۔

تر جمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ صحابہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا کہ :ہمارے دل میں کچھ ایسے خیالات آجاتے ہیں کہ ہم اُسے بول نہیں سکتے ۔تو نبی کریم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ : وہ تو ایمان کی واضح علامت ہے۔ [صحیح مسلم،کتاب الایمان،حدیث:۱۸۸]

حدیث : عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ۔

تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے۔[صحیح بخاری،کتاب الایمان،حدیث:۹]

حدیث : عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاأَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ قَالَ تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ ۔

تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ!کون سا اسلام سب سےبہتر ہے؟تو حضور ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:کھانا کھلاؤ۔اور جسے پہچانتے ہو اسے سلام کرو اور جسے نہیں پہچانتے ہو اسے بھی سلام کرو۔[صحیح بخاری،کتاب الایمان،حدیث:۱۱]

حدیث : عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ ۔

تر جمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مکمل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے وہی چیز نہ پسند کرے جو اپنے لئے کرتا ہے۔۔[صحیح بخاری،کتاب الایمان،حدیث:۱۲]

حدیث : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إِنَّ الْمُؤْمِنَ يَأْلَفُ ، وَلاَ خَيْرَ فِيمَنْ لاَ يَأْلَفُ وَلاَ يُؤْلَفُ .

تر جمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا :بے شک مومن اُلفت کرنے والا ہوتا ہے۔اور اس شخص کے اندر کوئی بھلائی نہیں جو دوسروں سے اُلفت نہیں کرتا اور نہیں اس سے اُلفت کیا جاتا ہے۔۔[ المستدرک للحاکم،کتاب الایمان،حدیث:۵۹]

حدیث : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا.

تر جمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا :زیادہ کامل مومن وہ ہیں جن کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں۔[ المستدرک للحاکم،کتاب الایمان،حدیث:۱]

حدیث : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ۔

تر جمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا :جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ جب بولے تو اچھی بات بولے ،نہیں تو چُپ رہے۔اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے ۔اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے مہمانوں کی عزت کرے۔[صحیح مسلم،کتاب الایمان،حدیث:۵۱]

حدیث: عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ قِيلَ وَمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَايِقَهُ.

ترجمہ: حضرت ابو شریح روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: قسم اﷲ تعالیٰ کی وہ مومن نہیں، قسم اﷲ تعالیٰ کی وہ مومن نہیں، قسم اﷲ تعالیٰ کی وہ مومن نہیں۔ میں نے کہا یا رسول اﷲ ﷺ کون مومن نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا : وہ آدمی جس کے پڑوسی اس کی شرارتوں اور آفتوں سے محفوظ نہ ہوں۔[صحیح بخاری،کتاب الادب،باب اثم من لا یأمن من جارہ بوائقہ، حدیث:۶۰۱۶ ]

حدیث : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا أَوَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ۔

تر جمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا : تم لوگ جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک کہ مومن نہیں بن جاؤ۔اور تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔تو کیا میں تم لوگوں کووہ چیز نہ بتادوں کہ جب تم وہ کروگے تو آپس میں محبت پیدا ہوگی۔وہ چیز یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔۔[صحیح مسلم،کتاب الایمان،حدیث:۸۱]

حدیث : عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهُ رَجُلٌ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ مَا الإِيمَانُ ؟ قَالَ : إِذَا سَرَّتْكَ حَسَنَتُكَ وَسَاءَتْكَ سَيِّئَتُكَ فَأَنْتَ مُؤْمِنٌ . فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ مَا الإِثْمُ ؟ قَالَ : إِذَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ شَيْءٌ فَدَعْهُ .

تر جمہ: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے پو چھا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ایمان کیا ہے؟تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:جب تمہاری نیکی تمہیں خوش کرے اور تمہاری برائی تمہیں غمگین کرے تو تم مومن ہو۔پھر انہوں نے پو چھا کہ یا رسول اللہ ﷺ!گناہ کیا ہے؟تو آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:جب تمہارے دل میں کوئی چیز کھٹکے تو تم اس چیز کو چھوڑ دو۔[ المستدرک للحاکم،کتاب الایمان،حدیث:۳۳]

حدیث : عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِىِّ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « الدِّينُ النَّصِيحَةُ » قُلْنَا لِمَنْ قَالَ « لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ ».

تر جمہ: حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ہم نے عرض کیا:کس سے خیر خواہی؟ تو آپ نے فرمایا:اللہ،اس کی کتاب،اس کے رسول،مسلمانوں کے ائمہ اور عام مسلمانوں سے۔ [صحیح مسلم،کتاب الایمان، باب بیان انّ الدین النصیحۃ ،حدیث:۵۵]

حدیث : عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِىِّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « مَنْ أَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ وَأَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَنْكَحَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ إِيمَانَهُ ».

تر جمہ: حضرت سہل بن معاذ بن انس جہنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ کے لئے دیا اور اللہ ہی کے لئے دینے سے رُک گیا،اور اللہ کے لئے محبت کیا اور اللہ ہی کے لئے دشمنی کیا اور اللہ ہی کے لئے نکاح کیا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔[ترمذی،کتاب صفۃ القیامۃ،باب:۶۰،حدیث:۲۵۲۱]

حدیث : عَنْ أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا ».

تر جمہ: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: مومن مومن کے لئے دیوار کی طرح ہوتا ہے جس کا بعض حصہ بعض حصے کو تقویت دیتا ہے۔[بخاری،کتاب المظالم،باب نصر المظلوم،حدیث:۲۴۴۶]

حدیث : عَنْ صفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، أَنَّهُ قِيلَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ جَبَانًا ؟ قَالَ: " نَعَمْ " قِيلَ: أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ بَخِيلًا ؟ قَالَ: " نَعَمْ " فَقِيلَ لَهُ: أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ كَذَّابًا ؟ قَالَ: " لَا ".

تر جمہ: حضرت صفوان بن سلیم بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ سے پو چھا گیا: کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا:ہاں۔کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا:ہاں۔پھر پو چھا گیا کہ کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔[شعب الایمان،باب حفظ اللسان عما لا یحتاج الیہ،حدیث:۴۴۷۲]

حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « الْمُؤْمِنُ غِرٌّ كَرِيمٌ وَالْفَاجِرُ خِبٌّ لَئِيمٌ ».

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مومن غیرت مند ،صاف دل ، شریف ہوتا ہے۔ اور بدبخت دھوکا دینے والا کمینہ ہوتا ہے۔[ترمذی،کتاب البر والصلۃ،باب ماجاء فی البخل،حدیث:۱۹۶۴]

محبتِ الٰہی

حدیث: عَنْ أَبِى الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « كَانَ مِنْ دُعَاءِ دَاوُدَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِى يُبَلِّغُنِى حُبَّكَ اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَىَّ مِنْ نَفْسِى وَأَهْلِى وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ ».

ترجمہ: حضرت ابودرداءرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:حضرت داؤد علیہ السلام دعا کرتے ہوئے کہتے تھے" یا اللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اُس شخص کی محبت جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کی توفیق جو مجھے تیری محبت تک پہونچائے،یااللہ! تو اپنی محبت کو میرے نزدیک میری جان،میرے بیوی بچوں اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب بنادے۔[ترمذی،کتاب الدعوات،باب:۷۳،حدیث:۳۴۹۰]

حدیث: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يَؤُمُّهُمْ فِى مَسْجِدِ قُبَاءَ فَكَانَ كُلَّمَا افْتَتَحَ سُورَةً يَقْرَأُ لَهُمْ فِى الصَّلاَةِ فَقَرَأَ بِهَا افْتَتَحَ بِ (قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا ثُمَّ يَقْرَأُ بِسُورَةٍ أُخْرَى مَعَهَا وَكَانَ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِى كُلِّ رَكْعَةٍ فَكَلَّمَهُ أَصْحَابُهُ فَقَالُوا إِنَّكَ تَقْرَأُ بِهَذِهِ السُّورَةِ ثُمَّ لاَ تَرَى أَنَّهَا تُجْزِيكَ حَتَّى تَقْرَأَ بِسُورَةٍ أُخْرَى فَإِمَّا أَنْ تَقْرَأَ بِهَا وَإِمَّا أَنْ تَدَعَهَا وَتَقْرَأَ بِسُورَةٍ أُخْرَى. قَالَ مَا أَنَا بِتَارِكِهَا إِنْ أَحْبَبْتُمْ أَنْ أَؤُمَّكُمْ بِهَا فَعَلْتُ وَإِنْ كَرِهْتُمْ تَرَكْتُكُمْ. وَكَانُوا يَرَوْنَهُ أَفْضَلَهُمْ وَكَرِهُوا أَنْ يَؤُمَّهُمْ غَيْرُهُ فَلَمَّا أَتَاهُمُ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- أَخْبَرُوهُ الْخَبَرَ فَقَالَ « يَا فُلاَنُ مَا يَمْنَعُكَ مِمَّا يَأْمُرُ بِهِ أَصْحَابُكَ وَمَا يَحْمِلُكَ أَنْ تَقْرَأَ هَذِهِ السُّورَةَ فِى كُلِّ رَكْعَةٍ ». فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّى أُحِبُّهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّ حُبَّهَا أَدْخَلَكَ الْجَنَّةَ ».

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:ایک انصاری شخص مسجد قبا میں امامت کرتے تھے،ان کی عادت یہ تھی کہ جب بھی وہ کوئی سورت نماز میں پڑھنا چاہتے تو اُسے پڑھتے لیکن اُس سورت سے پہلے"قل ہو اللہ احد" پوری پڑھتے،اس کے بعد دوسری سورت پڑھتے،وہ ایسا ہر رکعت میں کرتے تھے۔اُن کے ساتھیوں نے اُن سے اِس بارے میں بات کیا اور کہا:آپ یہ سورت پڑھتے ہیں پھر آپ خیال کرتے ہیں کہ یہ تو آپ کے لئے کافی نہیں ہے یہاں تک کہ دوسری سورت بھی پڑھتے ہیں،تو آپ یا تو صرف اِسی کو پڑھیں،یا اِسے چھوڑ دیں اور کوئی دوسری سورت پڑھیں۔انہوں نے جواب دیا:میں اِسے چھوڑنے والا نہیں ہوں،اگر آپ لوگ پسند کریں کہ میں اِسے پڑھنے کے ساتھ ساتھ امامت کروں تو امامت کروں گا اور اگر آپ لوگ اِس کے ساتھ امامت کرنا پسند نہیں کرتے تو میں امامت چھوڑ دوں گا۔اور لوگوں کا یہ حال تھا کہ ان کو اپنوں میں سب سے افضل سمجھتے تھے اور ناپسند کرتے تھے کہ اُن کے علاوہ اور کوئی امامت کرے۔چنانچہ جب حضور نبی کریمﷺ آئے تو لوگوں نے آپ کو ساری بات بتائی۔آپ ﷺ نے فرمایا:ائے فلاں،تمہارے ساتھی جو بات کہہ رہے ہیں،اس پر عمل کرنے سے تمہیں کیا چیز روک رہی ہے اور تمہیں کیا چیز اس پر ابھار رہی ہے کہ تم ہر رکعت میں اِس سورت کو پڑھو؟ انہوں نے عرض کیا: ائے اللہ کے رسول ﷺ ! میں اس سورت کو پسند کرتا ہوں [ کیونکہ اس میں اللہ کریم کی صفات کا ذکر ہے] آپ نے فرمایا: بے شک اس سورت کی محبت تجھے جنت میں لے جائے گی۔ [ترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ماجاء فی سورۃ الاخلاص،حدیث:۲۹۰۱]

حدیث: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « أَحِبُّوا اللَّهَ لِمَا يَغْذُوكُمْ مِنْ نِعَمِهِ وَأَحِبُّونِى بِحُبِّ اللَّهِ وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِى لِحُبِّى ».

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :اللہ سے محبت کرو کیونکہ وہ اپنی نعمتوں سےتمہاری پرورش فرماتا ہے،اور مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کی وجہ سے اور میرے اہل بیت سے محبت کرو مجھ سے محبت کی وجہ سے۔[ترمذی،کتاب فضائل المناقب،باب مناقب اہل بیت النبی ،حدیث:۳۷۸۹]

حدیث: أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ « جَعَلَ اللَّهُ الرَّحْمَةَ مِائَةَ جُزْءٍ ، فَأَمْسَكَ عِنْدَهُ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ جُزْءًا ، وَأَنْزَلَ فِى الأَرْضِ جُزْءًا وَاحِدًا ، فَمِنْ ذَلِكَ الْجُزْءِ يَتَرَاحَمُ الْخَلْقُ ، حَتَّى تَرْفَعَ الْفَرَسُ حَافِرَهَا عَنْ وَلَدِهَا خَشْيَةَ أَنْ تُصِيبَهُ » .

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے بنایا تو اُن میں سے ننانوے حصہ اپنے پاس رکھا اور صرف ایک حصہ زمین پر اتارا،تو اسی ایک حصے کی وجہ سے مخلوق آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے یہاں تک کہ گھوڑی بھی اپنے سُم اپنے بچے کو نہیں لگنے دیتی ہے بلکہ سُموں کو اٹھا لیتی ہے کہ کہیں اس کے بچے کو تکلیف نہ پہنچے۔[بخاری ،کتاب الادب ،باب جعل اللہ الرحمۃ مأۃ جزء،حدیث:۶۰۰۰]

حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ عَبْدًا نَادَى جِبْرِيلَ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا ، فَأَحِبَّهُ . فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ ، فَيُنَادِى جِبْرِيلُ فِى أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا ، فَأَحِبُّوهُ . فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ ، ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِى أَهْلِ الأَرْضِ » .

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے محبت فرماتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو آواز دیتا ہے کہ"بے شک اللہ فلاں بندےسے محبت کرتا ہے،تم بھی اس سے محبت کرو"تو حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں،پھر وہ تمام آسمان والوں میں آواز دیتے ہیں کہ"اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت فرماتا ہے، تم بھی اس سے محبت کرو" تو آسمان والے اُس سے محبت کرنے لگتے ہیں،پھر زمین والوں[کے دلوں] میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ [بخاری ،کتاب الادب ،باب المقۃ من اللہ تعالیٰ،حدیث:۶۰۴۰]

حدیث: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم - مَتَّى السَّاعَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ « مَا أَعْدَدْتَ لَهَا » . قَالَ مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ كَثِيرِ صَلاَةٍ وَلاَ صَوْمٍ وَلاَ صَدَقَةٍ ، وَلَكِنِّى أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ . قَالَ « أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ » .

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی کریمﷺ سے سوال کیا: یا رسول اللہ ! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا: تم نے اس کے لئے کیا تیاری کیا ہے؟ انہوں نے کہا:میں نے اس کے لئے بہت زیادہ نماز،روزہ اور صدقہ نہیں تیار کیا ہے لیکن میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں،آپ نے فرمایا: تم اُسی کے ساتھ [قیامت کے دن ]رہوگے جن سے محبت کرتے ہو۔[بخاری ،کتاب الادب ،باب علامۃ الحب فی اللہ،حدیث:۶۱۷۱]

حدیث: عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رضى الله عنه - قَدِمَ عَلَى النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - سَبْىٌ ، فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنَ السَّبْىِ قَدْ تَحْلُبُ ثَدْيَهَا تَسْقِى ، إِذَا وَجَدَتْ صَبِيًّا فِى السَّبْىِ أَخَذَتْهُ فَأَلْصَقَتْهُ بِبَطْنِهَا وَأَرْضَعَتْهُ ، فَقَالَ لَنَا النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - « أَتَرَوْنَ هَذِهِ طَارِحَةً وَلَدَهَا فِى النَّارِ » . قُلْنَا لاَ وَهْىَ تَقْدِرُ عَلَى أَنْ لاَ تَطْرَحَهُ . فَقَالَ « اللَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا » .

ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے،قیدیوں میں ایک عورت تھی،جس کا پستان دودھ سے بھرا ہواتھا اور وہ دوڑ رہی تھی،اتنے میں اُسے قیدیوں میں ایک بچہ ملا اس نے جھٹ سے اُس بچے کو اپنے پیٹ سے لگالیااور اُس کو دودھ پلانے لگی۔حضور نبی کریم نے ہم لوگوں سے فرمایا: کیا تم لوگ خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں پھینک سکتی ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ نہیں،جب تک اِس کو قدرت ہوگی یہ اپنے بچے کو آگ میں نہیں پھینک سکتی۔حضور نبی کریم نے اِس پر فرمایا کہ:اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اِس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہو سکتی ہے۔[بخاری ،کتاب الادب ،باب رحمۃ الولدوتقبیلہ ومعانقتہ،حدیث:۵۹۹۹]

حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - « إِنَّ اللَّهَ قَالَ مَنْ عَادَى لِى وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَىَّ عَبْدِى بِشَىْءٍ أَحَبَّ إِلَىَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِى يَتَقَرَّبُ إِلَىَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِى يَسْمَعُ بِهِ ، وَبَصَرَهُ الَّذِى يُبْصِرُ بِهِ ، وَيَدَهُ الَّتِى يَبْطُشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِى يَمْشِى بِهَا ، وَإِنْ سَأَلَنِى لأُعْطِيَنَّهُ ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِى لأُعِيذَنَّهُ ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَىْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِى عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ ، يَكْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ » .

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ،حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نےارشاد فر مایا: جس نے میرے کسی ولی [دوست] سے دشمنی کی تو اُسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے۔اور میرا بندہ جن عبادتوں کے ذریعے میرے قریب ہوتا ہے ان میں مجھے سب سے زیادہ پسند وہ عبادت ہے جو میں نے اُس پر فر ض کیا ہے۔ اور میرا بندہ [فرائض کی پابندی کے ساتھ] نفلی عبادتوں کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں،پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے،اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے،اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے،اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اُسے عطا کرتا ہوں،اور اگر وہ کسی دشمن یا شیطان وغیرہ سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں،اور جو کام میں کرنا چاہتا ہوں اُس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے،وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اس کی تکلیف پسند نہیں کرتا۔[بخاری،کتاب الرقاق،باب التواضع،حدیث:۶۵۰۲]

حدیث: حدثنا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْقُرَشِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ مَوْتٌ قَالَ لِابْنِهِ: " يَا عَبْدَ اللهِ، إِنِّي مُوصِيكَ بِحُبِّ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحُبِّ طَاعَتِهِ، وَخَوْفِ اللهِ وَخَوْفِ مَعْصِيَتِهِ، فَإِنَّكَ إِذَا كُنْتَ كَذَلِكَ لَمْ تَكْرَهِ الْمَوْتَ مَتَى أَتَاكَ، وَإِنِّي أَسْتَوْصِيكَ اللهِ يَا بُنَيَّ" ثُمَّ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَقَالَ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ " ثُمَّ شَخَصَ بَصَرُهُ فَمَاتَ ۔

ترجمہ: حضرت عبد الحمید بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا: ائے عبد اللہ! میں تمہیں اللہ عزّ وجل اور اس کی اطاعت سے محبت کرنے کی وصیت کرتا ہوں،اللہ اور اس کی معصیت سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں،کیونکہ اگر تم اس حالت میں زندگی گزاروگے تو تم موت کو ناپسند نہیں کروگے جب وہ آئے گی،اور بے شک میں تجھے اللہ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں،ائے میرے پیارے بیٹے!پھر انہوں نے قبلہ کی طرف اپنا رُخ کیا اور "لاالہ الااللہ" پڑھا،پھر ان کی آنکھ پتھرائی اور وہ دنیا سے کوچ کر گئے۔ [شعب الایمان،محبۃ اللہ عزوجل،باب معانی المحبۃ،حدیث:۴۰۹]

محبت رسول ﷺ

حدیث : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لِكُلِّ نَبِىٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ فَتَعَجَّلَ كُلُّ نَبِىٍّ دَعْوَتَهُ وَإِنِّى اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِى شَفَاعَةً لأُمَّتِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَهِىَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِى لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا ».

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا :ہر نبی کے لئے ایک دعا ہوتی ہے(امت کے لئے) جو ضرور قبول کی جاتی ہے تو ہرنبی نے جلدی کی اور اپنی اُس دعا کو مانگ لیا ہے اور میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے سنبھال کر رکھا ہے۔تو ان شاء اللہ میری شفاعت میری امت کے ہر اُس آدمی کے لئے ہوگی جو اِس حال میں مرا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔[مسلم،کتاب الایمان،باب اختباء النبی دعوۃ الشفاعۃ لامتہ ، حدیث:۵۱۲]

حدیث : عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- تَلاَ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِى إِبْرَاهِيمَ ( رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِى فَإِنَّهُ مِنِّى) وَقَالَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ ( إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ) فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَقَالَ « اللَّهُمَّ أُمَّتِى أُمَّتِى ». وَبَكَى فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَا جِبْرِيلُ اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ فَسَلْهُ مَا يُبْكِيكَ فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ - عَلَيْهِ الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ - فَسَأَلَهُ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِمَا قَالَ. وَهُوَ أَعْلَمُ. فَقَالَ اللَّهُ يَا جِبْرِيلُ اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ فَقُلْ إِنَّا سَنُرْضِيكَ فِى أُمَّتِكَ وَلاَ نَسُوءُكَ.

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے اللہ تعالیٰ کا فرمان جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ہے،تلاوت فرمایا(انہوں نے اپنی امت کے لئے دعا کرتے ہوئے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کیا،جو قرآن میں ہے) "ائےمیرے رب!جھوٹے معبودوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا ہے تو جس نے میری پیروی کی تو وہ مجھ سے ہے اور جس نے نافرمانی کیا تو تو بے شک بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔" اور اُس آیت کی تلاوت کی جس میں عیسیٰ علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے اپنی امت کے لئے فرمایا،(انہوں نے دعا کرتے ہوئے کہا)" اگر تو انہیں عذاب دے تو بے شک یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو تو غالب حکمت والا ہے۔" (اِن آیتوں کی تلاوت کرنےکے بعد) اللہ کے رسول نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا اور کہنے لگے" یا اللہ! میری امت،یا اللہ! میری امت اور آپ رونے لگے۔تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ائے جبرئیل! محمد ( ) کے پاس جاؤ ،اور تیرا رب خوب جانتا ہے،اُن سے پوچھو کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟حضرت جبرئیل علیہ السلام رسولِ کریم کی خدمت میں آئے،پھر جو آپ نے بتایا اللہ تعالیٰ کو اُس کی خبر دی جب کہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ جاننے والا ہے،تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ائے جبرئیل! محمد ( ) کی طرف جاؤ اور اُن سے کہہ دو کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں خوش کر دیں گے اور ہم آپ کو ناخوش نہیں ہونے دیں گے۔[مسلم،کتاب الایمان،باب دعاء النبی لامتہ وبکائہ شفقۃ علیھم، حدیث:۵۱۲]

حدیث : عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : خُيِّرْتُ بَيْنَ الشَّفَاعَةِ ، وَبَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ ، فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ ، لأَنَّهَا أَعَمُّ وَأَكْفَى ، أَتُرَوْنَهَا لِلْمُتَّقِينَ ؟ لاَ ، وَلَكِنَّهَا لِلْمُذْنِبِينَ ، الْخَطَّائِينَ الْمُتَلَوِّثِينَ.

ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا: مجھے شفاعت اور آدھی امت کو جنت میں داخل کرانے کے درمیان اختیار دیا گیا ،تو میں نے شفاعت کو اختیار کیا کیونکہ وہ(صرف آدھی امت کے لئے نہیں بلکہ سبھی کے لئے) عام ہوگی اور کافی ہوگی، کیا تم لوگ سمجھتے ہو کہ یہ شفاعت پر ہیزگاروں کے لئے ہے؟ نہیں،بلکہ یہ گناہگاروں اور غلطیوں میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے لئے ہوگی۔[ابن ماجہ ، کتاب الزھد،باب الشفاعۃ ،حدیث:۴۳۱۱]

حدیث : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « وَالَّذِى نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنْ عَلَى الأَرْضِ مِنْ مُؤْمِنٍ إِلاَّ أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِهِ فَأَيُّكُمْ مَا تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَأَنَا مَوْلاَهُ وَأَيُّكُمْ تَرَكَ مَالاً فَإِلَى الْعَصَبَةِ مَنْ كَانَ ».

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا : اُس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے!زمین پر کوئی ایسا مومن نہیں مگر میں تمام لوگوں سے زیادہ اُس کے قریب ہوں،اس لئے تم میں سے جو قرض یا بچے چھوڑ کر انتقال کر جائے تو میں اس کا مددگار ہوں اور جو مال چھوڑ کر جائے تو وہ اُس کے وارثوں میں جو بھی ہو اُس کا ہے۔ [مسلم،کتاب الفرائض،باب من ترک مالا فلورثتہ، حدیث:۴۲۴۴]

حدیث : عَنْ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « مَنْ كَانَ لَهُ فَرَطَانِ مِنْ أُمَّتِى أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِمَا الْجَنَّةَ ».فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ فَمَنْ كَانَ لَهُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِكَ قَالَ « وَمَنْ كَانَ لَهُ فَرَطٌ يَا مُوَفَّقَةُ ». قَالَتْ فَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِكَ قَالَ « فَأَنَا فَرَطُ أُمَّتِى لَنْ يُصَابُوا بِمِثْلِى ».

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نےرسولِ اکرمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میری امت سے جس کے دو پیش رو ہوں ( یعنی جس کا دو بچہ انتقال کر گیا ہو) اللہ تعالیٰ اُسے ان کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا،اِس پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:آپ کی امت میں سے جس کا ایک ہی پیش رو ہو تو؟ آپ نے فرمایا: جس کا ایک ہی پیش رو ہو اُسے بھی،ائے توفیق یافتہ خاتون! پھر انہوں نے پوچھا:آپ کی امت میں جس کا کوئی پیش رو ہی نہ ہو اُس کا کیا ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا: میں اپنی امت کا پیش رو ہوں،کسی کی جدائی سے انہیں ایسی تکلیف نہیں ہوگی جیسی میری جدائی سے انہیں ہوگی۔ [ترمذی،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی ثواب من قدم ولدا، حدیث:۱۰۸۲]

حدیث : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى السَّاعَةُ قَالَ « وَمَا أَعْدَدْتَ لِلسَّاعَةِ ». قَالَ حُبَّ اللَّهِ وَرَسُولِهِ قَالَ « فَإِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ ». قَالَ أَنَسٌ فَمَا فَرِحْنَا بَعْدَ الإِسْلاَمِ فَرَحًا أَشَدَّ مِنْ قَوْلِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- « فَإِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ ». قَالَ أَنَسٌ فَأَنَا أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِأَعْمَالِهِمْ.

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسولِ اکرمﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا:تو نے قیامت کے لئے کیا تیاری کیا ہے؟ انہوں نے کہا:اللہ اور اس کے رسول کی محبت۔آپ نے فرمایا:بے شک تو اُنہیں کے ساتھ رہے گا جن سے تو نے محبت کیا۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد جتنی خوشی نبی کی اس بات سے ہوئی اُتنی خوشی کبھی نہیں ہوئی،میں اللہ جل ّ مجدہ الکریم سے محبت کرتا ہوں اور اس کے رسول سے اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے اور میں امید کرتا ہوں میں انہیں کے ساتھ رہوں گا اگرچہ میں نے ان کی طرح عمل نہیں کیا۔[مسلم،کتاب البر والصلہ،باب المرء مع من احب،حدیث:۶۸۸۱]

حدیث : عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ إِنِّى لأُحِبُّكَ. فَقَالَ « انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ ». قَالَ وَاللَّهِ إِنِّى لأُحِبُّكَ. فَقَالَ « انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ ». قَالَ وَاللَّهِ إِنِّى لأُحِبُّكَ. ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَقَالَ « إِنْ كُنْتَ تُحِبُّنِى فَأَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا فَإِنَّ الْفَقْرَ أَسْرَعُ إِلَى مَنْ يُحِبُّنِى مِنَ السَّيْلِ إِلَى مُنْتَهَاهُ ».

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نےنبیﷺ سے کہا:یا رسول اللہ ! بے شک میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔آپ نے فرمایا:اچھی طرح سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو،آپ نے اس سے تین مرتبہ یہ کہا اور انہوں نے تینوں مرتبہ یہی جواب دیا کہ" بے شک میں آپ سے محبت کرتا ہوں" تو آپ نے فرمایا:اگر تو مجھ سے محبت کرتا ہے تو خود کو فقر وفاقہ کے لئے تیار کرو کیونکہ مجھ سے محبت کرنے والے کی طرف فقر اس سے بھی زیادہ تیزی سے آتا ہے جتنی تیزی سے پانی اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے۔[ترمذی،کتاب الزھد،باب ماجاء فی فضل الفقر،حدیث:۲۵۲۳]

حدیث : عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ لِى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « يَا بُنَىَّ إِنْ قَدَرْتَ أَنْ تُصْبِحَ وَتُمْسِىَ لَيْسَ فِى قَلْبِكَ غِشٌّ لأَحَدٍ فَافْعَلْ ». ثُمَّ قَالَ لِى « يَا بُنَىَّ وَذَلِكَ مِنْ سُنَّتِى وَمَنْ أَحْيَا سُنَّتِى فَقَدْ أَحَبَّنِى. وَمَنْ أَحَبَّنِى كَانَ مَعِى فِى الْجَنَّةِ ».

ترجمہ: حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ائے میرے پیارے بیٹے! اگر تو طاقت رکھتا ہے کہ صبح اور شام اس حال میں کرو کہ تمہارے دل میں کسی کے لئے کوئی کینہ نہ ہو تو ایسا کرو۔پھر آپ نے مجھ سے فرمایا:ائے بیٹے! یہ میری سنت ہے اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا تو اُس نے مجھ سے محبت کیا اور جس نے مجھ سے محبت کیا وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔[ترمذی،کتاب العلم،باب ماجاء فی الاخذ بالسنۃ والاجتناب البدع، حدیث: ۲۸۹۴]

حدیث : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّمَا مَثَلِى وَمَثَلُ أُمَّتِى كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَجَعَلَتِ الدَّوَابُّ وَالْفَرَاشُ يَقَعْنَ فِيهِ فَأَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ وَأَنْتُمْ تَقَحَّمُونَ فِيهِ ».

ترجمہ: حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری مثال اور میری امت کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی نے آگ جلائی پھر اس میں کیڑے اور پتنگے گرنے لگے تو میں تمہاری کمر کو پکڑے ہوئے ہوں اور تم بےسوچے سمجھے اندھادھند اس میں گر پڑتے ہو۔[مسلم،کتاب الفضائل،باب شفقتہ علی امتہ و مبالغتہ فی تحذیرھم مما یضرھم، حدیث:۶۰۹۵]

صدق نبوت کے دلائل

حدیث : عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رضى الله عنه - أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً ، فَأَرَاهُمُ انْشِقَاقَ الْقَمَرِ .

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مکہ کے لوگوں نے اللہ کے رسولﷺ سے مطالبہ کیا کہ وہ اُن لوگوں کو کوئی نشانی دیکھائے تو آپ نے ان لوگوں کو چاند کو دو ٹکڑے کر کے دکھایا۔[بخاری،کتاب المناقب، باب سُؤَالِ الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُرِيَهُمُ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - آيَةً فَأَرَاهُمُ انْشِقَاقَ الْقَمَرِ، حدیث:۳۶۳۷]

حدیث : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِىٌّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ بِمَ أَعْرِفُ أَنَّكَ نَبِىٌّ قَالَ « إِنْ دَعَوْتُ هَذَا الْعِذْقَ مِنْ هَذِهِ النَّخْلَةِ أَتَشْهَدُ أَنِّى رَسُولُ اللَّهِ ». فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَجَعَلَ يَنْزِلُ مِنَ النَّخْلَةِ حَتَّى سَقَطَ إِلَى النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- ثُمَّ قَالَ « ارْجِعْ ». فَعَادَ فَأَسْلَمَ الأَعْرَابِىُّ.

ترجمہ: حضرت ا بن عباس رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ ایک دیہات کا رہنے والا شخص اللہ کے رسولﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں کیسے جانوں کہ آپ نبی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اگر میں اِس کھجور کے درخت کی اِس ٹہنی کو بُلالوں تو کیا تم میرے بارے میں گواہی دوگے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔پھر آپ نے اُسے بلایا تو وہ ٹہنی کھجور کے درخت سے اُتر کر حضور نبی کریم کے سامنے گر پڑی،پھر آپ نے فرمایا:لوٹ جا تو وہ واپس چلی گئی ،یہ دیکھ کر وہ دیہاتی شخص اسلام لے آیا۔ [ترمذی،کتاب المناقب،باب ماجاء فی آیات اثبات نبوۃ النبی وما قد خصہ اللہ عزوجل بہ،حدیث: ۳۶۲۸]

حدیث : عَنْ بنِ عُمَرَ قال : كُنَّا مَعَ رسولَ اللهِ صلى الله عليه و سلم في سَفَرٍ فأقبل أعرابي فلما دَنَا مِنْه قال له رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه و سلم أينَ تُريدُ قَالَ إلى أهلي قال هَل لَّكَ فِيْ خَيْرٍ قَالَ وَمَا هُوَ قَالَ تَشْهَد أَن لَّا إلٰهَ اِلّا اللهُ وَحْدَه لَا شَرِيْكَ لَه وأن محمدا عبده ورسوله قال وَمَن يَّشْهَدُ عَلىٰ مَا تَقُوْلُ قَالَ هٰذِهِ السَّلْمَةُ فَدَعَاهَا رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه و سلم وَهِيَ بِشَاطِئِ الوَادِي فَأَقْبَلَتْ تخد الأرضَ خَدّا حَتّىٰ قَامَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ فَاَستشهدها ثلاثا فَشَهِدَتْ ثلاثا أَنَّه كَمَا قَالَ ثُمَّ رَجَعَتْ إلى مَنْبَتِهَا وَرَجَعَ الْأعرَابيُ إِلٰى قَوْمِهِ وَقَالَ إن اِتَّبِعُوْنِيْ أَتتك بهمْ وَإلّا رَجَعْتُ مَكَثْتُ مَعَكَ .

ترجمہ: حضرت ا بن عمر رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ تھے،تو ایک اعرابی آیا جب وہ قریب ہوا تو رسول نے اُس سے فرمایا:کہاں جارہے ہو؟ اس نے کہا:اپنے گھر والوں کی طرف۔آپ نے فرمایا:کیا تمہیں بھلائی میں کوئی دلچسپی ہے؟ اس نے کہا:بھلائی کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ بھلائی یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا حقدار نہیں ہے وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد( ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔اس نے کہا:آپ جو کہہ رہے ہیں اُس پر کون گواہی دے گا ( جس سے معلوم ہو کہ آپ سچے ہیں) آپ نے فرمایا:یہ کیکڑ کا درخت،پھر اللہ کے رسولﷺ نے اُس درخت کو بلایا،وہ میدان کے کنارے پر تھا،زمین کو چیرتے ہوئے آیا اور آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا تو آپ ﷺ نے اُس سے تین مرتبہ گواہی مانگا،اس نے تین مرتبہ اس بات کی گواہی دی جو آپ نے کہا ،پھر وہ لوٹ کر اپنی جگہ پر چلا گیا۔اور اعرابی اپنی قوم کی طرف لوٹ گیا اور جاتے ہوئے کہا اگر میری قوم نے میری بات مان لی تو میں اُن سب کو آپ کے پاس لے آؤں گا نہیں تو میں لوٹ کر آؤں گا اور آپ کے ساتھ رہوں گا۔[سنن دارمی،المقدمۃ،باب ما اکرم اللہ بہ نبیہ من ایمان الشجر والبھائم والجن، حدیث:۱۶]

حدیث : عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ - رضى الله عنهما - قَالَ عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ ، وَالنَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - بَيْنَ يَدَيْهِ رَكْوَةٌ فَتَوَضَّأَ فَجَهَشَ النَّاسُ نَحْوَهُ ، فَقَالَ « مَا لَكُمْ » . قَالُوا لَيْسَ عِنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ وَلاَ نَشْرَبُ إِلاَّ مَا بَيْنَ يَدَيْكَ ، فَوَضَعَ يَدَهُ فِى الرَّكْوَةِ فَجَعَلَ الْمَاءُ يَثُورُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ كَأَمْثَالِ الْعُيُونِ ، فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا . قُلْتُ كَمْ كُنْتُمْ قَالَ لَوْ كُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَكَفَانَا ، كُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً.

ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی ہوئی تھی اور حضور نبی کریمﷺ کے سامنے چمڑے کا ایک چھوٹا سا ڈول رکھا ہوا تھا،آپ نے اس سے وضو کیا،تو لوگ اس میں سے پانی کے لئے جھپٹ پڑے،آپ نے پوچھا تمہیں کیا ہوا ہے؟ان لوگوں نے بتایا کہ ہمارے پاس وضو کرنے اور پینے کے لئے پانی نہیں ہے سوائے اِس پانی کے جو آپ کے سامنے ہے۔پھر آپﷺ نے اُس ڈول میں اپنا ہاتھ مبارک رکھا تو آپ کی انگلیوں کے درمیان سے اس طرح پانی پھوٹ پھوٹ کر نکلنے لگا جس طرح چشموں سے پانی نکلتا ہے۔پھر ہم لوگوں نے پیا بھی اور وضو بھی کرلیا۔راوی نے کہا:میں نے پوچھا:آپ لوگ کل کتنے تھے؟ انہوں نے کہا:اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی ہمیں کافی ہوجاتا لیکن ہم لوگ پندرہ سو تھے۔[بخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام ، حدیث:۳۵۷۶]

حدیث : عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِى طَلْحَةَ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لأُمِّ سُلَيْمٍ لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - ضَعِيفًا ، أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَىْءٍ قَالَتْ نَعَمْ . فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ ، ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ، ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ يَدِى وَلاَثَتْنِى بِبَعْضِهِ ، ثُمَّ أَرْسَلَتْنِى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ فَذَهَبْتُ بِهِ ، فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فِى الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ ، فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ لِى رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - « آرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ » . فَقُلْتُ نَعَمْ . قَالَ بِطَعَامٍ . فَقُلْتُ نَعَمْ . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - لِمَنْ مَعَهُ « قُومُوا » . فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ . فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ ، قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - بِالنَّاسِ ، وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ . فَقَالَتِ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ . فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِىَ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَهُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - « هَلُمِّى يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ » . فَأَتَتْ بِذَلِكَ الْخُبْزِ ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَفُتَّ ، وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً فَأَدَمَتْهُ ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فِيهِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ ، ثُمَّ قَالَ « ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ » . فَأَذِنَ لَهُمْ ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ، ثُمَّ قَالَ « ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ » . فَأَذِنَ لَهُمْ ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ، ثُمَّ قَالَ « ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ » . فَأَذِنَ لَهُمْ ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ « ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ » . فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا ، وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ - أَوْ ثَمَانُونَ - رَجُلاً .

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ( میری والدہ ) ام سلیم رضی اللہ عنہاسے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی اس میں کمزوری تھی ۔ میرا خیال ہے کہ آپ بہت بھوکے ہیں کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ، چنانچہ انہوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں ، پھر اپنی اوڑھنی نکالی او اس میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے ہاتھ میں چھپا دیا اور اس اوڑھنی کا دوسرا حصہ میرے بدن پر باندھ دیا ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مجھے بھیجا ۔ میں گیا تو آپ مسجد میں تشریف رکھتے تھے ۔ آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ میں آپ کے پاس کھڑا ہو گیا تو آپ نے فرمایا کیا ابوطلحہ نے تمہیں بھیجا ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ۔ آپ نے دریافت فرمایا ، کچھ کھانا دے کر ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ، جو صحابہ آپ کے ساتھ اس وقت موجود تھے ، ان سب سے آپ نے فرمایا کہ چلو اٹھو ، آپ صلى الله عليه وسلم تشریف لانے لگے اور میں آپ کے سے چل پڑا یہاں تک کہ میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ کر میں نے انہیں خبر دی ۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بولے ، ام سلیم ! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو بہت سے لوگوں کو ساتھ لا رہے ہیں ہمارے پاس اتنا کھانا کہاں ہے کہ سب کو کھلایا جا سکے ؟ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں ( ہم فکر کیوں کریں ؟ ) خیر ابوطلحہ آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے ۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ بھی چل رہے تھے ۔ ام سلیم نے وہی روٹی لا کر آپ کے سامنے رکھ دی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے روٹیوں کا چورا کر دیا گیا ، ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کپی نچوڑ کر اس پر کچھ گھی ڈال دیا ، اور اس طرح سالن ہو گیا ، آپ نے اس کے بعد اس پر پڑھا جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے چاہا ۔ پھر فرمایا دس آدمیوں کو بلا لو ، انہوں نے ایسا ہی کیا ، ان سب نے روٹی پیٹ بھر کر کھائی اور جب یہ لوگ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو بلا لو ۔ چنانچہ دس آدمیوں کو بلایا گیا ، انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا ، جب یہ لوگ باہر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر دس ہی آدمیوں کو اندر بلا لو ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا ۔ جب وہ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو دعوت دے دو ۔ اس طرح سب لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ۔ ان لوگوں کی تعداد ستر یا اسی تھی ۔[بخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام ، حدیث:۳۵۷۸]

حدیث : عَنْ أَنَسٍ - رضى الله عنه - قَالَ أَصَابَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ قَحْطٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - ، فَبَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ يَوْمَ جُمُعَةٍ إِذْ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَتِ الْكُرَاعُ ، هَلَكَتِ الشَّاءُ ، فَادْعُ اللَّهَ يَسْقِينَا ، فَمَدَّ يَدَيْهِ وَدَعَا . قَالَ أَنَسٌ وَإِنَّ السَّمَاءَ لَمِثْلُ الزُّجَاجَةِ فَهَاجَتْ رِيحٌ أَنْشَأَتْ سَحَابًا ثُمَّ اجْتَمَعَ ، ثُمَّ أَرْسَلَتِ السَّمَاءُ عَزَالِيَهَا ، فَخَرَجْنَا نَخُوضُ الْمَاءَ حَتَّى أَتَيْنَا مَنَازِلَنَا ، فَلَمْ نَزَلْ نُمْطَرُ إِلَى الْجُمُعَةِ الأُخْرَى ، فَقَامَ إِلَيْهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ - أَوْ غَيْرُهُ - فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، تَهَدَّمَتِ الْبُيُوتُ ، فَادْعُ اللَّهَ يَحْبِسْهُ . فَتَبَسَّمَ ثُمَّ قَالَ « حَوَالَيْنَا وَلاَ عَلَيْنَا » . فَنَظَرْتُ إِلَى السَّحَابِ تَصَدَّعَ حَوْلَ الْمَدِينَةِ كَأَنَّهُ إِكْلِيلٌ .

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک سال قحط پڑا ۔ آپ ﷺ جمعہ کی نماز کے لیے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا : یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ! گھوڑے بھوک سے ہلاک ہو گئے اور بکریاں بھی ہلاک ہو گئیں ، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہم پر پانی برسائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس وقت آسمان شیشے کی طرح ( بالکل صاف ) تھا ۔ اتنے میں ہوا چلی ۔ اس نےبادل کو اٹھایا پھر بادل کے بہت سے ٹکڑے جمع ہو گئے اور آسمان نے گویا اپنےمنہ کھول دیئے ،اور زور دار بارش ہوئی۔ ہم جب مسجد سے نکلے تو گھر پہنچتے پہنچتے پانی میں ڈوب چکے تھے ۔ بارش یوں ہی دوسرے جمعہ تک برابر ہوتی رہی ۔ دوسرے جمعہ کو وہی صاحب یا کوئی دوسرے پھر کھڑے ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! مکانات گر گئے ۔ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ بارش کو روک دے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا : اے اللہ ! اب ہمارے چاروں طرف بارش برسا ( جہاں اس کی ضرورت ہو ) ہم پر نہ برسا ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ اسی وقت بادل پھٹ کر مدینہ کے ارد گر ہو گئے تھے گو یا کہ مدینہ [زرو جواہر سے سجائے ہوئے] تاج کی طرح ہو گیا تھا ۔[بخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام ، حدیث:۳۵۸۲]

حدیث : عَنْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ - رضى الله عنهما - يَقُولُ كَانَ الْمَسْجِدُ مَسْقُوفًا عَلَى جُذُوعٍ مِنْ نَخْلٍ فَكَانَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا خَطَبَ يَقُومُ إِلَى جِذْعٍ مِنْهَا ، فَلَمَّا صُنِعَ لَهُ الْمِنْبَرُ ، وَكَانَ عَلَيْهِ فَسَمِعْنَا لِذَلِكَ الْجِذْعِ صَوْتًا كَصَوْتِ الْعِشَارِ ، حَتَّى جَاءَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا فَسَكَنَتْ .

ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: مسجد نبوی کی چھت کھجور کے تنوں پر ٹکی ہوئی تھی، حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ کے لیے تشریف لاتے تو آپ ان میں سے ایک تنے کے پاس کھڑے ہو جاتے لیکن جب آپ کے لیے منبر بنا دیا گیا تو آپ اس پر تشریف لائے ، پھر ہم نے اس تنے سے اس طرح کی رونے کی آواز سنی جیسے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی اپنے بچے کی جدائی پر روتی ہو۔ یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور آپ نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا تو وہ چپ ہوگیا۔ [بخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام ، حدیث:۳۵۸۵]

حدیث : عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ : أَقْبَلْنَا مَعَ رَسولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ حَتّىٰ دَفَعْنَا إِلىٰ حَائِطٍ فِيْ بني النجَّارِ فَإِذَا فِيْهِ جَمَلٌ لاَ يَدْخُلُ الحَائِطَ أَحَدٌ اِلَّا شَدَّ عَلَيْهِ فَذَكَرُوْا ذٰلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَأَتَاه۟ فَدَعَاهُ فَجَاءَ وَاضِعاً مِشْفَرَهُ عَلَى الأرْضِ حَتّىٰ بَرِكَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ هَاتُوْا خِطَاماً فَخَطَمَهُ وَدَفَعَهُ إِلىٰ صَاحِبِهِ ثُمَّ اِلْتَفَتَ فَقَالَ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأرْضِ أَحَدٌ اِلَّا يَعْلَمُ اَنِّيْ رَسُوْلُ اللهِ اِلاَّ عَاصِيِّ الِجنِّ وَالْأِنْسِ .

ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: ایک مرتبہ ہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے یہاں تک کہ ہم بنو نجار کے ایک باغ کے پاس آئے،اس میں ایک اونٹ تھا،باغ جو شخص بھی داخل ہو تا وہ اُس پر حملہ کر دیتا تھا،لوگوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس کا ذکر کیا،تو آپ اس کے پاس آئے اور اُسے بلایا،تو وہ اپنا منہ زمین پر رکھے ہوئے آگیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی لگام لاؤ،پھر آپ نے اُسے لگام پہنایا اور اسے اس کے مالک کے حوالے کردیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: گناہگار انسان اور جنات کے علاوہ زمین و آسمان میں موجود ہر چیز یہ بات جانتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ [سنن دارمی،المقدمۃ،باب ما اکرم اللہ بہ نبیہ من ایمان الشجر والبھائم والجن، حدیث:۱۸]

حدیث : عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنِّى لأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَكَّةَ كَانَ يُسَلِّمُ عَلَىَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ إِنِّى لأَعْرِفُهُ الآنَ ».

ترجمہ: حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:بے شک میں مکہ کے اُس پتھر کو جانتا ہوں جو مجھ پر اعلان نبوت سے پہلے سلام بھیجتا تھا،بے شک میں اب بھی اُسے پہچانتا ہوں۔[مسلم،کتاب الفضائل،باب فضل نسب النبی وتسلیم الحجر علیہ قبل النبوۃ حدیث:۲۲۷۷]

حدیث : عَنْ عَلِىِّ بْنِ أَبِى طَالِبٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- بِمَكَّةَ فَخَرَجْنَا فِى بَعْضِ نَوَاحِيهَا فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلاَ شَجَرٌ إِلاَّ وَهُوَ يَقُولُ السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ.

ترجمہ: حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ مکہ کے ارد گرد کے علاقوں کی طرف نکلا تو جو بھی پہاڑ اور درخت سامنے آتا وہ کہتا" السلام علیک یا رسول اللہ"۔[ترمذی،کتاب المناقب،باب ماجاء فی آیات اثبات نبوۃ النبی وما قد خصہ اللہ عزوجل بہ،حدیث: ۳۶۲۶]

حدیث : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ - رضى الله عنه - قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّى سَمِعْتُ مِنْكَ كَثِيرًا فَأَنْسَاهُ . قَالَ « ابْسُطْ رِدَاءَكَ » .فَبَسَطْتُ فَغَرَفَ بِيَدِهِ فِيهِ ، ثُمَّ قَالَ « ضُمَّهُ » فَضَمَمْتُهُ ، فَمَا نَسِيتُ حَدِيثًا بَعْدُ .

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ سے بہت سی حدیثیں سنتا ہوں اور بھول جاتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنی چادر پھیلاؤ،میں نے پھیلا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے (ہوا میں)اس میں ایک لپ بھر کر ڈال دی اور فرمایا کہ اسے اپنے بدن سے لگا لو ۔ چنانچہ میں نے لگا لیاپھر اس کے بعد کبھی کوئی حدیث نہیں بھولا ۔[بخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام ، حدیث:۳۶۴۸، مسلم،حدیث:۲۴۹۲]

حدیث : عَنْ أَنَسٍ - رضى الله عنه - قَالَ كَانَ رَجُلٌ نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمَ وَقَرَأَ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ ، فَكَانَ يَكْتُبُ لِلنَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - ، فَعَادَ نَصْرَانِيًّا فَكَانَ يَقُولُ مَا يَدْرِى مُحَمَّدٌ إِلاَّ مَا كَتَبْتُ لَهُ ، فَأَمَاتَهُ اللَّهُ فَدَفَنُوهُ ، فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الأَرْضُ فَقَالُوا هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ ، لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا . فَأَلْقُوهُ فَحَفَرُوا لَهُ فَأَعْمَقُوا ، فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الأَرْضُ ، فَقَالُوا هَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ . فَأَلْقَوْهُ فَحَفَرُوا لَهُ ، وَأَعْمَقُوا لَهُ فِى الأَرْضِ مَا اسْتَطَاعُوا ، فَأَصْبَحَ قَدْ لَفَظَتْهُ الأَرْضُ ، فَعَلِمُوا أَنَّهُ لَيْسَ مِنَ النَّاسِ فَأَلْقَوْهُ .

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص پہلے عیسائی تھا ۔ پھر وہ اسلام میں داخل ہو گیا ۔ اس نے سورۃ البقرہ اور آل عمران پڑھ لی تھی اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی بن گیا لیکن پھر وہ شخص مرتد ہو کر عیسائی ہو گیا اور کہنے لگا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے جو کچھ میں نے لکھ دیا ہے اس کے سوا اسے اور کچھ بھی معلوم نہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی موت واقع ہو گئی اور اس کے آدمیوں نے اسے دفن کر دیا ، جب صبح ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی لاش قبر سے نکل کر زمین کے اوپر پڑی ہے ۔ عیسائی لوگوں نے کہا کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں کا کام ہے ۔ چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا اس لیے انہوں نے اس کی قبر کھودی ہے اور لاش کو باہر نکال کر پھینک دیا ہے ۔ چنانچہ دوسری قبر انہوں نے کھودی جو بہت زیادہ گہری تھی ۔ لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی ۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا اس لیے اس کی قبر کھود کر انہوں نے لاش باہر پھینک دی ہے ۔ پھر انہوں نے قبر کھودی اور جتنی گہری ان کے بس میں تھی کر کے اسے اس کے اندر ڈال دیا لیکن صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی ۔ اب انہیں یقین آیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے ( بلکہ یہ میت عذاب خداوندی میں گرفتار ہے ) چنانچہ ان لوگوں نے اسے یونہی ( زمین پر ) چھوڑدیا ۔ [بخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام ، حدیث:۳۵۸۵]

تعظیم نبی ﷺ

حدیث: عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَهَبَ إِلَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فَحَانَتْ الصَّلَاةُ فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ أَتُصَلِّي لِلنَّاسِ فَأُقِيمَ قَالَ نَعَمْ فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ فِي الصَّلَاةِ فَتَخَلَّصَ حَتَّى وَقَفَ فِي الصَّفِّ فَصَفَّقَ النَّاسُ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَلْتَفِتُ فِي صَلَاتِهِ فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِيقَ الْتَفَتَ فَرَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ امْكُثْ مَكَانَكَ فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَدَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى اسْتَوَى فِي الصَّفِّ وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُكَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ مَا كَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لِي رَأَيْتُكُمْ أَكْثَرْتُمْ التَّصْفِيقَ مَنْ رَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيُسَبِّحْ فَإِنَّهُ إِذَا سَبَّحَ الْتُفِتَ إِلَيْهِ وَإِنَّمَا التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ.

ترجمہ: حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں میں صلح کرانے کے لیے تشریف گئے، نماز کا وقت ہوگیا۔تو مؤذن نےحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آ کر کہا کہ کیا آپ نماز پڑھائیں گے۔ میں تکبیر کہوں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ نے فرمایا کہ ہاں چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز شروع کر دی۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئےاور لوگ نماز میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچے۔ لوگوں نے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارا )تاکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کوحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا معلوم ہو جائے(لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔ جب لوگوں نے زیادہ ہاتھ پر ہاتھ مارنا شروع کیا تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ متوجہ ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے انہیں اپنی جگہ رہنے کے لیے کہا۔)کہ نماز پڑھائے جاؤ ( لیکن انہوں نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امامت کا اعزاز بخشا، پھر بھی وہ پیچھے ہٹ گئے اور صف میں شامل ہو گئے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر! جب میں نے حکم دے دیا تھا پھر کس چیز نے تمہیں اپنی جگہ ثابت رہنے سے روکا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے کہ ابوقحافہ کے بیٹے) یعنی ابوبکر (کی یہ ہمت نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز پڑھا سکیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عجیب بات ہے۔ میں نے دیکھا کہ تم لوگ بکثرت ہاتھ پر ہاتھ مار رہے تھے۔) یاد رکھو ( اگر نماز میں کوئی بات پیش آ جائے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے جب وہ یہ کہے گا تو اس کی طرف توجہ کی جائے گی اور یہ ہاتھ پر ہاتھ مارنا عورتوں کے لیے ہے۔[بخاری،کتاب الاذان،باب من دخل لیئوم الناس فجاء الامام الاول فتأخر الاول،حدیث:۶۴۳]

حدیث: عَنْ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ الْأَنْصَارِيُّ وَكَانَ تَبِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَدَمَهُ وَصَحِبَهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ يُصَلِّي لَهُمْ فِي وَجَعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الِاثْنَيْنِ وَهُمْ صُفُوفٌ فِي الصَّلَاةِ فَكَشَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتْرَ الْحُجْرَةِ يَنْظُرُ إِلَيْنَا وَهُوَ قَائِمٌ كَأَنَّ وَجْهَهُ وَرَقَةُ مُصْحَفٍ ثُمَّ تَبَسَّمَ يَضْحَكُ فَهَمَمْنَا أَنْ نَفْتَتِنَ مِنْ الْفَرَحِ بِرُؤْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَكَصَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى عَقِبَيْهِ لِيَصِلَ الصَّفَّ وَظَنَّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَارِجٌ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَشَارَ إِلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتِمُّوا صَلَاتَكُمْ وَأَرْخَى السِّتْرَ فَتُوُفِّيَ مِنْ يَوْمِهِ.

ترجمہ: حضرت انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ جو کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابی اور خادم خاص تھے فر ماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوصال میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے تھے۔ چنانچہ پیر کے دن جب لوگ صف باندھے ہوئے نماز ادا کر رہے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ کا پردہ اٹھایا اور کھڑے ہو کر، ہماری طرف دیکھنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک قرآن کے ورق کی طرح معلوم ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا کر ہنسنے لگے۔ ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ خطرہ ہو گیا کہ کہیں ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کی خوشی میں نماز نہ توڑ دیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ الٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر صف کے ساتھ آ ملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اشارہ کیا کہ نماز پوری کر لو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ گرا دیا۔ اور اسی دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وصال فر ما گئے۔[بخاری،کتاب الاذان،باب اھل العلم والفضل احق بالامامۃ،حدیث:۶۳۹]

حدیث: عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ(حدیث طویل)فَقَامَ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ فَقَالَ أَيْ قَوْمِ أَلَسْتُمْ بِالْوَالِدِ قَالُوا بَلَى قَالَ أَوَلَسْتُ بِالْوَلَدِ قَالُوا بَلَى قَالَ فَهَلْ تَتَّهِمُونِي قَالُوا لَا قَالَ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي اسْتَنْفَرْتُ أَهْلَ عُكَاظَ فَلَمَّا بَلَّحُوا عَلَيَّ جِئْتُكُمْ بِأَهْلِي وَوَلَدِي وَمَنْ أَطَاعَنِي قَالُوا بَلَى قَالَ فَإِنَّ هَذَا قَدْ عَرَضَ لَكُمْ خُطَّةَ رُشْدٍ اقْبَلُوهَا وَدَعُونِي آتِيهِ قَالُوا ائْتِهِ فَأَتَاهُ فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوًا مِنْ قَوْلِهِ لِبُدَيْلٍ فَقَالَ عُرْوَةُ عِنْدَ ذَلِكَ أَيْ مُحَمَّدُ أَرَأَيْتَ إِنْ اسْتَأْصَلْتَ أَمْرَ قَوْمِكَ هَلْ سَمِعْتَ بِأَحَدٍ مِنْ الْعَرَبِ اجْتَاحَ أَهْلَهُ قَبْلَكَ وَإِنْ تَكُنِ الْأُخْرَى فَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَرَى وُجُوهًا وَإِنِّي لَأَرَى أَوْشَابًا مِنْ النَّاسِ خَلِيقًا أَنْ يَفِرُّوا وَيَدَعُوكَ فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ امْصُصْ بِبَظْرِ اللَّاتِ أَنَحْنُ نَفِرُّ عَنْهُ وَنَدَعُهُ فَقَالَ مَنْ ذَا قَالُوا أَبُو بَكْرٍ قَالَ أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْلَا يَدٌ كَانَتْ لَكَ عِنْدِي لَمْ أَجْزِكَ بِهَا لَأَجَبْتُكَ قَالَ وَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُلَّمَا تَكَلَّمَ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ وَالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ السَّيْفُ وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ فَكُلَّمَا أَهْوَى عُرْوَةُ بِيَدِهِ إِلَى لِحْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ وَقَالَ لَهُ أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ فَقَالَ مَنْ هَذَا قَالُوا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَقَالَ أَيْ غُدَرُ أَلَسْتُ أَسْعَى فِي غَدْرَتِكَ وَكَانَ الْمُغِيرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَتَلَهُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَهُمْ ثُمَّ جَاءَ فَأَسْلَمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا الْإِسْلَامَ فَأَقْبَلُ وَأَمَّا الْمَالَ فَلَسْتُ مِنْهُ فِي شَيْءٍ ثُمَّ إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَيْنَيْهِ قَالَ فَوَاللَّهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ وَإِذَا أَمَرَهُمْ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَيْ قَوْمِ وَاللَّهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى الْمُلُوكِ وَوَفَدْتُ عَلَى قَيْصَرَ وَكِسْرَى وَالنَّجَاشِيِّ وَاللَّهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَمَّدًا وَاللَّهِ إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ وَإِذَا أَمَرَهُمْ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ وَإِنَّهُ قَدْ عَرَضَ عَلَيْكُمْ خُطَّةَ رُشْدٍ فَاقْبَلُوهَا.

ترجمہ: (حضرت مسور بن مخرمہ سے حدیبیہ کےدن سے متعلق ایک لمبی حدیث مروی ہے اس کا کچھ حصہ یہ ہے کہ)عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ )جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے(کھڑے ہوئے اور کہا اے قوم کے لوگو! کیا تم مجھ پر باپ کی طرح شفقت نہیں رکھتے۔ سب نے کہا کیوں نہیں ، ضرور رکھتے ہیں۔ عروہ نے پھر کہا کیا میں بیٹے کی طرح تمہارا خیرخواہ نہیں ہوں ،انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ عروہ نے پھر کہا کیاتم لوگ مجھ پر کسی قسم کی تہمت لگا سکتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے پوچھا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میں نے عکاظ والوں کو تمہاری مدد کے لیے کہا تھا اور جب انہوں نے انکار کیا تو میں نے اپنے گھرانے ،اولاد اور ان تمام لوگوں کو تمہارے پاس لا کر کھڑا کر دیا تھا جنہوں نے میرا کہنا مانا تھا؟ قریش نے کہا کیوں نہیں )آپ کی باتیں درست ہیں (اس کے بعد انہوں نے کہا دیکھو اب اس شخص (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویز رکھی ہے، اسے تم قبول کر لو اور مجھے ان کے پاس گفتگو کرنےکے لیے جانے دو، سب نے کہا آپ ضرور جایئے۔ چنانچہ عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو شروع کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی وہی باتیں کہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدیل سے کہہ چکے تھے ،عروہ رضی اللہ عنہ نے اس وقت کہا۔ اے محمد )صلی اللہ علیہ وسلم (! بتائیے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو تباہ کر دیا تو کیا اپنے سے پہلے کسی بھی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنے خاندان کا نام و نشان مٹا دیا ہو، لیکن اگر دوسری بات واقع ہوئی یعنی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب ہوئے تو میں اللہ کی قسم میں آپ کے ساتھ ایسے چہروں کو دیکھ رہاہوں جو اس وقت بھاگ جائیں گے اور آپ کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے "تو اپنے بت لات کی شرمگاہ کو چوس"۔ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے بھاگ جائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ عروہ نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ عروہ نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تمہارا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا جس کا اب تک میں بدلہ نہیں دے سکا ہوں تو تمہیں ضرور جواب دیتا۔ بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر گفتگو کرنے لگے اور گفتگو کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک پکڑ لیا کرتے تھے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے ،تلوار لٹکائے ہوئے اور سر پر خود پہنے۔ عروہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کی طرف اپنا ہاتھ لے جاتے تو مغیرہ رضی اللہ عنہ تلوار کی نیام کو اس کے ہاتھ پر مارتے اور ان سے کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے اپنا ہاتھ الگ رکھ۔ عروہ رضی اللہ عنہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ مغیرہ بن شعبہ۔ عروہ نے انہیں مخاطب کر کے کہا اے دغا باز! کیا میں نے تیری دغا بازی کی سزا سے تجھ کو نہیں بچایا؟ اصل میں مغیرہ رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے جاہلیت میں ایک قوم کے ساتھ رہے تھے پھر ان سب کو قتل کر کے ان کا مال لے لیا تھا۔ اس کے بعد مدینہ آئے اور اسلام کے حلقہ بگوش ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کا مال بھی رکھ دیا کہ جو چاہیں اس کے متعلق حکم فرمائیں) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تیرا اسلام تو میں قبول کرتا ہوں، رہا یہ مال تو میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ کیونکہ وہ دغا بازی سے ہاتھ آیا ہے جسے میں لے نہیں سکتا)پھر عروہ گھور گھور کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی نقل و حرکت دیکھتے رہے۔ پھر راوی نے بیان کیا کہ قسم اللہ کی اگر کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلغم بھی تھوکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے اپنے ہاتھوں پر اسے لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا۔ کسی کام کا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کی بجا آوری میں ایک دوسرے پر لوگ سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرنے لگے تو ایسا معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی پر لڑائی ہو جائے گی یعنی ہر شخص اس پانی کو لینے کی کوشش کرتا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو کرتےتو سب پر خاموشی چھا جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی نظر بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ خیر عروہ جب اپنے ساتھیوں سے جا کر ملے تو ان سے کہا اے لوگو! قسم اللہ کی میں بہت سے بادشاہوں کے دربار میں بھی وفد لے کر گیا ہوں، قیصر و کسریٰ اور نجاشی سب کے دربار میں بھی لیکن اللہ کی قسم میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے ساتھی اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتے ہیں۔ قسم اللہ کی اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بلغم بھی تھوک دیا تو ان کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اگر کوئی حکم دیا تو ہر شخص نے اسے بجا لانے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو پر لڑائی ہو جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب گفتگو شروع کی تو ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ ان کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ انہوں نے تمہارے سامنے ایک بھلی صورت رکھی ہے ، تمہیں چاہئے کہ اسے قبول کر لو۔[بخاری،کتاب الشروط،باب الشروط فی الجھاد والمصالحۃ مع اہل الحرب وکتابۃ الشروط،حدیث:۲۵۲۹]

حدیث: عَنْ ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ قَالَ حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ فَبَكَى طَوِيلًا وَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى الْجِدَارِ فَجَعَلَ ابْنُهُ يَقُولُ يَا أَبَتَاهُ أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَذَا أَمَا بَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَذَا قَالَ فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ فَقَالَ إِنَّ أَفْضَلَ مَا نُعِدُّ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ عَلَى أَطْبَاقٍ ثَلَاثٍ لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَمَا أَحَدٌ أَشَدَّ بُغْضًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي وَلَا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَكُونَ قَدْ اسْتَمْكَنْتُ مِنْهُ فَقَتَلْتُهُ فَلَوْ مُتُّ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ لَكُنْتُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَلَمَّا جَعَلَ اللَّهُ الْإِسْلَامَ فِي قَلْبِي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ ابْسُطْ يَمِينَكَ فَلْأُبَايِعْكَ فَبَسَطَ يَمِينَهُ قَالَ فَقَبَضْتُ يَدِي قَالَ مَا لَكَ يَا عَمْرُو قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا قُلْتُ أَنْ يُغْفَرَ لِي قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلِهَا وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ وَمَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا أَجَلَّ فِي عَيْنِي مِنْهُ وَمَا كُنْتُ أُطِيقُ أَنْ أَمْلَأَ عَيْنَيَّ مِنْهُ إِجْلَالًا لَهُ وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ مَا أَطَقْتُ لِأَنِّي لَمْ أَكُنْ أَمْلَأُ عَيْنَيَّ مِنْهُ وَلَوْ مُتُّ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ثُمَّ وَلِينَا أَشْيَاءَ مَا أَدْرِي مَا حَالِي فِيهَا فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلَا نَارٌ فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي.

ترجمہ: حضرت ابن شماسہ مہری سے روایت ہے کہ، ہم لوگ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور وہ موت کے قریب تھے تو بہت دیر تک روتے رہے اور اپنا منہ دیوار کی طرف پھیر لیا ۔ ان کے بیٹے کہنے لگے: ابا جان! آپ کیوں روتے ہیں، کیا آپ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خوشخبری نہیں دی۔ تب انہوں نے اپنا منہ سامنے کیا اور کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سب باتوں میں افضل اس بات کی گواہی دینا ہے کہ کوئی سچا معبود نہیں سوائے اللہ کے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں ۔ میرے اوپر تین حال گزرے ہیں۔ ایک حال یہ تھا جو میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ میں کسی کو برا نہیں جانتا تھا اور مجھے آرزو تھی کہ کسی طرح میں قابو پاوَں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردوں (معاذاللہ ) اگر میں اس حال میں مر جاتا تو جہنمی ہوتا۔ دوسرا حال یہ تھا کہ اللہ نے اسلام کی محبت میرے دل میں ڈالی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ میں نے کہا: اپنا داہنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں بیعت کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا میں نے اس وقت اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ہوا تجھ کو اے عمرو! میں نے کہا شرط رکھنا چاہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا شرط ؟ میں نے کہا: یہ شرط کہ میرے گناہ معاف ہوں جو اب تک کئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمرو! کیاتو نہیں جانتا کہ بے شک اسلام لانا ختم کردیتا ہے پہلے کے تمام گناہوں کو اسی طرح ہجرت اور حج کرنا پہلے کے تمام گناہوں کو ڈھا دیتا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مجھ کو کسی کی محبت نہ تھی اور نہ میری نگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کی شان تھی اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کی وجہ سےآنکھ بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھ سکتا تھا اور اگر کوئی مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت پوچھے تو میں بیان نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے آنکھ بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا تھا اور اگر میں اس حال میں مر جاتا تو امید تھی کہ جنتی ہوتا۔ اس کے بعد اور چیزوں میں ہم کو پھنسنا پڑا۔ میں نہیں جانتا میرا کیا حال ہو گا ان کی وجہ سے، تو جب میں مر جاوَں میرے جنازے کے ساتھ کوئی رونے چلانے والی نہ ہو اور نہ آگ ہو اور جب مجھے دفن کرنا تو مٹی ڈال دینا مجھ پر اچھی طرح اور میری قبر کے گرد کھڑے رہنا اتنی دیر جتنی دیر میں اونٹ کاٹا اور اس کا گوشت بانٹا جاتا ہے تاکہ میرا دل بہلے تم سےاور میں تنہائی میں گھبرا نہ جاؤں اور دیکھ لوں کہ پروردگار کے فرشتوں کو میں کیا جواب دیتا ہوں۔[مسلم،کتاب الایمان،باب کون الاسلام یھدم ما قبلہ وکذا الھجرۃ والحج،حدیث:۱۲۱]

حدیث: عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ وُلِدْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَامَ الْفِيلِ. وَسَأَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قُبَاثَ بْنَ أَشْيَمَ أَخَا بَنِى يَعْمُرَ بْنِ لَيْثٍ أَأَنْتَ أَكْبَرُ أَمْ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَكْبَرُ مِنِّى وَأَنَا أَقْدَمُ مِنْهُ فِى الْمِيلاَدِ وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَامَ الْفِيلِ وَرَفَعَتْ بِى أُمِّى عَلَى الْمَوْضِعِ قَالَ وَرَأَيْتُ خَذْقَ الْفِيلِ أَخْضَرَ مُحِيلاً.

ترجمہ: حضرت قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،دونوں واقعہ فیل کے سال پیدا ہوئے۔وہ کہتے ہیں: عثمان بن عفان نے قباث بن اشیم[جو قبیلہ بنی یعمر بن لیث کے ایک فرد ہیں] سے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے بڑے ہیں اور پیدائش میں،میں آپ سے پہلے ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھی والے سال میں پیدا ہوئے،میری ماں مجھے اس جگہ پر لے گئیں[جہاں ابرہہ کے ہاتھیوں پر پرندوں نے کنکریاں برسائی تھیں]تو میں نے دیکھا کہ ہاتھیوں کی لید بدلی ہوئی ہے اور سبز رنگ کی ہوگئی ہے۔[ترمذی،کتاب المناقب،باب ماجاء فی میلاد النبی صلى الله عليه وسلم ،حدیث:۳۶۱۹]

حدیث: عَنْ أَبِى رَافِعٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- لَقِيَهُ وَهُوَ جُنُبٌ قَالَ فَانْبَجَسْتُ أَىْ فَانْخَنَسْتُ فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ جِئْتُ فَقَالَ « أَيْنَ كُنْتَ أَوْ أَيْنَ ذَهَبْتَ ». قُلْتُ إِنِّى كُنْتُ جُنُبًا. قَالَ « إِنَّ الْمُسْلِمَ لاَ يَنْجُسُ ».

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ان سے ملے اور وہ جنبی تھے، وہ کہتے ہیں: تو میں آنکھ بچا کر نکل گیا اور جا کر میں نے غسل کیا پھر خدمت میں آیا تو آپ نے پوچھا: تم کہاں تھے؟ یا: کہاں چلے گئے تھے [راوی کو شک ہے] میں نے عرض کیا: میں جنبی تھا۔ آپ نے فرمایا: مسلمان کبھی نجس نہیں ہوتا۔[ترمذی،کتاب الطہارۃ،باب ماجاء فی مصافحۃ الجنب، حدیث:۱۲۱]

حدیث: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَلَمْ يَزَلْ قَائِمًا حَتَّى هَمَمْتُ بِأَمْرِ سَوْءٍ قُلْنَا وَمَا هَمَمْتَ قَالَ هَمَمْتُ أَنْ أَقْعُدَ وَأَذَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ رات کو نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام کیا کہ میرے دل میں ایک غلط خیال پیدا ہو گیا۔ ہم نے پوچھا کہ وہ غلط خیال کیا تھا تو آپ نے بتایا کہ میں نے سوچا کہ بیٹھ جاؤں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دوں۔[لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی خاطر میں نے ایسا نہیں کیا] [بخاری،کتاب التہجد،باب طول القیام فی صلاۃ اللیل،حدیث:۱۱۳۵]

تبرکات نبوی ﷺ

حدیث: عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ وَرَأَيْتُ بِلَالًا أَخَذَ وَضُوءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَبْتَدِرُونَ ذَاكَ الْوَضُوءَ فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا تَمَسَّحَ بِهِ وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ يَدِ صَاحِبِهِ.

ترجمہ: حضرت ابوحجیفہ وہب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سرخ چمڑے کے خیمہ میں دیکھا اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرا رہے ہیں اور ہر شخص آپ کے وضو کا پانی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر کسی کو تھوڑا سا بھی پانی مل جاتا تو وہ اسے اپنے اوپر مل لیتا اور اگر کوئی پانی نہ پا سکتا تو اپنے ساتھی کے ہاتھ کی تری ہی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ۔ [بخاری،کتاب الصلوٰۃ،باب الصلاۃ فی الثوب الاحمر،حدیث:۳۷۶]

حدیث: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِى بَكْرٍ وَكَانَ خَالَ وَلَدِ عَطَاءٍ قَالَ أَرْسَلَتْنِى أَسْمَاءُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَقَالَتْ بَلَغَنِى أَنَّكَ تُحَرِّمُ أَشْيَاءَ ثَلاَثَةً الْعَلَمَ فِى الثَّوْبِ وَمِيثَرَةَ الأُرْجُوَانِ وَصَوْمَ رَجَبٍ كُلِّهِ. فَقَالَ لِى عَبْدُ اللَّهِ أَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ رَجَبٍ فَكَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الأَبَدَ وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنَ الْعَلَمِ فِى الثَّوْبِ فَإِنِّى سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « إِنَّمَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ مَنْ لاَ خَلاَقَ لَهُ ». فَخِفْتُ أَنْ يَكُونَ الْعَلَمُ مِنْهُ وَأَمَّا مِيثَرَةُ الأُرْجُوَانِ فَهَذِهِ مِيثَرَةُ عَبْدِ اللَّهِ فَإِذَا هِىَ أُرْجُوَانٌ. فَرَجَعْتُ إِلَى أَسْمَاءَ فَخَبَّرْتُهَا فَقَالَتْ هَذِهِ جُبَّةُ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-. فَأَخْرَجَتْ إِلَىَّ جُبَّةَ طَيَالَسَةٍ كِسْرَوَانِيَّةً لَهَا لِبْنَةُ دِيبَاجٍ وَفَرْجَيْهَا مَكْفُوفَيْنِ بِالدِّيبَاجِ فَقَالَتْ هَذِهِ كَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ حَتَّى قُبِضَتْ فَلَمَّا قُبِضَتْ قَبَضْتُهَا وَكَانَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- يَلْبَسُهَا فَنَحْنُ نَغْسِلُهَا لِلْمَرْضَى يُسْتَشْفَى بِهَا.

ترجمہ: حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہا کے غلام عبد اللہ جو حضرت عطا ء کے لڑکوں کے ماموں تھے،بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت اسماء نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور یہ کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ تین چیزوں کو حرام کہتے ہیں،کپڑوں کے نقش ونگار کو،سرخ گدوں کو اور رجب کے مہینے کے تمام روزے رکھنے کو۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ:آپ نے جو رجب کے متعلق ذکر کیا ہے تو جو شخص ہمیشہ روزہ رکھتا ہو [وہ رجب کے روزوں کو حرام کیسے کہہ سکتا ہے] رہا کپڑوں کے نقش ونگار کا مسئلہ تو میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ریشم وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔اور مجھے یہ ڈر تھا کہ نقش ونگار بھی شاید ریشم کے بنائے جاتے ہیں،رہا سرخ رنگ کا گدا تو عبد اللہ بن عمر کا گدا بھی سرخ رنگ کا ہے۔راوی کہتے ہیں[میں یہ جوابات لے کر] حضرت اسماء کے پاس آیا تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا:یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ ہے،اور انہوں نے ایک موٹا دھاری دار کسروانی[یہ کسریٰ کی طرف منسوب ہے] جبہ نکالا جس کی آستینوں اور گریبان پر ریشم کے نقش ونگار بنے ہوئے تھے۔حضرت اسماء نے کہا:یہ جبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک اُن کے پاس تھا اور جب ان کی وفات ہوئی تو پھر میں نے اس کو اپنے قبضے میں لے لیا،اِس جُبّہ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہنا کرتے تھے اور ہم اِس جبّہ کو دھو کر اس کا پانی شفاء کے لئے بیماروں کو پلاتے ہیں۔[مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب تحریم استعمال اناء الذھب والفضۃ علی الرجال والنساء ، حدیث:۲۰۶۹]

حدیث: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- يَدْخُلُ بَيْتَ أُمِّ سُلَيْمٍ فَيَنَامُ عَلَى فِرَاشِهَا وَلَيْسَتْ فِيهِ - قَالَ - فَجَاءَ ذَاتَ يَوْمٍ فَنَامَ عَلَى فِرَاشِهَا فَأُتِيَتْ فَقِيلَ لَهَا هَذَا النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- نَامَ فِى بَيْتِكِ عَلَى فِرَاشِكِ - قَالَ - فَجَاءَتْ وَقَدْ عَرِقَ وَاسْتَنْقَعَ عَرَقُهُ عَلَى قِطْعَةِ أَدِيمٍ عَلَى الْفِرَاشِ فَفَتَحَتْ عَتِيدَتَهَا فَجَعَلَتْ تُنَشِّفُ ذَلِكَ الْعَرَقَ فَتَعْصِرُهُ فِى قَوَارِيرِهَا فَفَزِعَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ « مَا تَصْنَعِينَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ ». فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَرْجُو بَرَكَتَهُ لِصِبْيَانِنَا قَالَ « أَصَبْتِ ».

ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور ان کے بستر پر سو گئے۔ وہ وہاں نہیں تھیں۔ وہ آئیں تو لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے گھر میں تمہارے بچھونے پر سو رہے ہیں، یہ سن کر وہ آئیں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ چمڑے کے بچھونے پر جمع ہو گیا ہے، سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنا ڈبہ کھولا اور یہ پسینہ پونچھ پونچھ کر شیشیوں میں بھرنے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور فرمایا: کیا کر رہی ہو؟ اے ام سلیم! انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم اپنے بچوں کے لیے اِس پسینے سے برکت کی امید رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے ٹھیک کیا۔ [مسلم،کتاب الفضائل،باب طیب عرق النبی صلى الله عليه وسلم والتبرک بہ ،حدیث:۲۳۳۱]

حدیث: عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَالْحَلاَّقُ يَحْلِقُهُ وَأَطَافَ بِهِ أَصْحَابُهُ فَمَا يُرِيدُونَ أَنْ تَقَعَ شَعْرَةٌ إِلاَّ فِى يَدِ رَجُلٍ.

ترجمہ: سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حجام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر بنا رہا تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد تھے وہ چاہتے تھے کوئی بال زمین پر نہ گرے، بلکہ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔[مسلم،کتاب الفضائل،باب قرب النبی علیہ السلام من الناس وتبرکھم بہ،حدیث:۲۳۲۵]

حدیث: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ لَمَّا رَمَى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- الْجَمْرَةَ وَنَحَرَ نُسُكَهُ وَحَلَقَ نَاوَلَ الْحَالِقَ شِقَّهُ الأَيْمَنَ فَحَلَقَهُ ثُمَّ دَعَا أَبَا طَلْحَةَ الأَنْصَارِىَّ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ ثُمَّ نَاوَلَهُ الشِّقَّ الأَيْسَرَ فَقَالَ « احْلِقْ ». فَحَلَقَهُ فَأَعْطَاهُ أَبَا طَلْحَةَ فَقَالَ « اقْسِمْهُ بَيْنَ النَّاسِ ».

ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کو کنکریاں مار لیں اور قربانی کر لی اور سر منڈوایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دائیں جانب حجام کے آگے کیا توانہوں نے اُس طرف کے بال مونڈ دی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوطلحہ انصاری کو بلایا اور ان کو وہ بال دے دیے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بائیں جانب آگے کی کہ ”اس کو مونڈو۔“ جب وہ مونڈ دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوطلحہ کو وہ بال دیا اور فرمایا کہ لوگوں میں تقسیم کر دو۔[مسلم،کتاب الحج،باب بیان ان السنۃ یوم النحر ان یرمی ثم ینحر ثم یحلق، حدیث:۱۳۰۵]

حدیث: عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ قُلْتُ لِعَبِيدَةَ عِنْدَنَا مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَبْنَاهُ مِنْ قِبَلِ أَنَسٍ أَوْ مِنْ قِبَلِ أَهْلِ أَنَسٍ فَقَالَ لَأَنْ تَكُونَ عِنْدِي شَعَرَةٌ مِنْهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا.

ترجمہ: حضرت ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بال مبارک ہیں، جو ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یاحضرت انس رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کی طرف سے ملے ہیں۔ یہ سن کرحضرت عبیدہ نے کہا کہ اگر میرے پاس ان بالوں میں سے ایک بال بھی ہو تا تووہ میرے لیے ساری دنیا اور اس کی ہر چیز سے زیادہ پیاری ہوتی ۔[بخاری،کتاب الوضوء،باب الماء الذی یغسل بہ شعر الانسان،حدیث:۱۷۰]

حدیث: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا صَلَّى الْغَدَاةَ جَاءَ خَدَمُ الْمَدِينَةِ بِآنِيَتِهِمْ فِيهَا الْمَاءُ فَمَا يُؤْتَى بِإِنَاءٍ إِلاَّ غَمَسَ يَدَهُ فِيهَا فَرُبَّمَا جَاءُوهُ فِى الْغَدَاةِ الْبَارِدَةِ فَيَغْمِسُ يَدَهُ فِيهَا.

ترجمہ: ‏‏‏‏ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھا لیتے تو مدینےکے خادم لوگ اپنے برتنوں میں پانی لے کر آتے،پھر جو بھی برتن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے، کبھی وہ لوگ ٹھنڈی کے دنوں میں آتے تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اپنا ہاتھ مبارک ڈوبا دیتے۔[مسلم،کتاب الفضائل،باب قرب النبی صلى الله عليه وسلم من الناس وتبرکھم بہ ،حدیث:۲۳۲۴]

اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی فضیلت

حدیث: عَنْ أَبِى ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « أَفْضَلُ الأَعْمَالِ الْحُبُّ فِى اللَّهِ وَالْبُغْضُ فِى اللَّهِ ».

ترجمہ: حضرت ابوذررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ سب سے افضل عمل اللہ کے لئے محبت کرنا اور اللہ ہی کے لئے دشمنی کرنا ہے۔[سنن ابوداؤد،کتاب السنۃ،باب مجانبۃ اھل الھواء وبغضھم،حدیث:۴۶۰۱]

حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَيْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلاَلِى الْيَوْمَ أُظِلُّهُمْ فِى ظِلِّى يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلِّى ».

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ارشاد فر مائے گا" میری عظمت کی خاطر آپس میں محبت کرنے والے لوگ کہاں ہیں؟ آج میں انہیں اپنے سایے میں رکھوں گا جبکہ آج میرے سایے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہے۔ [مسلم،کتاب البر والصلہ،باب فی فضل الحب فی اللہ،حدیث:۶۷۱۳]

حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- « أَنَّ رَجُلاً زَارَ أَخًا لَهُ فِى قَرْيَةٍ أُخْرَى فَأَرْصَدَ اللَّهُ لَهُ عَلَى مَدْرَجَتِهِ مَلَكًا فَلَمَّا أَتَى عَلَيْهِ قَالَ أَيْنَ تُرِيدُ قَالَ أُرِيدُ أَخًا لِى فِى هَذِهِ الْقَرْيَةِ. قَالَ هَلْ لَكَ عَلَيْهِ مِنْ نِعْمَةٍ تَرُبُّهَا قَالَ لاَ غَيْرَ أَنِّى أَحْبَبْتُهُ فِى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ فَإِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكَ بِأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَبَّكَ كَمَا أَحْبَبْتَهُ فِيهِ ».

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص اپنے ایک بھائی سے ملنے ایک دوسرے گاؤں میں گیا،تو اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو اس کے راستے میں بھیج دیا،جب اُس شخص کا ان کے پاس سے گزر ہوا تو فرشتے نے کہا: کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ اس شخص نے کہا اس گاؤں میں میرا ایک بھائی ہے میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔فرشتہ نے کہا:کیا اس نے تیرے اوپر کوئی احسان کیا ہے جس کا تو بدلہ دینا چاہتا ہے؟ اس شخص نے کہا:نہیں،بات صرف یہ ہے کہ میں اس سے اللہ کے لئے محبت کرتا ہوں،فرشتہ نے کہا:میں تیری طرف اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے اِسی طرح محبت فرماتا ہے جس طرح تو اپنے بھائی سے کرتا ہے۔ [مسلم،کتاب البر والصلہ،باب فی فضل الحب فی اللہ،حدیث:۶۷۱۴]

حدیث : عَنْ أَبِى زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ لأُنَاسًا مَا هُمْ بِأَنْبِيَاءَ وَلاَ شُهَدَاءَ يَغْبِطُهُمُ الأَنْبِيَاءُ وَالشُّهَدَاءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِمَكَانِهِمْ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى ».قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ تُخْبِرُنَا مَنْ هُمْ. قَالَ « هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوا بِرُوحِ اللَّهِ عَلَى غَيْرِ أَرْحَامٍ بَيْنَهُمْ وَلاَ أَمْوَالٍ يَتَعَاطَوْنَهَا فَوَاللَّهِ إِنَّ وُجُوهَهُمْ لَنُورٌ وَإِنَّهُمْ عَلَى نُورٍ لاَ يَخَافُونَ إِذَا خَافَ النَّاسُ وَلاَ يَحْزَنُونَ إِذَا حَزِنَ النَّاسُ ». وَقَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ (أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لاَخَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ).

ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہوں گے جوانبیاء اور شہداء میں سے نہیں ہوں گے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مرتبہ انہیں ملے گا اُس پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں گے۔لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ !ہمیں بتائیے کہ وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ نے فرمایا:وہ ایسے لوگ ہوں گے جن کے درمیان آپسی رشتہ داری نہیں ہوگی اور نہیں مالی لین دین کا معاملہ ہوگا لیکن وہ اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہوں گے،قسم اللہ کی،ان کے چہرے نور ہوں گے،وہ خود نور پر ہوں گے انہیں کوئی ڈر نہیں ہوگا جب لوگ ڈر رہے ہوں گے،اور نہ انہیں کو رنج وغم ہوگا جبکہ لوگ رنجیدہ اور غمگین ہوں گے۔اور آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:" أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لاَخَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ" سن لو! بے شک اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی ڈر ہے اور نہیں وہ غمگین ہوں گے[سورہ یونس:۶۲]۔[ابوداؤد،کتاب الاجارہ،باب فی الرھن، حدیث:۳۵۲۷ ]

حدیث : عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِىِّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « مَنْ أَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ وَأَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَنْكَحَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ إِيمَانَهُ ».

تر جمہ: حضرت سہل بن معاذ بن انس جہنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ کے لئے دیا اور اللہ ہی کے لئے دینے سے رُک گیا،اور اللہ کے لئے محبت کیا اور اللہ ہی کے لئے دشمنی کیا اور اللہ ہی کے لئے نکاح کیا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔[ترمذی،کتاب صفۃ القیامۃ،باب:۶۰،حدیث:۲۵۲۱]

حدیث: عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيِّ قَالَ : دَخَلْتُ مَسْجِدَ دِمَشْقَ فَإِذَا فَتًى بَرَّاقُ الثَّنَايَا وَإِذَا النَّاسُ مَعَهُ إِذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْءٍ أَسْنَدُوا إِلَيْهِ وَصَدَرُوا عَنْ رَأْيِهِ فَسَأَلْتُ عَنْهُ فَقِيلَ : هَذَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ هَجَّرْتُ فَوَجَدْتُهُ قَدْ سَبَقَنِي وَوَجَدْتُهُ يُصَلِّي قَالَ : فَانْتَظَرْتُهُ حَتَّى قَضَى صَلاَتَهُ ثُمَّ جِئْتُهُ مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَقُلْتُ : وَاللَّهِ إِنِّي لاَحِبُّكَ فِي اللهِ فَقَالَ : آللَّهُ ؟ فَقُلْتُ : آللَّهُ ؟ فَقَالَ : آللَّهُ فَقُلْتُ : آللَّهُ قَالَ : فَأَخَذَ بِحُبْوَةِ رِدَائِي وَجَذَبَنِي إِلَيْهِ وَقَالَ : أَبْشِرْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّينَ فِيَّ وَالْمُتَجَالِسِينَ فِيَّ وَالْمُتَبَاذِلِينَ فِيَّ وَالْمُتَزَاوِرِينَ فِيَّ.

تر جمہ: حضرت ادریس خولانی کہتے ہیں کہ میں دمشق کی مسجد میں داخل ہوا تو میں نے ایک جوان کو دیکھا جن کے دانت بڑے چمکدار تھے،اور لوگ ان کے ساتھ تھے،جب بھی وہ لوگ کسی چیز کے بارے میں اختلاف کرتے تو ان کی طرف رجوع کرتے اور ان کی رائے کو سبھی لوگ تسلیم کرتے۔میں نے ان کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ یہ معاذبن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔اگلے دن میں آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ مجھ سے پہلے مسجد پہونچے ہوئے ہیں اور نماز میں مصروف ہیں،کہتے ہیں کہ: میں نے انتظار کیا یہاں تک کہ انہوں نے اپنی نماز مکمل کر لیا۔پھر میں ان کے سامنے کی طرف سے آیا اور سلام کیا اور کہا:قسم اللہ کی،میں آپ سے اللہ کے لئے محبت کرتا ہوں۔انہوں نے کہا: اللہ کے لئے؟ میں نے کہا:ہاں اللہ کے لئے۔انہوں نے کہا: اللہ کے لئے؟ میں نے کہا:ہاں اللہ کے لئے۔تو انہوں نے میری چادر پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور کہا،خوش ہو جاؤ کیو نکہ بے شک میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:میری محبت ان لوگوں کے لئے واجب ہے،جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں،میری وجہ سے آپس میں بیٹھتے ہیں اور میری وجہ سے خرچ کرتے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں۔[المستدرک للحاکم،کتاب البر والصلۃ،حدیث:۷۳۱۴]

اللہ تعالیٰ کے کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی فضیلت

حدیث : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّ حُسْنَ الظَّنِّ بِاللَّهِ مِنْ حُسْنِ عِبَادَةِ اللَّهِ ».

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ کے ساتھ بہتر گمان رکھنا،بہترین عبادت میں سے ہے۔[ترمذی،کتاب الدعوات ،باب فی الاستعاذۃ،حدیث:۳۶۰۴]

حدیث : عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ قَبْلَ مَوْتِهِ بِثَلاَثٍ : قَالَ : لاَ يَمُوتُ أَحَدُكُمْ إِلاَّ وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ.

ترجمہ: حضرت جابررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی کریمﷺ کی وفات فرمانے سے تین دن پہلے یہ کہتے ہوئے سنا،آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص نہ مرے مگر اِس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نیک گمان رکھتا ہو۔ [سنن ابوداؤد،کتاب الجہاد،باب مایستحب من حسن الظن باللہ عند الموت،حدیث:۳۱۱۳]

حدیث : عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- دَخَلَ عَلَى شَابٍّ وَهُوَ فِى الْمَوْتِ فَقَالَ « كَيْفَ تَجِدُكَ ». قَالَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّى أَرْجُو اللَّهَ وَإِنِّى أَخَافُ ذُنُوبِى. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لاَ يَجْتَمِعَانِ فِى قَلْبِ عَبْدٍ فِى مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ إِلاَّ أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا يَرْجُو وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ ».

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺایک نوجوان کے پاس آئے،وہ موت کے قریب تھا،آپ ﷺ نے اس سے فرمایا:تم اپنے کو کیسا پارہے ہو؟ انہوں نے عرض کیا:یارسول اللہﷺ! اللہ کی قسم،مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے(کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے گا) اور میں اپنے گناہوں سے ڈر بھی رہا ہوں۔اللہ کے رسول نے فرمایا: اِس جیسے وقت میں یہ دونوں چیزیں(یعنی کہ امید اور ڈر) جس بندے کے دل میں جمع ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے وہ چیز عطا کر دیتا ہے جس کی وہ اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہے اور اُسے اُس چیز سے محفوظ رکھتا ہے جس سے وہ ڈر رہا ہوتا ہے۔[ترمذی،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی حسن الظن باللہ،حدیث:۹۸۳]

حدیث : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِى بِى وَأَنَا مَعَهُ إِذَا دَعَانِى ».

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوتا ہوں جو وہ میرے بارے میں رکھتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔[مسلم،کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار،باب فضل الذکر والدعاء التقرب الی اللہ تعالیٰ ،حدیث:۲۶۷۵]

حدیث : عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِى بِى وَأَنَا مَعَهُ حِينَ يَذْكُرُنِى فَإِنْ ذَكَرَنِى فِى نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِى نَفْسِى وَإِنْ ذَكَرَنِى فِى مَلإٍ ذَكَرْتُهُ فِى مَلإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ وَإِنِ اقْتَرَبَ إِلَىَّ شِبْرًا اقْتَرَبْتُ مِنْهُ ذِرَاعًا وَإِنِ اقْتَرَبَ إِلَىَّ ذِرَاعًا اقْتَرَبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَإِنْ أَتَانِى يَمْشِى أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً ».

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعلق جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔جب وہ مجھے یاد کرتا ہے،میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔اگر وہ تنہائی میں میرا ذکرکرتا ہے تو میں بھی(اپنی شان کے مطابق) تنہائی میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔اور اگر وہ کسی محفل میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس سے بہتر محفل میں اس کا ذکر کرتا ہوں،اگر وہ ایک بالشت میرے قریب آتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔[بخاری،کتاب التوحید،باب قول اللہ تعالیٰ "ویحذرکم اللہ نفسہ ، حدیث:۷۴۰۵]

عظمت اہل بیت وصحابہ

حدیث: عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالاَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنِّى تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِى أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ وَعِتْرَتِى أَهْلُ بَيْتِى وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَىَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِى فِيهِمَا ».

ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے والا ہوں کہ اگر تم اسے مظبوطی سے پکڑے رہوگے تو تم میرے بعد ہر گز گمراہ نہیں ہو گے،ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے ،ایک اللہ کی کتاب ہے،گویا وہ ایک رسّی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے۔اور دوسری میری عترت یعنی اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے،یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے۔تو تم دیکھ لو کہ اِن دونوں کے سلسلے میں تم لوگ میری کیسی جانشینی کرتے ہو۔[ترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب اھل بیت النبی ﷺ ،حدیث: ۳۷۸۸]

حدیث: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « أَحِبُّوا اللَّهَ لِمَا يَغْذُوكُمْ مِنْ نِعَمِهِ وَأَحِبُّونِى بِحُبِّ اللَّهِ وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِى لِحُبِّى ».

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :اللہ سے محبت کرو کیونکہ وہ اپنی نعمتوں سےتمہاری پرورش فرماتا ہے،اور مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کی وجہ سے اور میرے اہل بیت سے محبت کرو مجھ سے محبت کی وجہ سے۔[ترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب اہل بیت النبی ﷺ ،حدیث:۳۷۸۹]

حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَكْتَالَ بِالْمِكْيَالِ الأَوْفَى إِذَا صَلَّى عَلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَلْيَقُلِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِىِّ وَأَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ وَذُرِّيَّتِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ».

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے اس بات سے خوشی ہو کہ اُسے پورا پیمانہ بھر کر ثواب دیا جائے تو وہ ہم اہل بیت پر جب درود بھیجے تو اِس طرح کہے" یا اللہ درود بھیج (ہمارے) نبی محمد (ﷺ) پر اور ان کی ازواج مومنوں کی ماؤں پر اور ان کی اولادوں پر اور ان کے سبھی گھر والوں پر جیسا کہ تو نے رحمت نازل کیا حضرت ابراہیم کے آل پر بےشک تو بڑالائق حمد اور عظمت والاہے۔[سنن ابو داؤد،کتاب الصلاۃ،باب الصلاۃ علی النبی ﷺ بعد التشھد،حدیث:۹۸۴]

حدیث: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يَبْغَضُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ أَحَدٌ إِلاَّ أَدْخَلَهُ اللَّهُ النَّارَ.

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے،ہم اہل بیت سے جوبھی بغض اور دشمنی رکھے گا،اللہ تعالیٰ اُس کو جہنم میں داخل کرے گا۔[المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ،باب ومن مناقب اہل النبی ﷺ ،حدیث:۴۷۱۷]

حدیث: عَنْ حَنَشٍ الْكِنَانِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ : وَهُوَ آخِذٌ بِبَابِ الْكَعْبَةِ مَنْ عَرَفَنِي فَأَنَا مَنْ عَرَفَنِي ، وَمَنْ أَنْكَرَنِي فَأَنَا أَبُو ذَرٍّ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : أَلاَ إِنَّ مَثَلَ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ مِنْ قَوْمِهِ ، مَنْ رَكِبَهَا نَجَا ، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ.

ترجمہ: حضرت حنش کنانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو میں نے کہتے ہوئے سنا اِس حال میں کہ وہ کعبہ شریف کے دروازے کو پکڑے ہوئے تھے۔جو مجھے جانتا ہے تو میں وہی ہوں اور جو مجھے نہیں جانتا تو میں ابوذر ہوں،میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:لوگوں غور سے سنو! بے شک میرے اہل بیت کی مثال تمہارے درمیان ایسے ہی ہے جیسے نوح علیہ السلام کی کشتی ان کے قوم کے درمیان،جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ ڈوب گیا۔ [المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ،باب ومن مناقب اہل النبی ﷺ ،حدیث:۴۷۲۰]

حدیث: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « اللَّهَ اللَّهَ فِى أَصْحَابِى اللَّهَ اللَّهَ فِى أَصْحَابِى لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِى فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّى أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِى أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِى وَمَنْ آذَانِى فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ ».

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو،میرے صحابہ کے معاملے میں،اللہ سے ڈرو،اللہ سے ڈرو،میرے بعد انہیں اپنی ملامت کا نشانہ نہ بنانا،جو اُن سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے اُن سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے اُن سے بغض رکھے گا،جس نے اُن کو تکلیف پہونچائی اس نے مجھے تکلیف پہونچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہونچائی اس نے اللہ کو تکلیف دی اور جس نے اللہ کو تکلیف دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے اپنے عذاب میں گرفتار کر دے۔ [ترمذی،کتاب المناقب،باب فیمن سبّ اصحاب النبی ﷺ ، حدیث:۳۸۶۲]

حدیث: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِى يَمُوتُ بِأَرْضٍ إِلاَّ بُعِثَ قَائِدًا وَنُورًا لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ».

ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ میں سے جو بھی کسی سرزمین پر انتقال کرے گا تو وہ قیامت کے دن وہاں کے لوگوں کا پیشوا اور ان کے لئے نور بنا کر اٹھایا جائے گا۔[ترمذی،کتاب المناقب،باب فیمن سبّ اصحاب النبی ﷺ ،حدیث:۳۸۶۵]

حدیث: عَنْ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ يَقُولُ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « لاَ تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِى أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِى ». قَالَ طَلْحَةُ فَقَدْ رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ. وَقَالَ مُوسَى وَقَدْ رَأَيْتُ طَلْحَةَ. قَالَ يَحْيَى وَقَالَ لِى مُوسَى وَقَدْ رَأَيْتَنِى وَنَحْنُ نَرْجُو اللَّهَ.

ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: اُس مسلمان کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے[صحابہ] کو دیکھا۔طلحہ بن خراش،راوی کہتے ہیں میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے اور موسیٰ کہتے ہیں میں نے طلحہ کو دیکھا ہے اور یحییٰ نے کہا کہ مجھ سے موسیٰ نے کہا کہ اور تم نے مجھے دیکھا ہے اور ہم سب اللہ سے نجات کے امیدوار ہیں۔[ترمذی،کتاب المناقب،باب ماجاء فی فضل من رأی النبی ﷺ وصحبہ ، حدیث:۳۸۵۸]

حدیث: عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم « إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِى فَقُولُوا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى شَرِّكُمْ » .

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو بُرا بھلا کہتے ہوں تو تم کہو" اللہ کی لعنت ہو تم لوگوں کی شرارت پر"۔[ترمذی،کتاب المناقب،باب فیمن سبّ اصحاب النبی ﷺ ،حدیث:۳۸۶۶]

قبر میں پیش آنے والے حالات

حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ - أَوْ قَالَ أَحَدُكُمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ يُقَالُ لأَحَدِهِمَا الْمُنْكَرُ وَالآخَرُ النَّكِيرُ فَيَقُولاَنِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِى هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ مَا كَانَ يَقُولُ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.فَيَقُولاَنِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ هَذَا. ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِى قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِى سَبْعِينَ ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيهِ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ نَمْ. فَيَقُولُ أَرْجِعُ إِلَى أَهْلِى فَأُخْبِرُهُمْ فَيَقُولاَنِ نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِى لاَ يُوقِظُهُ إِلاَّ أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ. حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ. وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا قَالَ سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ فَقُلْتُ مِثْلَهُ لاَ أَدْرِى.فَيَقُولاَنِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ذَلِكَ. فَيُقَالُ لِلأَرْضِ الْتَئِمِى عَلَيْهِ. فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ. فَتَخْتَلِفُ فِيهَا أَضْلاَعُهُ فَلاَ يَزَالُ فِيهَا مُعَذَّبًا حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ ».

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب میت کو یا تم میں سے کسی کو دفنا دیا جاتا ہے تو اس کے پاس کالے رنگ کی نیلی آنکھ والے دو فرشتے آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے۔ اور وہ دونوں پوچھتے ہیں: تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا۔ وہ میت کہتا ہے: وہی جو وہ خود کہتے تھے کہ وہ اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں تو وہ دونوں کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر طول و عرض میں ستر ستر گز کشادہ کر دی جاتی ہے، پھر اس میں روشنی کر دی جاتی ہے۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے: سو جا، وہ کہتا ہے: مجھے میرے گھر والوں کے پاس واپس پہنچا دو کہ میں انہیں یہ بتا سکوں، تو وہ دونوں کہتے ہیں: تو سو جا اس دلہن کی طرح جسے صرف وہی جگاتا ہے جو اس کے گھر والوں میں اسے سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے، یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے، اور اگر وہ منافق ہے، تو کہتا ہے: میں لوگوں کو جو کہتے سنتا تھا، وہی میں بھی کہتا تھا اور مجھے کچھ نہیں معلوم۔ تو وہ دونوں اس سے کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر زمین سے کہا جاتا ہے: تو اسے دبوچ لے تو وہ اسے دبوچ لیتی ہے اور پھر اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہو جاتی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے۔[ترمذی،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی عذاب القبر،حدیث:۱۰۷۱]

حدیث: عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِذَا مَاتَ الْمَيِّتُ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِىِّ فَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ ثُمَّ يُقَالُ هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثَكَ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ».

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کا ٹھکانا اسے صبح و شام دکھایا جاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت والوں میں اور جو دوزخی ہے تو دوزخ والوں میں۔ پھر کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تجھ کو اٹھائے گا۔[بخاری،کتاب الجنائز،باب المیت یعرض علیہ مقعدہ بالغداۃ والعشی،حدیث:۱۲۹۰]

حدیث: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا وُضِعَتْ الْجِنَازَةُ فَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً قَالَتْ قَدِّمُونِي وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ لِأَهْلِهَا يَا وَيْلَهَا أَيْنَ يَذْهَبُونَ بِهَا يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ وَلَوْ سَمِعَ الْإِنْسَانُ لَصَعِقَ.

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب میت چارپائی پر رکھی جاتی ہے اور لوگ اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں اس وقت اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد آگے بڑھاؤ ۔ لیکن اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جا رہے ہو۔ اس کی یہ آواز انسان کے سوا ہر چیز سنتی ہے۔ اگر انسان سن لے تو بےہوش ہو جائے۔[بخاری،کتاب الجنائز،باب قول المیت وھو علی الجنازۃ قدمونی،حدیث:۱۲۳۲]

حدیث: عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتُوُلِّيَ وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَأَقْعَدَاهُ فَيَقُولَانِ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنْ النَّارِ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنْ الْجَنَّةِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا وَأَمَّا الْكَافِرُ أَوْ الْمُنَافِقُ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ ثُمَّ يُضْرَبُ بِمِطْرَقَةٍ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً بَيْنَ أُذُنَيْهِ فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ.

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کر کے اس کے لوگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تم کیا کہتے تھے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ دیکھ جہنم کا اپنا ٹھکانا ، اللہ تعالیٰ نے اِس کے بدلے جنت میں تیرے لیے ایک ٹھکانا بنا دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس بندہ مومن کو جنت اور جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں اور رہا کافر یا منافق تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں ،میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا وہی میں بھی کہتا رہا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے کچھ سمجھا اور نہ اچھے لوگوں کی پیروی کی۔ اس کے بعد اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے سے بڑے زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقہ سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق سنتی ہے۔[بخاری،کتاب الجنائز،باب المیت یسمع خفق النعال،حدیث:۱۲۵۲]

حدیث: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ ضَرَبَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- خِبَاءَهُ عَلَى قَبْرٍ وَهُوَ لاَ يَحْسِبُ أَنَّهُ قَبْرٌ فَإِذَا فِيهِ إِنْسَانٌ يَقْرَأُ سُورَةَ تَبَارَكَ الَّذِى بِيَدِهِ الْمُلْكُ حَتَّى خَتَمَهَا فَأَتَى النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّى ضَرَبْتُ خِبَائِى عَلَى قَبْرٍ وَأَنَا لاَ أَحْسِبُ أَنَّهُ قَبْرٌ فَإِذَا فِيهِ إِنْسَانٌ يَقْرَأُ سُورَةَ تَبَارَكَ الْمُلْكُ حَتَّى خَتَمَهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « هِىَ الْمَانِعَةُ هِىَ الْمُنْجِيَةُ تُنْجِيهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ».

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ صحابہ میں سے کسی نے اپنا خیمہ ایک قبر پر نصب کر دیا اور انہیں معلوم نہیں ہوا کہ وہاں قبر ہے، (انہوں نے آواز سنی) اس قبر میں کوئی انسان سورہ ) تَبَارَكَ الَّذِى بِيَدِهِ الْمُلْكُ (پڑھ رہا تھا، یہاں تک کہ اس نے پوری سورۃ ختم کر دی۔ وہ صحابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے پھر آپ سے کہا: اللہ کے رسول! میں نے اپنا خیمہ ایک قبر پر نصب کر دیا، مجھے گمان نہیں تھا کہ اس جگہ پر قبر ہے۔ مگر اچانک کیا سنتا ہوں کہ اس میں سے ایک انسان سورۃ ) تَبَارَكَ الْمُلْكُ (پڑھ رہا ہے اور پڑھتے ہوئے اس نے پوری سورۃ ختم کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سورۃ مانعہ یعنی روکنے والی ہے، یہ نجات دینے والی ہے، اپنے پڑھنے والے کو عذاب قبر سے بچاتی ہے۔[ترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ماجاء فی فضل سورۃ الملک،حدیث:۲۸۹۰]

حدیث: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرَيْنِ فَقَالَ إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ مِنْ كَبِيرٍ ثُمَّ قَالَ بَلَى أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ يَسْعَى بِالنَّمِيمَةِ وَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ قَالَ ثُمَّ أَخَذَ عُودًا رَطْبًا فَكَسَرَهُ بِاثْنَتَيْنِ ثُمَّ غَرَزَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى قَبْرٍ ثُمَّ قَالَ لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا.

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں پر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں پر عذاب ہو رہا ہے اور یہ عذاب کسی بڑی وجہ سے نہیں ہو رہا ہے۔[جس سے دنیا میں بچنا بہت مشکل تھا] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! ان میں ایک شخص تو چغل خوری کیا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے بچنے کے لیے احتیاط نہیں کرتا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لی اور اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کی قبروں پر گاڑ دیا اور فرمایا کہ امید ہے کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں ان کا عذاب کم ہو تا رہے گا۔[بخاری،کتاب الجنائز،باب عذاب القبر من الغیبۃ والبول،حدیث:۱۲۸۹]

حدیث: عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ مَنْ رَأَى مِنْكُمْ اللَّيْلَةَ رُؤْيَا قَالَ فَإِنْ رَأَى أَحَدٌ قَصَّهَا فَيَقُولُ مَا شَاءَ اللَّهُ فَسَأَلَنَا يَوْمًا فَقَالَ هَلْ رَأَى أَحَدٌ مِنْكُمْ رُؤْيَا قُلْنَا لَا قَالَ لَكِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي فَأَخَذَا بِيَدِي فَأَخْرَجَانِي إِلَى الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ فَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ وَرَجُلٌ قَائِمٌ بِيَدِهِ كَلُّوبٌ مِنْ حَدِيدٍ قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ مُوسَى إِنَّهُ يُدْخِلُ ذَلِكَ الْكَلُّوبَ فِي شِدْقِهِ حَتَّى يَبْلُغَ قَفَاهُ ثُمَّ يَفْعَلُ بِشِدْقِهِ الْآخَرِ مِثْلَ ذَلِكَ وَيَلْتَئِمُ شِدْقُهُ هَذَا فَيَعُودُ فَيَصْنَعُ مِثْلَهُ قُلْتُ مَا هَذَا قَالَا انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ مُضْطَجِعٍ عَلَى قَفَاهُ وَرَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِهِ بِفِهْرٍ أَوْ صَخْرَةٍ فَيَشْدَخُ بِهِ رَأْسَهُ فَإِذَا ضَرَبَهُ تَدَهْدَهَ الْحَجَرُ فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ لِيَأْخُذَهُ فَلَا يَرْجِعُ إِلَى هَذَا حَتَّى يَلْتَئِمَ رَأْسُهُ وَعَادَ رَأْسُهُ كَمَا هُوَ فَعَادَ إِلَيْهِ فَضَرَبَهُ قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَا انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا إِلَى ثَقْبٍ مِثْلِ التَّنُّورِ أَعْلَاهُ ضَيِّقٌ وَأَسْفَلُهُ وَاسِعٌ يَتَوَقَّدُ تَحْتَهُ نَارًا فَإِذَا اقْتَرَبَ ارْتَفَعُوا حَتَّى كَادَ أَنْ يَخْرُجُوا فَإِذَا خَمَدَتْ رَجَعُوا فِيهَا وَفِيهَا رِجَالٌ وَنِسَاءٌ عُرَاةٌ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَا انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى نَهَرٍ مِنْ دَمٍ فِيهِ رَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى وَسَطِ النَّهَرِ قَالَ يَزِيدُ وَوَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ وَعَلَى شَطِّ النَّهَرِ رَجُلٌ بَيْنَ يَدَيْهِ حِجَارَةٌ فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ الَّذِي فِي النَّهَرِ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ رَمَى الرَّجُلُ بِحَجَرٍ فِي فِيهِ فَرَدَّهُ حَيْثُ كَانَ فَجَعَلَ كُلَّمَا جَاءَ لِيَخْرُجَ رَمَى فِي فِيهِ بِحَجَرٍ فَيَرْجِعُ كَمَا كَانَ فَقُلْتُ مَا هَذَا قَالَا انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى رَوْضَةٍ خَضْرَاءَ فِيهَا شَجَرَةٌ عَظِيمَةٌ وَفِي أَصْلِهَا شَيْخٌ وَصِبْيَانٌ وَإِذَا رَجُلٌ قَرِيبٌ مِنْ الشَّجَرَةِ بَيْنَ يَدَيْهِ نَارٌ يُوقِدُهَا فَصَعِدَا بِي فِي الشَّجَرَةِ وَأَدْخَلَانِي دَارًا لَمْ أَرَ قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهَا فِيهَا رِجَالٌ شُيُوخٌ وَشَبَابٌ وَنِسَاءٌ وَصِبْيَانٌ ثُمَّ أَخْرَجَانِي مِنْهَا فَصَعِدَا بِي الشَّجَرَةَ فَأَدْخَلَانِي دَارًا هِيَ أَحْسَنُ وَأَفْضَلُ فِيهَا شُيُوخٌ وَشَبَابٌ قُلْتُ طَوَّفْتُمَانِي اللَّيْلَةَ فَأَخْبِرَانِي عَمَّا رَأَيْتُ قَالَا نَعَمْ أَمَّا الَّذِي رَأَيْتَهُ يُشَقُّ شِدْقُهُ فَكَذَّابٌ يُحَدِّثُ بِالْكَذْبَةِ فَتُحْمَلُ عَنْهُ حَتَّى تَبْلُغَ الْآفَاقَ فَيُصْنَعُ بِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَالَّذِي رَأَيْتَهُ يُشْدَخُ رَأْسُهُ فَرَجُلٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَنَامَ عَنْهُ بِاللَّيْلِ وَلَمْ يَعْمَلْ فِيهِ بِالنَّهَارِ يُفْعَلُ بِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَالَّذِي رَأَيْتَهُ فِي الثَّقْبِ فَهُمْ الزُّنَاةُ وَالَّذِي رَأَيْتَهُ فِي النَّهَرِ آكِلُوا الرِّبَا وَالشَّيْخُ فِي أَصْلِ الشَّجَرَةِ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام وَالصِّبْيَانُ حَوْلَهُ فَأَوْلَادُ النَّاسِ وَالَّذِي يُوقِدُ النَّارَ مَالِكٌ خَازِنُ النَّارِ وَالدَّارُ الْأُولَى الَّتِي دَخَلْتَ دَارُ عَامَّةِ الْمُؤْمِنِينَ وَأَمَّا هَذِهِ الدَّارُ فَدَارُ الشُّهَدَاءِ وَأَنَا جِبْرِيلُ وَهَذَا مِيكَائِيلُ فَارْفَعْ رَأْسَكَ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا فَوْقِي مِثْلُ السَّحَابِ قَالَا ذَاكَ مَنْزِلُكَ قُلْتُ دَعَانِي أَدْخُلْ مَنْزِلِي قَالَا إِنَّهُ بَقِيَ لَكَ عُمُرٌ لَمْ تَسْتَكْمِلْهُ فَلَوْ اسْتَكْمَلْتَ أَتَيْتَ مَنْزِلَكَ.

ترجمہ: حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نمازفجر پڑھنے کے بعد(عام طور سے)ہماری طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کر دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں سےکوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض مقدس کی طرف لے گئے۔(اور وہاں سے عالم بالا کی مجھ کو سیر کرائی ) وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سر کے پیچھے تک چیر دیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آ جاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلیں۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آ کر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلیں۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب چوڑا۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلیں ، ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے پاس آئے، نہر کے بیچ میں ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے کنارےپر ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتا کہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتا کہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلیں۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگا رہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین و خوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان، عورتیں اور بچے( سب ہی قسم کے لوگ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر درخت پر چڑھا کر مجھے ایک دوسرے گھر میں لے گئے جو پہلے گھر سے بھی زیادہ خوبصورت اور بہتر ین تھا۔ اس میں بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا ہاں وہ جو آپ نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جا رہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو آپ نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور جنہیں آپ نے تنور میں دیکھا تو وہ زنا کار تھے۔ اور جس کو آپ نے نہر میں دیکھا وہ سود خور تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے اردگرد والے بچے لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلا رہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں آپ پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں آپ اب کھڑے ہیں، یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سر اٹھائیےمیں نے جو سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ آپ کا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔ انہوں نے کہا کہ ابھی آپ کی عمر باقی ہے جو آپ نے پوری نہیں کی اگر آپ وہ پوری کر لیتے تو اپنے مکان میں آ جاتے۔ [بخاری،کتاب الجنائز،باب ماقیل فی اولاد المشرکین، حدیث: ۱۲۹۷]

قیامت کی نشانیاں

حدیث: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ وَيَثْبُتَ الْجَهْلُ وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ وَيَظْهَرَ الزِّنَا.

ترجمہ: حضرتانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت نشانیوں میں سے یہ ہے کہ [دینی] علم اٹھالیا جائے گا ، جہل ہی جہل ظاہر ہو جائے گا، [علانیہ] شراب پی جائے گی اور زنا پھیل جائے گا۔ [بخاری،کتاب العلم،باب رفع العلم وظہور الجہل حدیث: ۷۹]

حدیث: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنْ الْعِبَادِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا.

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فر ماتے ہوئے سنا: اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا ئےگا کہ اس کو بندوں سے چھین لے گا،بلکہ وہ علماء کو موت دے کر علم کو اٹھا ئے گا یہاں تک جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے،ان سے سوالات کئے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے جواب دیں گے اس لئے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔[بخاری،کتاب العلم،باب کیف یقبض العلم، حدیث: ۹۸]

حدیث: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ جَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ مَتَى السَّاعَةُ فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ سَمِعَ مَا قَالَ فَكَرِهَ مَا قَالَ وَقَالَ بَعْضُهُمْ بَلْ لَمْ يَسْمَعْ حَتَّى إِذَا قَضَى حَدِيثَهُ قَالَ أَيْنَ أُرَاهُ السَّائِلُ عَنْ السَّاعَةِ قَالَ هَا أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَإِذَا ضُيِّعَتْ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرْ السَّاعَةَ قَالَ كَيْفَ إِضَاعَتُهَا قَالَ إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرْ السَّاعَةَ.

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔ بعض لوگ [جو مجلس میں تھے] کہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی اور بعض کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی باتیں پوری کر چکے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا ؟ اس[دیہاتی] نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں یہاں موجود ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امانت[ایمانداری دنیا سے] اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کرنا۔ اس نے کہا ایمانداری اٹھنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب [حکومت کے کاروبار] نااہل لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔[بخاری،کتاب العلم،بَاب مَنْ سُئِلَ عِلْمًا وَهُوَ مُشْتَغِلٌ فِي حَدِيثِهِ فَأَتَمَّ الْحَدِيثَ ثُمَّ أَجَابَ السَّائِلَ، حدیث: ۵۷]

حدیث: عَنْ سَلاَمَةَ بِنْتِ الْحُرِّ أُخْتِ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ الْفَزَارِىِّ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يَتَدَافَعَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ لاَ يَجِدُونَ إِمَامًا يُصَلِّى بِهِمْ ».

ترجمہ: حضرت سلامہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: بے شک قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ مسجد میں لوگ ایک دوسرے کو دھکاّ دیں گے[امامت کرنے کے لئے] وہ لوگ امام نہیں پائیں گے جو ان کو نماز پڑھائے۔[ابو داؤد،کتاب الصلاۃ،باب کراہیۃ التدافع علی الامامۃ، حدیث: ۵۸۱]

حدیث: عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تقوم الساعة حتى يتقارب الزمان، فتكون السنة كالشهر، ويكون الشهر كالجمعة، وتكون الجمعة كاليوم، ويكون اليوم كالساعة، وتكون الساعة كاحتراق السعفة، أو الخوصة.

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ: قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ زمانہ قریب ہو جائے گا،تو سال مہینے کی طرح ہو جائے گا اور مہینہ ہفتہ کی طرح اور ہفتہ دن کی طرح اور دن گھنٹے کی طرح اور گھنٹہ پتے کے جلنے کی طرح۔[یعنی گھنٹہ اتنی تیزی سے گزرے گا جیسے ایک سوکھا پتہ تیزی سے جل کر ختم ہو جاتا ہے] [صحیح ابن حبان،کتاب اخبارہ صلى الله عليه وسلم عما یکون فی امتہ من الفتن والحوادث،باب ذکر الاخبار عن تقارب الزمان قبل قیام الساعۃ ، حدیث: ۶۷۵۰]

حدیث: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ تَسْلِيمَ الْخَاصَّةِ ، وَفُشُوَّ التِّجَارَةِ حَتَّى تُعِينَ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا عَلَى التِّجَارَةِ ، وَحَتَّى يَخْرُجَ الرَّجُلُ بِمَالِهِ إِلَى أَطْرَافِ الأَرْضِ فَيَرْجِعُ فَيَقُولُ : لَمْ أَرْبَحْ شَيْئًا.

ترجمہ: حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: قیامت سے پہلے صرف خاص لوگوں کو سلام کیا جائے گا،تجارت پھیل جائے گا یہاں تک کہ تجارتی معاملات میں عورت اپنے شوہر کی مدد کرے گی اور یہاں تک کہ ایک شخص اپنا مال لے کر زمین کے اطراف میں نکلے گا اور[واپس آکر] کہے گا کہ میں نے کچھ بھی فائدہ نہیں کمایا۔ [المستدرک للحاکم،کتاب الفتن والملاحم، حدیث: ۸۳۷۸]

حدیث: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَقْتَتِلَ فِئَتَانِ عَظِيمَتَانِ يَكُونُ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ دَعْوَتُهُمَا وَاحِدَةٌ وَحَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ قَرِيبٌ مِنْ ثَلَاثِينَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ وَحَتَّى يُقْبَضَ الْعِلْمُ وَتَكْثُرَ الزَّلَازِلُ وَيَتَقَارَبَ الزَّمَانُ وَتَظْهَرَ الْفِتَنُ وَيَكْثُرَ الْهَرْجُ وَهُوَ الْقَتْلُ وَحَتَّى يَكْثُرَ فِيكُمْ الْمَالُ فَيَفِيضَ حَتَّى يُهِمَّ رَبَّ الْمَالِ مَنْ يَقْبَلُ صَدَقَتَهُ وَحَتَّى يَعْرِضَهُ عَلَيْهِ فَيَقُولَ الَّذِي يَعْرِضُهُ عَلَيْهِ لَا أَرَبَ لِي بِهِ وَحَتَّى يَتَطَاوَلَ النَّاسُ فِي الْبُنْيَانِ وَحَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي مَكَانَهُ وَحَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا فَإِذَا طَلَعَتْ وَرَآهَا النَّاسُ يَعْنِي آمَنُوا أَجْمَعُونَ فَذَلِكَ حِينَ{لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا }وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلَانِ ثَوْبَهُمَا بَيْنَهُمَا فَلَا يَتَبَايَعَانِهِ وَلَا يَطْوِيَانِهِ وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ وَقَدْ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِهِ فَلَا يَطْعَمُهُ وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ وَهُوَ يُلِيطُ حَوْضَهُ فَلَا يَسْقِي فِيهِ وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَةُ وَقَدْ رَفَعَ أُكْلَتَهُ إِلَى فِيهِ فَلَا يَطْعَمُهَا.

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو عظیم جماعتیں جنگ نہ کریں گی۔ ان دونوں جماعتوں کے درمیان بڑی خونریزجنگ ہو گی۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا اور یہاں تک کہ بہت سے جھوٹے دجال بھیجے جائیں گے۔ تقریباً تیس دجال۔ ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے اور یہاں تک کہ علم اٹھا لیا جائے گا اور زلزلوں کی کثرت ہو گی اور زمانہ قریب ہو جائے گا اور فتنے ظاہر ہو جائیں گے اور ہرج بڑھ جائے گا اور ہرج سے مراد قتل ہے اور یہاں تک کہ تمہارے پاس مال کی کثرت ہو جائے گی بلکہ بہہ پڑے گا اور یہاں تک کہ صاحب مال کو یہ فکر دامن گیر ہو گا کہ اس کا صدقہ قبول کون کرے گااور یہاں تک کہ وہ پیش کرے گا لیکن جس کے سامنے پیش کرے گا وہ کہے گا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے اور یہاں تک کہ لوگ بڑی بڑی عمارتوں پر آپس میں فخر کریں گے۔ ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر عمارات بنائیں گے اور یہاں تک کہ ایک شخص دوسرے کی قبر سے گزرے گا اور کہے گا کہ کاش میں بھی اسی جگہ ہوتا اور یہاں تک کہ سورج مغرب سے نکلے گا۔ پس جب وہ اس طرح طلوع ہو گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے لیکن یہ وہ وقت ہو گا جب کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہ پہنچائے گا جو پہلے سے ایمان نہ لایا ہو یا اس نے اپنے ایمان کے ساتھ اچھے کام نہ کئے ہوں اور قیامت اچانک اس طرح قائم ہو جائے گی کہ دو آدمیوں نے اپنے درمیان کپڑا پھیلا رکھا ہو گا اور اسے ابھی بیچ نہ پائے ہوں گے نہ لپیٹ پائے ہوں گے۔ اور قیامت اس طرح برپا ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنی اونٹنی کا دودھ نکال کر واپس ہوا ہو گا کہ اسے کھا بھی نہ پایا ہو گا ۔اور قیامت اس طرح قائم ہو جائے گی کہ وہ اپنے حوض کو درست کر رہا ہو گا اور اس میں سے پانی بھی نہ پیا ہو گا ۔اور قیامت اس طرح قائم ہو جائے گی کہ اس نے اپنا لقمہ منہ کی طرف اٹھایا ہو گا اور ابھی اسے کھایا بھی نہ ہو گا۔ [بخاری،کتاب الفتن،باب خروج النار، حدیث: ۶۵۸۸]

حدیث: عن أبي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لا تقوم الساعة حتى لا يحج البيت.

ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ بیت اللہ کا حج نہیں کیا جائے گا۔ [صحیح ابن حبان،کتاب اخبارہ صلى الله عليه وسلم عما یکون فی امتہ من الفتن والحوادث،باب ذکر الاخبار عن انقطاع الحج الی البیت العتیق فی آخر الزمان، حدیث: ۶۷۵۰]

حدیث: عَنْ ا بن مسعود سألت رسول الله صلى الله عليه و سلم قلت يا رسول الله هل للساعة من علم تعرف به الساعة (حدیث طویل ومنہ) فقال : يا بن مسعود ان من اعلام الساعة واشراطها ان يؤتمن الخائن وان يخون الامين يا بن مسعود ان من اعلام الساعة واشراطها ان تواصل الاطباق وان تقاطع الارحام يا بن مسعود ان من اعلام الساعة واشراطها ان يسود كل قبيلة منافقوها وكل سوق فجارها يا بن مسعود ان من اعلام الساعة واشراطها ان تظهر المعازف والكبر وشرب الخمور يا بن مسعود ان من اعلام الساعة واشراطها ان يكثر اولاد الزنى قلت ابا عبد الرحمن وهم مسلمون قال نعم قلت أبا عبد الرحمن والقرآن بين ظهرانيهم قال نعم قلت أبا عبد الرحمن وأنى ذلك قال يأتي على الناس زمان يطلق الرجل المرأة ثم يجحدها طلاقها ثم فيقيم على فرجها فهما زانيان ما أقاما.

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا قیامت کی کوئی علامت ہے جس سے اس کو پہچان لیا جائے؟ [یہ ایک لمبی حدیث ہے جس کا کچھ حصہ یہ ہے] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ائے ابنِ مسعود! بے شک قیامت کی علامتوں اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ:خیانت کرنے والے کو امانتدار اور امانتدار کو خیانت کرنے والا سمجھا جائے گا۔دور والوں کو جوڑا جائے گا اور قریبی رشتہ داروں سے دوری اختیار کیا جائے گا۔ ہر قبیلے کا سردار اس کے منافق لوگ ہو جائیں گے اور بازار بُرے لوگوں سے بھر جائے گا۔گانے باجے،تکبر اور شراب پینا عام ہو جائے گا۔ زنا سے پیدا ہونے والے بچوں کی کثرت ہو جائے گی۔راوی کہتے ہیں۔میں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے کہا: کیا وہ مسلمان ہوں گے؟ انہوں نے کہا کہ :ہاں،میں نے کہا کہ کیا قرآن ان کے درمیان ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ:ہاں،میں نے کہا کہ ایسا کب ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ:لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ مرد اپنی بیوی کو طلاق دے دےگا اور پھر وہ طلاق کا انکار کر دے گا اور اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرے گا تو وہ دونوں زانی ہوں گے جب تک ساتھ رہیں گے۔ [المعجم الاوسط،جزء خامس ،من اسمہ عبد الوارث ۔حدیث :۴۸۶۱]

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَحْسِرَ الْفُرَاتُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ يَقْتَتِلُ النَّاسُ عَلَيْهِ فَيُقْتَلُ مِنْ كُلِّ مِائَةٍ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ وَيَقُولُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ لَعَلِّى أَكُونُ أَنَا الَّذِى أَنْجُو ».

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ فرات سے سونے کا ایک پہاڑ ظاہر ہوگا،لوگ اُس پر جنگ کریں تو ہر سو میں ننانوے مارا جائے گا لیکن ہر شخص کہے گا کہ شاید وہ میں ہوں جو نجات پائے گا[یعنی اس سونے کے پہاڑ کا مالک ہو جائے گا] [مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ،باب لاتقوم الساعۃ حتی یحسر الفرات عن جبل من ذھب، حدیث: ۷۴۵۴]

حدیث: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُمْلاَ الأَرْضُ ظُلْمًا وَجَوْرًا وَعُدْوَانًا ، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي مَنْ يَمْلاَهَا قِسْطًا وَعَدْلاً كَمَا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَعُدْوَانًا.

ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک زمین ظلم وجبر اور ناانصافی سے بھر جائے گی،پھر میرے اہل بیت سے ایک شخص[یعنی امام مہدی] نکلے گا جو زمین کو عدل وانصاف سے ایسے ہی بھر دے گا جیسے وہ ظلم سے بھر چکی تھی۔[المستدرک للحاکم،کتاب الفتن والملاحم، حدیث: ۸۶۶۹]

حدیث: عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ الْغِفَارِىِّ قَالَ اطَّلَعَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- عَلَيْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ فَقَالَ « مَا تَذَاكَرُونَ ».قَالُوا نَذْكُرُ السَّاعَةَ. قَالَ « إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّى تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ ». فَذَكَرَ الدُّخَانَ وَالدَّجَّالَ وَالدَّابَّةَ وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَنُزُولَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ -صلى الله عليه وسلم- وَيَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَثَلاَثَةَ خُسُوفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذَلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْيَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ.

ترجمہ: حضرت سیدنا حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اُس وقت ہم لوگ باتیں کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم لوگ کس چیز کا تذکرہ کر رہے تھے؟ ہم نے کہا: ہم قیامت کا ذکر کررہےتھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت نہیں قائم ہو گی جب تک دس نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لو گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا دھوئیں کا اور دجال کا اور زمین کے جانور کا اور آفتاب کے نکلنے کا پچھم سے اور سیدنا عیسٰی علیہ السلام کے اترنے کا اور یاجوج ماجوج کے نکلنے کا اور تین جگہ خسف ہونا یعنی زمین میں دھنسنا، ایک مشرق میں، دوسرے مغرب میں، تیسرے جزیرہ عرب میں اور ان سب نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہو گی جو لوگوں کو یمن سے نکالے گی اور ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی .[مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ،باب فی الآیات الّتی تکون قبل الساعۃ، حدیث: ۷۴۶۷]

حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ رِيحًا مِنَ الْيَمَنِ أَلْيَنَ مِنَ الْحَرِيرِ فَلاَ تَدَعُ أَحَدًا فِى قَلْبِهِ - قَالَ أَبُو عَلْقَمَةَ مِثْقَالُ حَبَّةٍ وَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ - مِنْ إِيمَانٍ إِلاَّ قَبَضَتْهُ ».

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:[قیامت سے پہلے] بے شک اللہ تعالیٰ یمن کی طرف سے ایک ہو بھیجے گا جو ریشم سے بھی زیادہ نرم ہوگی، تو وہ ہوا کسی ایسے شخص کو نہیں چھوڑے گی جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا مگر اُسے قبض کر لے گی۔[یعنی اُس ہوا کے اثر سے سارے مسلمان مر جائیں گے] [مسلم،کتاب الایمان،باب فی الریح التی تکون قرب القیامۃ، حدیث: ۳۲۷]

حدیث: عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى لاَ يُقَالَ فِى الأَرْضِ اللَّهُ اللَّهُ ».

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ زمین میں اللہ اللہ نہیں کہا جائے گا۔[یعنی جب زمین میں کوئی اللہ کہنے والا نہیں رہے گا اس وقت قیامت ہوگی،اور جب تک ایک بھی شخص اللہ کہنے والا رہےگا اس وقت تک قیامت نہیں ہوگی] [مسلم،کتاب الایمان،باب ذھاب الایمان فی آخر الزمان، حدیث: ۳۲۷]

حدیث: عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:لا تقوم الساعة حتى تتسافدوا في الطريق تسافد الحمير، قلت: إن ذاك لكائن؟ قال:نعم ليكونن.

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک لوگ راستوں میں کھلے عام گدھوں کی طرح بدکاری کریں گے۔راوی کہتے ہیں:میں نے عرض کیا:بے شک ایسا ہونے والا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں،ضرور ہوگا۔ [صحیح ابن حبان،کتاب اخبارہ صلى الله عليه وسلم عما یکون فی امتہ من الفتن والحوادث،باب ذکر الاخبار عن ظہور الزنا وکثرۃ الجھر بہ فی آخر الزمان، حدیث: ۶۷۶۷]

حدیث: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ إِلاَّ عَلَى شِرَارِ النَّاسِ ».

ترجمہ: حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: قیامت صرف بُرے لوگوں پر قائم ہوگی۔[مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ،باب قرب الساعۃ، حدیث: ۷۵۹۰]

حدیث: عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ قَالَ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ [الی۔۔۔۔۔۔۔]فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَأْخُذُهُمْ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَكُلِّ مُسْلِمٍ وَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ فِيهَا تَهَارُجَ الْحُمُرِ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ

تر جمہ: حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے دجال کے متعلق ایک لمبی حدیث مروی ہے اسی میں یہ ہے کہ:نبی ﷺ نے فر مایا: اسی درمیان اللہ تعالی ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جو لوگوں کے بغلوں کے نیچے سے گذرے گی جو تمام مسلمانوں کی روح قبض کر لے گی ،اور برے لوگ باقی رہ جائیں گے جو گدھوں کی طرح کھلے عام زنا کریں گے ،تو انہیں لوگوں پر قیامت ہوگی۔ (مسلم ،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب ذکر الدجال و صفتہ و ما معہ،حدیث:۲۹۳۷)

حقوق العباد

حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ ».قِيلَ مَا هُنَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ « إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَسَمِّتْهُ وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ ».

ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کے حق مسلمان پر چھ ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا، کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!وہ کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: جب تو مسلمان سے ملے تو اس کو سلام کر،جب وہ تجھے دعوت دے تو قبول کر،جب تجھ سے مشورہ مانگے تو اس کی خیر خواہی کر،جب وہ چھینکے اور الحمد للہ کہے تو اس کا جواب دے[یعنی یَرْحَمْکَ اللہُ] کہہ،جب بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کر اور جب انتقال ہو جائے تو اس کے جنازے میں شریک رہ۔ [مسلم،کتاب السلام،باب من حق المسلم للمسلم رد السلام،حدیث:۵۷۷۸]

حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ ». قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لاَ دِرْهَمَ لَهُ وَلاَ مَتَاعَ. فَقَالَ « إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِى يَأْتِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلاَةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ وَيَأْتِى قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِى النَّارِ ».

ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے کہا: مفلس ہم میں وہ شخص ہے جس کے پاس درہم (روپیہ)اور سازوسامان نہ ہو۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز،روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا، لیکن اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر تہمت لگائی ہوگی،کسی کا مال کھایا ہوگا،کسی کا خون کیا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا۔پھر اُن لوگوں کو[یعنی دنیا میں جن کو ستایا ہوگا]اُس (ستانے والے)کی نیکیاں دے دی جائیں گی،اور اگر مظلوم لوگوں کا حق ادا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو اُن لوگوں کے گناہ اِس پر ڈال دیا جائے گا،پھر آخر کار اُسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ [مسلم،کتاب البر والصلۃ،باب تحریم الظلم،حدیث:۶۷۴۴]

حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إِلَى أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ ».

ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن حقداروں کو اُن کا حق ضرور دِلایا جائے گا یہاں تک بے سینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لیا جائے گا۔[اگر سینگ والی بکری نے اُس کو مارا ہوگا] [مسلم،کتاب البر والصلۃ،باب تحریم الظلم،حدیث:۶۷۴۵]

حدیث: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ.

ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا اور کسی طریقے سے ظلم کیا ہو تو اُس سے آج ہی معاف کرالے،اُس دن کے آنے سے پہلے جس دن بدلے میں دینے کے لئے نہ دینار ہو گا نہ درہم۔ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہوگا تو وہی اس کے ظلم بدلے میں اس سے لیا جائے گا اور اگر نیکیاں نہیں ہوں گی تو مظلوم کا گناہ لے کر اس کے اوپر ڈال دیا جائے گا۔ [بخاری،کتاب المظالم والغصب،باب من کانت لہ مظلمۃ عند الرجل فحللھا لہ ھل یبین مظلمتہ ،حدیث:۲۲۶۹]

حدیث: عَنْ سَعِيد بْن زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ ظَلَمَ مِنْ الْأَرْضِ شَيْئًا طُوِّقَهُ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ.

ترجمہ: حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی کی ذرا سی بھی زمین ظلم سے لے لی، اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔[بخاری،کتاب المظالم والغصب،باب اثم من ظلم الارض شئیا من الارض ،حدیث:۲۲۷۲]

حدیث: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « يُغْفَرُ لِلشَّهِيدِ كُلُّ ذَنْبٍ إِلاَّ الدَّيْنَ ».

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شہید کا ہر گناہ معاف کر دیا جاتا ہے سوائے قرض کے۔[مسلم،کتاب الامارۃ،باب من قتل فی سبیل اللہ کفّرت خطایاہ الا الدین،حدیث:۴۹۹۱]

حدیث: عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ : الظُّلْمُ ثَلاثَةٌ ، فَظُلْمٌ لا يَغْفِرُهُ اللَّهُ ، وَظُلْمٌ يَغْفِرُهُ ، وَظُلْمٌ لا يَتْرُكُهُ ، فَأَمَّا الظُّلْمُ الَّذِي لا يَغْفِرُهُ اللَّهُ فَالشِّرْكُ ، قَالَ اللَّهُ : إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (سورة لقمان آية 13) ، وَأَمَّا الظُّلْمُ الَّذِي يَغْفِرُهُ اللَّهُ فَظُلْمُ الْعِبَادِ لأَنْفُسِهِمْ ، فِيمَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ رَبِّهِمْ ، وَأَمَّا الظُّلْمُ الَّذِي لا يَتْرُكُهُ اللَّهُ فَظُلْمُ الْعِبَادِ بَعْضِهِمْ بَعْضًا ، حَتَّى يَدِينَ لِبَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ۔

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ظلم تین قسم کے ہیں،پہلا وہ ظلم جسے اللہ تعالیٰ نہیں بخشے گا۔دوسرا وہ ظلم جسے اللہ تعالیٰ بخش دے گا۔تیسرا وہ ظلم جسے اللہ تعالیٰ نہیں چھوڑے گا۔تو وہ ظلم جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں فر مائے گا وہ شرک ہے۔اللہ تعالیٰ نے فر مایا" بے شک شرک بڑا ظلم ہے۔" رہا وہ ظلم جسے اللہ تعالیٰ[جس کے لئے چاہے گا]معاف کر دے گا وہ بندے کا اپنے اوپر ظلم کرنا ہے ان چیزوں میں جو اُس کے اور اس کے رب کے درمیان ہے[جیسے کسی دن کی نماز ترک کر دینا،کسی دن کا روزہ چھوڑ دینا وغیرہ وغیرہ] اور رہا وہ ظلم جسے اللہ تعالیٰ نہیں چھوڑے گا وہ بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم کرنا ہے،اللہ تعالیٰ ایک کو دوسرے سے بدلہ دلائے گا۔[مسند الطیالسی، حدیث:۱۹۲۷]

علم دین کی فضیلت

حدیث: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ : مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِى الدِّينِ.

تر جمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اُسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ [ترمذی،کتاب العلم،باب مَا جَاءَ إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدٍ خَيْرًا فَقَّهَهُ فِى الدِّينِ،حدیث:۲۸۵۷]

حدیث: أخبرنا بشر بن ثابت البزار ثنا نصر بن القاسم عن محمد بن إسماعيل عن عمرو بن كثير عن الحسن قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من جاءه الموت وهو يطلب العلم ليحيي به الإسلام فبينه وبين النبيين درجة واحدة في الجنة .

تر جمہ: حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو اس حالت میں موت آئی کہ وہ علم حاصل کر رہاتھا تاکہ وہ اُس کے ذریعے اسلام کو زندہ کرے تو اس کے اور انبیائے کرام کے درمیان جنت میں صرف ایک درجہ کا فرق ہوگا۔[سنن دارمی،المقدمہ ،فضل العلم والعالم ،حدیث:۳۵۴،المعجم الاوسط،حدیث:۹۴۵۴]

حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ.

ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو علم حاصل کرنے کی خاطر کسی راستے پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کی طرف جانے والے راستے پر چلنا آسان فر مادیتا ہے۔[ترمذی،کتاب العلم،باب ماجاء فی فضل طلب العلم،حدیث:۲۸۵۸]

حدیث: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَخْبَرَةَ عَنْ سَخْبَرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ : مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ كَانَ كَفَّارَةً لِمَا مَضَى.

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن سخبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے علم حاصل کیا تو وہ اس کے پچھلے تمام گناہوں کے لئے کفارہ ہوجاتا ہے۔[ترمذی،کتاب العلم،باب ماجاء فی فضل طلب العلم،حدیث:۲۸۶۰]

حدیث: عن علي قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ما انتعل عبد قط ولا تخفف ولا لبس ثوبا ليغدو في طلب علم إلا غفر الله له ذنوبه حيث يخطو عتبة بابه.

ترجمہ: حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بندہ علم دین کی تلاش میں جوتے،موزے یا کپڑا پہنتا ہے تو اپنے گھر کی چوکھٹ سے نکلتے ہی اس کے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔[المعجم الاوسط،باب المیم،حدیث:۵۷۲۲]

حدیث: عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ غَدَا إِلَى الْمَسْجِدِ لاَ يُرِيدُ إِلاَّ لِيَتَعَلَّمَ خَيْرًا أَوْ يَعْلَمَهُ كَانَ لَهُ أَجْرُ مُعْتَمِرٍ تَامِّ الْعُمْرَةِ ، فَمَنْ رَاحَ إِلَى الْمَسْجِدِ لاَ يُرِيدُ إِلاَّ لِيَتَعَلَّمَ خَيْرًا أَوْ يُعَلِّمَهُ فَلَهُ أَجْرُ حَاجٍّ تَامِّ الْحِجَّةِ .

ترجمہ: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص صبح مسجد کو آیا صرف اس نیت سے کہ بھلائی سیکھے گا یا سیکھائے گا تو اُسے مکمل عمرہ کا ثواب دیا جائے گا۔اور جو شخص شام کو مسجد صرف بھلائی سیکھنے یا سیکھانے کی نیت سے تو اُسے مکمل حج کا ثواب دیا جائے گا۔[المستدرک للحاکم،کتاب العلم ،حدیث:۳۱۱]

حدیث: عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ مِنْ بَعْضِ حُجَرِهِ ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ ، فَإِذَا هُوَ بِحَلْقَتَيْنِ ، إِحْدَاهُمَا يَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ ، وَيَدْعُونَ اللَّهَ ، وَالأُخْرَى يَتَعَلَّمُونَ وَيُعَلِّمُونَ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : كُلٌّ عَلَى خَيْرٍ ، هَؤُلاَءِ يَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ ، وَيَدْعُونَ اللَّهَ ، فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ ، وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ ، وَهَؤُلاَءِ يَتَعَلَّمُونَ وَيُعَلِّمُونَ ، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا , فَجَلَسَ مَعَهُمْ.

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کمرے سے نکل کر مسجد میں تشریف لائے،تو لوگوں کی دو جماعت دیکھا،ان میں سے ایک جماعت کے لوگ قرآن مجید کی تلاوت کررہے تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے تھے، دوسری جماعت کے لوگ علم سیکھ اور سکھا رہے تھے،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سبھی لوگ بھلائی پر ہیں،یہ لوگ قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے ہیں،تو اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اِن کو عطا فرمائے یا نہیں فرمائے۔اور یہ لوگ علم سیکھ اور سکھا رہے ہیں اور بے شک میں سیکھانے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔[ابن ماجہ،المقدمہ،باب فی فضل العلماء والحث علی طلب العلم،حدیث:۲۲۹]

حدیث: عَنْ قَيْسِ بْنِ كَثِيرٍ قَالَ قَدِمَ رَجُلٌ مِنَ الْمَدِينَةِ عَلَى أَبِى الدَّرْدَاءِ وَهُوَ بِدِمَشْقَ فَقَالَ مَا أَقْدَمَكَ يَا أَخِى فَقَالَ حَدِيثٌ بَلَغَنِى أَنَّكَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ أَمَا جِئْتَ لِحَاجَةٍ قَالَ لاَ. قَالَ أَمَا قَدِمْتَ لِتِجَارَةٍ قَالَ لاَ. قَالَ مَا جِئْتَ إِلاَّ فِى طَلَبِ هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ فَإِنِّى سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِى فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِى السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِى الأَرْضِ حَتَّى الْحِيتَانُ فِى الْمَاءِ وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ إِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلاَ دِرْهَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ ».

ترجمہ: حضرت قیس بن کثیر کہتے ہیں کہ ایک شخص مدینہ منورہ سے سیدناابو درداء رضی الله عنہ کے پاس دمشق آیا،حضرت ابودرداء رضی الله عنہ نے اس سے کہا: میرے بھائی! تمہیں یہاں کیا چیز لے کر آئی ہے، اس نے کہا: مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان کرتے ہیں،حضرت ابو درداء نے کہا: کیا تم کسی اور ضرورت سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: کیا تم تجارت کی غرض سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ میں تو صرف اس حدیث کی طلب و تلاش میں آیا ہوں، حضرت ابو درداء نے کہا: [اچھا تو سنو]میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:جو شخص علم دین کی تلاش میں کسی راستہ پر چلے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اسے جنت کے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ بیشک فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، اور عالم کے لیے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے [علم نبوی اور وراثت نبوی سے] پورا پورا حصہ لیا۔[ترمذی،کتاب العلم،باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ،حدیث:۲۸۹۸]

حدیث: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ يَقُولُ : مَنْ جَاءَ مَسْجِدِي هَذَا ، لَمْ يَأْتِهِ إِلاَّ لِخَيْرٍ يَتَعَلَّمُهُ أَوْ يُعَلِّمُهُ ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللهِ ، وَمَنْ جَاءَ لِغَيْرِ ذَلِكَ ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ يَنْظُرُ إِلَى مَتَاعِ غَيْرِهِ.

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص میری اس مسجد میں صرف خیر [علم دین] سیکھنے یا سکھانے کے لیے آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کے درجہ میں ہے، اور جو اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے آئے تو وہ اس شخص کے درجہ میں ہے جس کی نظر دوسروں کے سامان پر لگی ہوتی ہے۔ [ابن ماجہ،المقدمہ،باب فی فضل العلماء والحث علی طلب العلم،حدیث:۲۲۷]

حدیث: عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ ، وَقَبْضُهُ أَنْ يُرْفَعَ , وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ الْوُسْطَى وَالَّتِي تَلِي الإِبْهَامَ هَكَذَا , ثُمَّ قَالَ : الْعَالِمُ وَالْمُتَعَلِّمُ شَرِيكَانِ فِي الأَجْرِ ، وَلاَ خَيْرَ فِي سَائِرِ النَّاسِ بَعْدُ.

ترجمہ: حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم اس علم دین کو اس کے قبض کیے جانے سے پہلے حاصل کر لو، اور اس کا قبض کیا جانا یہ ہے کہ اسے اٹھا لیا جائے، پھر آپ نے بیچ والی اور شہادت کی انگلی دونوں کو ملایا، اور فرمایا:عالم اور متعلم [سیکھنے اور سکھانے والے] دونوں ثواب میں شریک ہیں، اور باقی لوگوں میں کوئی خیر نہیں ہے۔ [ابن ماجہ،المقدمہ،باب فی فضل العلماء والحث علی طلب العلم،حدیث:۲۲۸]

حدیث: عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ غَدَا يُرِيدُ الْعِلْمَ يَتَعَلَّمُهُ لِلَّهِ فَتَحَ اللهُ لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَفَرَشَتْ لَهُ الْمَلَائِكَةُ أَكْتافَهَا، وَصَلَّتْ عَلَيْهِ مَلَائِكَةُ السَّمَوَاتِ وَحِيتَانُ الْبَحْرِ، وَلِلْعَالِمِ مِنَ الْفَضْلِ عَلَى الْعَابِدِ كَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى أَصْغَرِ كَوْكَبٍ فِي السَّمَاءِ.

ترجمہ: حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو صبح کے وقت اللہ کے لئے علم حاصل کرنے جاتا ہے،تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا دروازہ کھول دیتا ہے اور فرشتے اس کے لئے اپنے پر بچھا دیتے ہیں اور آسمان کے فرشتے اور سمندر کی مچھلیاں اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں،اور عالمِ دین کی فضلیت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی آسمان میں سب سے چھوٹے ستارے پر۔[شعب الایمان،طلب العلم،فصل فی فضل العلم وشرف مقدارہ،حدیث:۱۵۷۶]

حدیث: عن الحسن، أن أبا الدرداء قال: كن عالمًا أو متعلمًا أو محبًّا أو متبعًا، ولا تكن الخامس فتهلك.

ترجمہ: حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا:عالم بنو یا علم حاصل کرنے والا بنو یا عالم سے محبت کرنے والا بنو یا ان کی بات ماننے والا بنو،اور تم پانچواں نہ بننا نہیں تو ہلاک ہو جاؤ گے۔ [جامع بیان العلم وفضلہ،طلب العلم،باب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم:العالم والمتعلم شریکان ،حدیث: ۱۰۵]

قرآن مجید کی عظمت وفضیلت

حدیث: عَنِ ابْنِ أَخِى الْحَارِثِ الأَعْوَرِ عَنِ الْحَارِثِ قَالَ مَرَرْتُ فِى الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ يَخُوضُونَ فِى الأَحَادِيثِ فَدَخَلْتُ عَلَى عَلِىٍّ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَلاَ تَرَى أَنَّ النَّاسَ قَدْ خَاضُوا فِى الأَحَادِيثِ. قَالَ وَقَدْ فَعَلُوهَا قُلْتُ نَعَمْ. قَالَ أَمَا إِنِّى قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « أَلاَ إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ ».فَقُلْتُ مَا الْمَخْرَجُ مِنْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ « كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ نَبَأُ مَا كَانَ قَبْلَكُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ وَحُكْمُ مَا بَيْنَكُمْ هُوَ الْفَصْلُ لَيْسَ بِالْهَزْلِ مَنْ تَرَكَهُ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَهُ اللَّهُ وَمَنِ ابْتَغَى الْهُدَى فِى غَيْرِهِ أَضَلَّهُ اللَّهُ وَهُوَ حَبْلُ اللَّهِ الْمَتِينُ وَهُوَ الذِّكْرُ الْحَكِيمُ وَهُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ هُوَ الَّذِى لاَ تَزِيغُ بِهِ الأَهْوَاءُ وَلاَ تَلْتَبِسُ بِهِ الأَلْسِنَةُ وَلاَ يَشْبَعُ مِنْهُ الْعُلَمَاءُ وَلاَ يَخْلَقُ عَلَى كَثْرَةِ الرَّدِّ وَلاَ تَنْقَضِى عَجَائِبُهُ هُوَ الَّذِى لَمْ تَنْتَهِ الْجِنُّ إِذْ سَمِعَتْهُ حَتَّى قَالُوا (إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَهْدِى إِلَى الرُّشْدِ) مَنْ قَالَ بِهِ صَدَقَ وَمَنْ عَمِلَ بِهِ أُجِرَ وَمَنْ حَكَمَ بِهِ عَدَلَ وَمَنْ دَعَا إِلَيْهِ هُدِىَ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ».

ترجمہ: حضرت حارث اعور کہتے ہیں کہ میں مسجد میں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ گپ شپ اور قصہ کہانیوں میں مشغول ہیں، میں حضرت مولی ٰعلی رضی الله عنہ کے پاس پہنچا۔ میں نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ لوگ لایعنی باتوں میں پڑے ہوئے ہیں؟۔ انہوں نے کہا: کیا واقعی وہ ایسا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: سنو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:عنقریب فتنہ برپا ہو گا، میں نے کہا: ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس فتنہ سے بچنے کی کیا صورت ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کتاب اللہ، اس میں تم سے پہلے کے لوگوں اور قوموں کی خبریں ہیں اور بعد کے لوگوں کی بھی خبریں ہیں، اور تمہارے درمیان کے امور و معاملات کا حکم و فیصلہ بھی اس میں موجود ہے، اور وہ دو ٹوک فیصلہ کرنے والا ہے، ہنسی مذاق کی چیز نہیں ہے۔ جس نے اسے سرکشی سے چھوڑ دیا اللہ اسے توڑ دے گا اور جو اسے چھوڑ کر کہیں اور ہدایت تلاش کرے گا اللہ اسے گمراہ کر دے گا۔ وہ[قرآن] اللہ کی مضبوط رسی ہے یہ وہ حکمت بھرا ذکر ہے، وہ سیدھا راستہ ہے، وہ ہے جس کی وجہ سے خواہشیں ادھر ادھر نہیں بھٹک پاتی ہیں، جس کی وجہ سے زبانیں نہیں لڑکھڑاتیں، اور علماء کو[خواہ کتنا ہی اسے پڑھیں] آسودگی نہیں ہوتی، اس کے باربار پڑھنے اور تکرار سے بھی وہ پرانا [اور بے مزہ] نہیں ہوتا۔ اور اس کی انوکھی[و قیمتی] باتیں ختم نہیں ہوتیں، اور وہ قرآن وہ ہے جسے سن کر جِن خاموش نہ رہ سکے بلکہ پکار اٹھے: ہم نے ایک عجیب [انوکھا] قرآن سنا ہے جو بھلائی کا راستہ دکھاتا ہے، تو ہم اس پر ایمان لے آئے، جو اس کے مطابق بولے گا اس کے مطابق عمل کرے گا اسے اجر و ثواب دیا جائے گا۔ اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے انصاف کیا اور جس نے اس کی طرف بلایا اس نے اس نے سیدھے راستے کی ہدایت دی۔ اعور! ان اچھی باتوں کا خیال رکھو۔[ترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ماجاء فی فضل القرآن،حدیث:۳۱۵۳]

حدیث: عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " أَلَيْسَ تَشْهَدُونَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ ؟ " قُلْنَا: نَعَمْ - أَوْ بَلَى - قَالَ: " فَإِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ سَبَبٌ طَرَفُهُ بَيْدِ اللهِ تَعَالَى، وَطَرَفُهُ بِأَيْدِيكُمْ فَتَمَسَّكُوا بِهِ، فَإِنَّكُمْ لَنْ تَضِلُّوا وَلَنْ تَهْلِكُوا بَعْدَهُ أَبَدًا.

ترجمہ: حضرت ابو شریح خزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم لوگ گواہی نہیں دیتے ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور بے شک میں اللہ کا رسول ہوں۔ہم لوگوں نے کہا: ہاں[ہم لوگ گواہی دیتے ہیں] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک یہ قرآن ایک رسی ّ ہے جس کا ایک کنارہ اللہ کے دست قدرت میں ہے اور دوسرا کنارہ تمہارے ہاتھوں میں تو تم لوگ اِسے مظبوطی سے تھامے رہو تو تم لوگ ہرگز گمراہ نہیں ہوگے اور ایسا کرنے کے بعد ہر گز ہلاک نہیں ہوگے۔ [ٍصحیح ابن حبان،کتاب العلم،باب ذکر نفی الضلال عن الاخذ بالقرآن،حدیث:۱۲۲]

حدیث: عَنْ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ أَبِي الطُّفَيْلِ ، أَنَّ نَافِعَ بْنَ عَبْدِ الْحَارِثِ ، لَقِيَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بِعُسْفَانَ ، وَكَانَ عُمَرُ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى مَكَّةَ ، فَقَالَ عُمَرُ : مَنِ اسْتَخْلَفْتَ عَلَى أَهْلِ الْوَادِي ؟ قَالَ : اسْتَخْلَفْتُ عَلَيْهِمُ ابْنَ أَبْزَى ، قَالَ : وَمَنِ ابْنُ أَبْزَى ؟ قَالَ : رَجُلٌ مِنْ مَوَالِينَا ، قَالَ عُمَرُ : فَاسْتَخْلَفْتَ عَلَيْهِمْ مَوْلًى ؟ قَالَ : إِنَّهُ قَارِئٌ لِكِتَابِ اللهِ تَعَالَى ، عَالِمٌ بِالْفَرَائِضِ ، قَاضٍ ، قَالَ عُمَرُ : أَمَا إِنَّ نَبِيَّكُمْ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا ، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ.

ترجمہ: حضرت عامر بن واثلہ ابوالطفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نافع بن عبدالحارث کی ملاقات حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مقام عسفان میں ہوئی،حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ان کو مکہ کا عامل بنا رکھا تھا،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تم کس کو اہل وادی [مکہ] پر اپنا نائب بنا کر آئے ہو؟ نافع نے کہا: میں نے ان پر اپنا نائب ابن ابزیٰ کو مقرر کیا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ابن ابزیٰ کون ہے؟ نافع نے کہا: ہمارے غلاموں میں سے ایک ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے ان پہ ایک غلام کو اپنا نائب مقرر کر دیا؟ نافع نے عرض کیا: ابن ابزیٰ کتاب اللہ [قرآن] کا قاری، مسائل میراث کا عالم اور قاضی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر بات یوں ہے تو تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:اللہ تعالیٰ اس کتاب [قرآن] کے ذریعہ بہت سی قوموں کو سربلند کرتا ہے، اور بہت سی قوموں کو پست کرتا ہے۔[مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ الخ،حدیث:۸۱۷]

حدیث: عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ ، يَقُولُ الصِّيَامُ : رَبِّ إِنِّي مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ : مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَيُشَفَّعَانِ .

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ بےشک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: روزہ اور قرآن بندے کی شفاعت کریں گے۔روزہ کہے گا:ائے میرے رب بے شک میں نے اِسے دن کے وقت میں کھانے اور شہوت سے روکے رکھا تو اس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما۔اور قرآن کہے گا:میں نے اِسے رات کے وقت سونے سے روکے رکھا،تو دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ [المستدرک للحاکم،کتاب فضائل القرآن،باب اخبار فضائل القرآن جملۃ، حدیث : ۲۰۳۶]

حدیث: عَنْ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ مَأْدُبَةُ اللهِ فَاقْبَلُوا مِنْ مَأْدُبَتِهِ مَا اسْتَطَعْتُمْ ، إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ حَبْلُ اللهِ ، وَالنُّورُ الْمُبِينُ ، وَالشِّفَاءُ النَّافِعُ عِصْمَةٌ لِمَنْ تَمَسَّكَ بِهِ ، وَنَجَاةٌ لِمَنْ تَبِعَهُ ، لاَ يَزِيغُ فَيُسْتَعْتَبَ ، وَلاَ يَعْوَجُّ فَيُقَوَّمُ ، وَلاَ تَنْقَضِي عَجَائِبُهُ ، وَلاَ يَخْلَقُ مِنْ كَثْرَةِ الرَّدِّ ، اتْلُوهُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْجُرُكُمْ عَلَى تِلاَوَتِهِ كُلَّ حَرْفٍ عَشْرَ حَسَنَاتٍ ، أَمَا إِنِّي لاَ أَقُولُ الم حَرْفٌ ، وَلَكِنْ أَلِفٌ وَلاَمٌ وَمِيمٌ .

ترجمہ: حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بے شک یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا دسترخوان ہے تو تم جتنا لے سکتے ہو اس کی دسترخوان سے لے لو،بے شک یہ قرآن اللہ کی رسی ،روشن نور اور نفع بخش شفا ہے، حفاظت کرنے والاہے اس کے لئے جو اس کا دامن پکڑے،اور نجات ہے اس کے لئے جو اس کی پیروی کرے،یہ کج روی اختیار نہیں کرتا کہ اسے منانا پڑے،ٹیڑ ھا نہیں ہوتا کہ اسے سیدھا کرنا پڑے،اس کے عجائب ختم نہیں ہوتے اور بار بار پڑھنے سے پُرانا نہیں ہوتا،تم اس کی تلاوت کیا کرو کیونکہ اس کے ہر حرف کی تلاوت پر اللہ تعالیٰ دس نیکی عطا فرماتا ہے،سنو! میں یہ نہیں کہتا کہ "الم" ایک حرف ہے ،بلکہ الف ایک حرف ہے،لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔[المستدرک للحاکم،کتاب فضائل القرآن،باب اخبار فضائل القرآن جملۃ، حدیث:۲۰۴۰]

حدیث: عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ لِلَّهِ أَهْلِينَ مِنَ النَّاسِ قَالُوا : مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ : أَهْلُ الْقُرْآنِ هُمْ أَهْلُ اللهِ وَخَاصَّتُهُ .

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لوگوں میں سے کچھ اللہ والے ہیں، لوگوں نے عرض کیا: ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ قرآن پڑھنے پڑھانے والے ہیں، جو اللہ والے اور اس کے نزدیک خاص لوگ ہیں۔[ابن ماجہ،المقدمہ،باب فی فضل من تعلم القرآن وعلمہ،حدیث:۲۱۵]

حدیث: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِنَّ الَّذِى لَيْسَ فِى جَوْفِهِ شَىْءٌ مِنَ الْقُرْآنِ كَالْبَيْتِ الْخَرِبِ.

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جس کے دل میں قرآن کا کچھ بھی حصہ نہ ہو [یعنی جسے قرآن سے کچھ بھی یاد نہ ہو]وہ ویران گھر کی طرح ہے۔ [ترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ۱۸،حدیث:۳۱۶۱]

حدیث: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ : يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِى الدُّنْيَا فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا.

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [قیامت کے دن] صاحب قرآن سے کہا جائے گا: قرآن پڑھتا جا اور [بلندی کی طرف] چڑھتا جا۔ اور ویسے ہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا۔ پس تیری منزل وہ ہو گی جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہو گی۔ [ترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ۱۸،حدیث:۳۱۶۲]

حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ : يَجِىءُ الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ يَا رَبِّ حَلِّهِ فَيُلْبَسُ تَاجَ الْكَرَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ يَا رَبِّ زِدْهُ فَيُلْبَسُ حُلَّةَ الْكَرَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ يَا رَبِّ ارْضَ عَنْهُ فَيَرْضَى عَنْهُ فَيُقَالُ لَهُ اقْرَأْ وَارْقَ وَتُزَادُ بِكُلِّ آيَةٍ حَسَنَةً.

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن قیامت کے دن پیش ہو گا پس کہے گا: اے میرے رب! اسے [یعنی صاحب قرآن کو] جوڑا پہنا، تو اسے کرامت[عزت و شرافت] کا تاج پہنایا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا: اے میرے رب! اسے اور دے، تو اسے کرامت کا جوڑا پہنایا جائے گا۔ وہ پھر کہے گا: اے میرے رب اس سے راضی و خوش ہو جا، تو وہ اس سے راضی و خوش ہو جائے گا۔ اس سے کہا جائے گا پڑھتا جا اور چڑھتا جا، تیرے لیے ہر آیت کے ساتھ ایک نیکی کا اضافہ کیا جاتا رہے گا۔[ترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ۱۸،حدیث:۳۱۶۴]

تعلیم قرآن کی فضیلت

حدیث: عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ : خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ.

ترجمہ: حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھلائے۔[ترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ماجاء فی تعلیم القرآن،حدیث:۳۱۵۴]

حدیث: عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَحَفِظَهُ ، أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ ، وَشَفَّعَهُ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ ، كُلُّهُمْ قَدِ اسْتوْجَبَ النَّارَ.

ترجمہ: حضرت سیدناعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قرآن پڑھا اور اسے یاد کرلیا، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا، اور اس کے گھر والوں میں سے دس ایسے لوگوں کے سلسلے میں اس کی شفاعت قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی۔[ابن ماجہ،المقدمہ،باب فی فضل من تعلم القرآن وعلمہ،حدیث:۲۱۶]

حدیث: عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : يَا أَبَا ذَرٍّ ، لأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ آيَةً مِنْ كِتَابِ اللهِ ، خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ مِئَةَ رَكْعَةٍ ، وَلأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ ، عُمِلَ بِهِ أَوْ لَمْ يُعْمَلْ ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ أَلْفَ رَكْعَةٍ.

ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابوذر! اگر تم صبح کو قرآن کی ایک آیت بھی سیکھ لو تو تمہارے لیے سو رکعت پڑھنے سے بہتر ہے، اور اگر تم صبح علم کا ایک باب سیکھو خواہ اس پر عمل کیا جائے یا نہ کیا جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ایک ہزار رکعت پڑھو۔[ابن ماجہ،المقدمہ،باب فی فضل من تعلم القرآن وعلمہ،حدیث:۲۱۹]

حدیث: عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَنَحْنُ فِى الصُّفَّةِ فَقَالَ : أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يَغْدُوَ كُلَّ يَوْمٍ إِلَى بُطْحَانَ أَوْ إِلَى الْعَقِيقِ فَيَأْتِىَ مِنْهُ بِنَاقَتَيْنِ كَوْمَاوَيْنِ فِى غَيْرِ إِثْمٍ وَلاَ قَطْعِ رَحِمٍ ».فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ نُحِبُّ ذَلِكَ. قَالَ « أَفَلاَ يَغْدُو أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَيَعْلَمَ أَوْ يَقْرَأَ آيَتَيْنِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرٌ لَهُ مِنْ نَاقَتَيْنِ وَثَلاَثٌ خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلاَثٍ وَأَرْبَعٌ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَرْبَعٍ وَمِنْ أَعْدَادِهِنَّ مِنَ الإِبِلِ.

ترجمہ: سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور ہم لوگ اصحاب صُفّہ میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کون چاہتا ہے کہ روز صبح کو بطحان یا عقیق کو جائے؟[یہ دونوں بازار تھے مدینہ میں] اور وہاں سے دو اوٹنیاں بڑے بڑے کوہان کی لائے بغیر کسی گناہ کے اور بغیر اس کے کہ کسی رشتہ دار کی حق تلفی کرے۔ تو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم سب اس کو چاہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر کیوں نہیں جاتا تم میں سے ہر ایک شخص مسجد کو اور کیوں نہیں سکھاتا یا نہیں پڑھتا دو آیتیں اللہ کی کتاب کی جو بہتر ہوں اس کے لئے دو اونٹنیوں سے اور تین بہتر ہیں تین اونٹنیوں سے اور چار بہتر ہیں چار اونٹنیوں سے اور اسی طرح جتنی آیتیں ہوں اتنی اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔[مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب فضل قرأۃ القرآن فی الصلاۃ وتعلمہ ،حدیث:۱۹۰۹]

حدیث: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللهِ ، يَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ ، فَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ ، إِلاَّ حَفَّتْهُمُ الْمَلاَئِكَةُ ، وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ ، وَ ذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ ، وَمَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ , لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ.

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب بھی اللہ تعالیٰ کے کسی گھر میں کچھ لوگ اکٹھا ہو کر قرآن کریم پڑھتے ہیں یا ایک دوسرے کو پڑھاتے ہیں، تو فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں، اور ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے مقرب فرشتوں میں کرتا ہے، اور جس کے عمل نے اسے پیچھے کر دیا، تو آخرت میں اس کا نسب اسے آگے نہیں کر سکتا۔[ابن ماجہ،المقدمہ،باب فی فضل العلماء والحث علی طلب العلم،حدیث:۲۲۵]

حدیث: عَنْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَعَمِلَ بِمَا فِيهِ أُلْبِسَ وَالِدَاهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَاجًا، ضَوْءُهُ أَحْسَنُ مِنْ ضَوْءِ الشَّمْسِ فِي بُيُوتِ الدُّنْيَا لَوْ كَانَتْ فِيهِ، فَمَا ظَنُّكُمْ بِالَّذِي عَمِلَ بِهِ ؟ "

ترجمہ: حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے قرآن پڑھا اور جو کچھ اُس میں ہے اس کے مطابق عمل کیا تو قیامت کے دن اس کے والد کو ایسا نورانی تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ بہتر ہوگی،تو تمہارا اس کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے اس کے مطابق عمل کیا۔[یعنی اس کا مقام کتنا بلند ہوگا] [شعب الایمان،تعظیم القرآن،فصل فی تعلیم القرآن،حدیث:۱۷۹۷]

حدیث: عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ وَالَّذِى يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ لَهُ أَجْرَانِ.

ترجمہ: ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن کا ماہر معزز اور برگذیدہ فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو قرآن پڑھتا ہے اور اس میں اٹکتا ہے اور اس کو مشقت ہوتی ہے اس کو دوگنا ثواب ہے۔[مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب فضل الماہر بالقرآن الخ۔۔ ،حدیث:۱۸۹۸]

حدیث: عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: " تَعَلَّمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ الْبَقَرَةَ فِي اثْنَتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً، فَلَمَّا خَتَمَهَا نَحَرَ جَزُورًا "

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ:حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سورہ بقرہ بارہ سال تک سیکھا پھر جب اُسے مکمل کیا تو اونٹ قربان کیا۔[شعب الایمان،تعظیم القرآن،فصل فی تعلیم القرآن،حدیث:۱۸۰۵]

علمِ غیب مصطفی ﷺ

عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَامَ فِينَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَامًا فَأَخْبَرَنَا عَنْ بَدْءِ الْخَلْقِ حَتَّى دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنَازِلَهُمْ وَأَهْلُ النَّارِ مَنَازِلَهُمْ حَفِظَ ذَلِكَ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ

ترجمہ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺہمارے درمیان ایک مقام پر کھڑے ہوئے اور آپ ﷺنے مخلوقات کی ابتدا سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہونے اور جہنمیوں کے جہنم میں داخل ہونے تک کی خبر دی۔اب جو اسے یاد رکھا ، یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا۔ [بخاری ،کتاب بد ء الخلق، باب ماجاء فی قول اللہ تعالی:ھوالذی یبدؤاالخلق ثم یعید و ھو اھون علیہ،حدیث: ۳۱۹۲]

عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مَقَامًا مَا تَرَكَ شَيْئًا يَكُونُ فِى مَقَامِهِ ذَلِكَ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ إِلاَّ حَدَّثَ بِهِ حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ قَدْ عَلِمَهُ أَصْحَابِى هَؤُلاَءِ وَإِنَّهُ لَيَكُونُ مِنْهُ الشَّىْءُ قَدْ نَسِيتُهُ فَأَرَاهُ فَأَذْكُرُهُ كَمَا يَذْكُرُ الرَّجُلُ وَجْهَ الرَّجُلِ إِذَا غَابَ عَنْهُ ثُمَّ إِذَا رَآهُ عَرَفَهُ.

ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ ہمارے در میان ایک مقام پر کھڑ ے ہوئے ۔آپ ﷺ نے اپنے اس دن کھڑے ہونے سے لے کر قیامت تک کی کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی،جس کو آپ نے بیان نہ فر مایا ہو۔جس نے اسے یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا سو بھول گیا۔ [مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب اخبار النبی ﷺفیما یکون الی قیام الساعۃ،حدیث:۲۸۹۱]

حَدَّثَنِى أَبُو زَيْدٍ - يَعْنِى عَمْرَو بْنَ أَخْطَبَ - قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- الْفَجْرَ وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتِ الظُّهْرُ فَنَزَلَ فَصَلَّى ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتِ الْعَصْرُ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّى ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَأَخْبَرَنَا بِمَا كَانَ وَبِمَا هُوَ كَائِنٌ فَأَعْلَمُنَا أَحْفَظُنَا.

تر جمہ:حضرت عمرو بن اخطب رضی اللہ عنہ بیان فر ماتے ہیں کہ:حضور نبی اکرم ﷺنے ہم لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ہمیں خطاب فر مایا یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا ،پھر آپ ﷺنیچے تشریف لائے ،نماز پڑھائی،اس کے بعد پھر منبر پر تشریف لے گئے اور ہمیں خطاب فر مایا ،یہاں تک کہ عصر کا وقت ہوگیا،پھر منبر سے نیچے تشریف لائے اور نماز پڑھائی ،پھر منبر پر تشریف لے گئے اور ہمیں خطاب فر مایا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔تو آپ ﷺ نے ہم لوگوں کو ان تمام باتوں کی خبر دی جو ہو چکا تھا اور جو کچھ ہونے والا تھا ۔ [مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب اخبار النبی ﷺفیما یکون الی قیام الساعۃ،حدیث:۲۸۹۲]

عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّهُ قَالَ أَخْبَرَنِى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ فَمَا مِنْهُ شَىْءٌ إِلاَّ قَدْ سَأَلْتُهُ إِلاَّ أَنِّى لَمْ أَسْأَلْهُ مَا يُخْرِجُ أَهْلَ الْمَدِينَةِ مِنَ الْمَدِينَةِ

ترجمہ:حضرت حذیفہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ:حضور ﷺنے مجھے قیامت تک ہونے والی ہر ایک بات بتادی ،اور کوئی ایسی بات نہ رہی جسے میں نے آپ ﷺسے پوچھا نہ ہو، البتہ میں نے یہ نہ پوچھا کہ اہل مدینہ کو کون سی چیز مدینہ سے نکالے گی۔ (مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب اخبار النبی ﷺفیما یکون الی قیام الساعۃ،حدیث:۲۸۹۱)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجِيءُ الدَّجَّالُ حَتَّى يَنْزِلَ فِي نَاحِيَةِ الْمَدِينَةِ ثُمَّ تَرْجُفُ الْمَدِينَةُ ثَلَاثَ رَجَفَاتٍ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ كُلُّ كَافِرٍ وَمُنَافِقٍ

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا :دجال آئے گا اور مدینہ کے ایک کنارے قیام کرے گا ،پھر مدینہ طیبہ کی زمین تین مرتبہ کانپے گی تو ہر کافر اور منافق نکل کر اس کی طرف چلا جائے گا۔ (بخاری،کتاب الفتن ،باب ذکر الدجال،حدیث:۷۱۲۴)

عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- شَاوَرَ حِينَ بَلَغَهُ إِقْبَالُ أَبِى سُفْيَانَ قَالَ فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ تَكَلَّمَ عُمَرُ فَأَعْرَضَ عَنْهُ فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ فَقَالَ إِيَّانَا تُرِيدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيضَهَا الْبَحْرَ لأَخَضْنَاهَا وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَكْبَادَهَا إِلَى بَرْكِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا - قَالَ - فَنَدَبَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- النَّاسَ فَانْطَلَقُوا حَتَّى نَزَلُوا بَدْرًا وَوَرَدَتْ عَلَيْهِمْ رَوَايَا قُرَيْشٍ وَفِيهِمْ غُلاَمٌ أَسْوَدُ لِبَنِى الْحَجَّاجِ فَأَخَذُوهُ فَكَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَسْأَلُونَهُ عَنْ أَبِى سُفْيَانَ وَأَصْحَابِهِ. فَيَقُولُ مَا لِى عِلْمٌ بِأَبِى سُفْيَانَ وَلَكِنْ هَذَا أَبُو جَهْلٍ وَعُتْبَةُ وَشَيْبَةُ وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ. فَإِذَا قَالَ ذَلِكَ ضَرَبُوهُ فَقَالَ نَعَمْ أَنَا أُخْبِرُكُمْ هَذَا أَبُو سُفْيَانَ. فَإِذَا تَرَكُوهُ فَسَأَلُوهُ فَقَالَ مَا لِى بِأَبِى سُفْيَانَ عِلْمٌ وَلَكِنْ هَذَا أَبُو جَهْلٍ وَعُتْبَةُ وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ فِى النَّاسِ. فَإِذَا قَالَ هَذَا أَيْضًا ضَرَبُوهُ وَرَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَائِمٌ يُصَلِّى فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ انْصَرَفَ قَالَ « وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ لَتَضْرِبُوهُ إِذَا صَدَقَكُمْ وَتَتْرُكُوهُ إِذَا كَذَبَكُمْ ». قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « هَذَا مَصْرَعُ فُلاَنٍ ». قَالَ وَيَضَعُ يَدَهُ عَلَى الأَرْضِ هَا هُنَا وَهَا هُنَا قَالَ فَمَا مَاطَ أَحَدُهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم۔

ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہمیں ابو سفیان کے (قافلہ کی شام سے )آنے کی خبر پہونچی تو حضور نبی اکرم ﷺنے صحابہ کرام سے مشورہ فر مایا ۔حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا :(یا رسول اللہ!)اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے،اگر آپ ہمیں برک الغماد پہاڑ سے گھوڑوں کے سینے کو ٹکرانے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے ۔تب حضور نبی اکرم ﷺنے لوگوں کو بلایا اور چلے یہاں تک کہ بدر کی وادی میں اُترے۔تو حضور نبی اکرم ﷺنے فر مایا:یہ فلاں شخص کے مر نے کی جگہ ہے(یہ کہتے جاتے تھے)اور اپنے ہاتھ کو زمین پر اِدھر اُدھر رکھتے جاتے تھے۔راوی کہتے ہیں :کوئی کافر حضور ﷺکی بتائی ہوئی جگہ سے ذرّابرابر بھی ادھر اُدھر نہیں مرا۔ [مسلم ،کتاب الجھاد والسیر،باب غزوۃ بدر،حدیث:۱۷۷۹]

عَنْ أَبِي حَازِمٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ قَالَ فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوكُونَ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَاهَا فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّهُمْ يَرْجُو أَنْ يُعْطَاهَا فَقَالَ أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقِيلَ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ قَالَ فَأَرْسَلُوا إِلَيْهِ فَأُتِيَ بِهِ فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَيْنَيْهِ وَدَعَا لَهُ فَبَرَأَ حَتَّى كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ فَقَالَ عَلِيٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا فَقَالَ انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اللَّهِ فِيهِ فَوَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ

ترجمہ:حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :حضور ﷺنے خیبر کے دن ارشاد فر مایا:کل میں یہ جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالی فتح عطا فر مائے گا،وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔راوی بیان کرتے ہیں کہ :وہ رات سارے لوگوں کی اس فکر میں گزری کہ دیکھیں حضور ﷺ جھنڈا کسے عطا فر ماتے ہیں؟ جب صبح ہوئی تو سارے لوگ حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اس امید کے ساتھ کہ جھنڈا انہیں کو ملے۔مگر حضور ﷺ نے فر مای:علی بن ابو طالب کہاں ہیں؟عرض کیا گیا ،یارسول اللہ ﷺ! وہ تو آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔فر مایا،انہیں بلا لاؤ،توجب وہ لائے گئے تو رسول اللہ ﷺنے لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگا دیا اور ان کے لئے دعا فر مائی۔تو وہ ایسے ٹھیک ہوگئے جیسے انہیں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں جھنڈا عطا فر مایا۔تو حضرت علی نے کہا:یارسول اللہ! میں ان لوگوں سے لڑو یہاں تک وہ لوگ ہماری ہی طرح ہوجائے؟حضور ﷺ نے فر مایا :چلتے رہو۔یہاں تک ان کے میدان میں اُترو ،پھر انہیں اسلام کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ ان پر اللہ کا کیا حق ہے۔قسم بخدا ،اگرتمہارے ذریعے ایک شخص بھی ہدایت پا گیا تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہوگا۔[بخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ خیبر،حدیث:۴۲۱۰]

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى زَيْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَةَ لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَهُمْ خَبَرُهُمْ فَقَالَ أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيبَ ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيبَ ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيبَ وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ حَتَّى أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ:حضور ﷺ نے حضرت زید،حضرت جعفر،حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنھم کے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی ان کے شہید ہوجانے کے متعلق لوگوں کو بتادیاتھا۔چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا:اب جھنڈا زید نے سنبھا لا ہے لیکن وہ شہید ہوگئے ۔اب جعفر نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔اب ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جام شہادت نوش کر گئے۔یہ فرماتے ہوئے آپ ﷺکی چشمان مبارک سے آنسو ٹپک رہے تھے۔یہاں تک اب اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار(خالد بن ولید)نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اس کے ہاتھوں پر اللہ تعالی نے کافروں پر فتح عطا فر مائی ہے۔[بخاری،کتاب المغازی، باب غزوۃ موتہ من ارض الشام،حدیث:۴۲۶۲]

عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ حِينَ زَاغَتْ الشَّمْسُ فَصَلَّى الظُّهْرَ فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ السَّاعَةَ وَذَكَرَ أَنَّ بَيْنَ يَدَيْهَا أُمُورًا عِظَامًا ثُمَّ قَالَ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ فَلْيَسْأَلْ عَنْهُ فَوَاللَّهِ لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ بِهِ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا قَالَ أَنَسٌ فَأَكْثَرَ النَّاسُ الْبُكَاءَ وَأَكْثَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي فَقَالَ أَنَسٌ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ أَيْنَ مَدْخَلِي يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ النَّارُ فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ فَقَالَ مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَبُوكَ حُذَافَةُ قَالَ ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي سَلُونِي فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ فَقَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا قَالَ فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ عُمَرُ ذَلِكَ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ وَأَنَا أُصَلِّي فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ

ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:نبی کریم ﷺسورج ڈھلنے کے بعد باہر تشریف لائے اور ظہر کی نمازپڑھائی، پھر سلام پھیرنے کے بعد منبر پر کھڑے ہوئے،تو قیامت کا ذکر فرمایااور یہ کہ اس سے پہلے بڑے بڑے معاملات ہوں گے۔پھر آپ ﷺنے کہا:جسے کسی چیز کے بارے میں پوچھنا ہو تو وہ پوچھ لے ،قسم بخدا،تم مجھ سے کسی چیز کے بارے میں نہ پوچھوگے مگر میں اس کے بارے میں بتادوںگا اسی جگہ میں جب تک میں ہوں۔ تو لوگ رونے لگے اور حضور نبی کریم ﷺبار بار فر ماتے رہے :مجھ سے پوچھو، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا:تو ایک شخص کھڑا ہوا اور پوچھا کہ:یارسول اللہ!میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ حضور ﷺنے فر مایا:جہنم۔ پھر عبد اللہ بن حذافہ کھڑے ہوئے اور پوچھا کہ:یارسول اللہ !میرے باپ کون ہیں؟ فرمایا:تمہارے باپ حذافہ ہیں۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایاکہ:پھر حضور ﷺباربار فرمانے لگے :مجھ سے پوچھو،مجھ سے پوچھو۔تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوئے اور عرض کیا:یارسول اللہ ﷺ!ہم اللہ کے رب،اور اسلام کے دین ،اور محمد ﷺکے رسول ہونے سے راضی اور خوش ہیں۔حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :تب حضور ﷺخاموش ہوئے۔پھرآپ ﷺنے ارشاد فر مایا:قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ابھی اس دیوار کی چوڑائی میں مجھ پر جنت وجہنم پیش کیا گیا تو میں نے آج کی طرح خیر وشر کبھی نہیں دیکھا۔ [بخاری،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،باب مایکرہ من کثرۃ السوال، حدیث:۷۲۹۴ ، مسلم،حدیث:۲۳۵۹]

عَنْ الْحَسَنِ سَمِعَ أَبَا بَكْرَةَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَالْحَسَنُ إِلَى جَنْبِهِ يَنْظُرُ إِلَى النَّاسِ مَرَّةً وَإِلَيْهِ مَرَّةً وَيَقُولُ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ

ترجمہ: حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :حضور نبی کریم ﷺ منبر پر تشریف فرماتھے اور آپ ﷺ کے پہلو میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ تھے ۔آپ ﷺ ایک مرتبہ لوگوں کی طرف دیکھتے اور ایک مرتبہ ان کی طرف اور فرماتے:یہ میرا بیٹا سردار ہے۔اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہ میں صلح فرمائے گا۔ (بخاری،کتاب فضائل الصحابہ،باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ،حدیث:۳۷۴۶)

عَنْ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- دَعَا فَاطِمَةَ ابْنَتَهُ فَسَارَّهَا فَبَكَتْ ثُمَّ سَارَّهَا فَضَحِكَتْ فَقَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ لِفَاطِمَةَ مَا هَذَا الَّذِى سَارَّكِ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَبَكَيْتِ ثُمَّ سَارَّكِ فَضَحِكْتِ قَالَتْ سَارَّنِى فَأَخْبَرَنِى بِمَوْتِهِ فَبَكَيْتُ ثُمَّ سَارَّنِى فَأَخْبَرَنِى أَنِّى أَوَّلُ مَنْ يَتْبَعُهُ مِنْ أَهْلِهِ فَضَحِكْتُ.

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا،اور ان کو سر گوشی میں کوئی بات کہی ،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رونے لگیں،آپ ﷺ نے پھر سر گوشی میں کوئی بات کہی تو ہنسنے لگیں،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا :رسول اللہ ﷺ نے آپ سے سر گوشی میں کیا کہا تھا جو آپ رونے لگیں، اور دوبارہ سرگوشی میں کیا کہا جو آپ ہنسنے لگیں؟حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا:رسول اللہ ﷺ پہلی بار سرگوشی میں اپنی وفات کی خبر دی تو میں رونے لگی،اور دوسری بار سر گوشی میں یہ خبر دی کہ آپ ﷺ کے گھر والوں میں سے سب سے پہلے میں آپ ﷺ کے ساتھ لاحق ہوں گی،یعنی انتقال کروں گی ،تو میں ہنسنے لگی۔ [مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ عنھم،باب فضائل فاطمۃ بنت النبی علیھا الصلاۃ والسلام،حدیث:۲۴۵۰]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِي هَا هُنَا وَاللَّهِ مَا يَخْفَى عَلَيَّ رُكُوعُكُمْ وَلَا خُشُوعُكُمْ وَإِنِّي لأَرَاكُمْ وَرَاءَ ظَهْرِي

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں صرف سامنے دیکھتا ہوں،قسم بخدا !مجھ پر تمہارے نماز کی ظاہری حالت پوشیدہ ہوتی ہے نہ ہی باطنی خشوع وخضوع ۔بے شک میں تمہیں اپنے پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔[بخاری ،کتاب الاذان،باب الخشوع فی الصلاۃ،حدیث: ۷۴۱]

عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا وَفِي يَمَنِنَا قَالَ قَالُوا وَفِي نَجْدِنَا قَالَ قَالَ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا وَفِي يَمَنِنَا قَالَ قَالُوا وَفِي نَجْدِنَا قَالَ قَالَ هُنَاكَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ وَبِهَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ:حضور نبی کریم ﷺ نے فر مایا:ائے اللہ!ہمارے لئے برکت دے ہمارے شام میں ،ائے اللہ!ہمارے لئے برکت دے ہمارے یمن میں،راوی نے کہا:صحابہ کرام نے عرض کیا:اور ہمارے نجد میں ،حضور ﷺ نے فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کی سینگ ظاہر ہوگی۔ [بخاری،کتاب الاستسقاء،باب ما قیل فی الزلازل والایات،حدیث:۱۰۳۷،ترمذی،حدیث: ۳۹۵۳]

عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ قَالَ أَخْبَرَنِى مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ لِعَمَّارٍ حِينَ جَعَلَ يَحْفِرُ الْخَنْدَقَ وَجَعَلَ يَمْسَحُ رَأْسَهُ وَيَقُولُ : بُؤْسَ ابْنِ سُمَيَّةَ تَقْتُلُكَ فِئَةٌ بَاغِية

ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :جب حضرت عمار خندق کھود رہے تھے تورسول اللہ ﷺ ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر فر مارہے تھے :ائے ابن سمیّہ !تم پر کیسی مصبیت پڑے گی جب تم کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ [مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی ان یکون مکان ا لمیت من البلاء،حدیث: ۲۹۱۵]

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَدْ مَاتَ كِسْرَى فَلاَ كِسْرَى بَعْدَهُ وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلاَ قَيْصَرَ بَعْدَهُ وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ لَتُنْفَقَنَّ كُنُوزُهُمَا فِى سَبِيلِ اللَّهِ

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کسِریٰ مر گیا اس کے بعد کوئی کسِریٰ نہیں ہوگا اور جب قیصر مر جائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہوگا ،اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے تم ان کے خزانوں کو اللہ کے راہ میں خرچ کروگے۔ [مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی ان یکون مکان ا لمیت من البلاء،حدیث: ۲۹۱۸]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ : لَتُقَاتِلُنَّ الْيَهُودَ فَلَتَقْتُلُنَّهُمْ حَتَّى يَقُولَ الْحَجَرُ يَا مُسْلِمُ هَذَا يَهُودِىٌّ فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے فر مایا :تم اور یہود آپس میں لڑتے رہوگے یہاں تک کہ پتھر یہ کہے گا کہ: ائے مسلمان!یہ یہودی میرے پیچھے ہے۔آ ،اور اس کو قتل کردے۔ [مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی ان یکون مکان ا لمیت من البلاء،حدیث: ۲۹۲۱]

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يُخَرِّبُ الْكَعْبَةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنَ الْحَبَشَةِ ۔

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایادو چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا حبشی کعبہ کو گرا دے گا۔ [مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی ان یکون مکان ا لمیت من البلاء،حدیث: ۲۹۰۹]

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لاَ يَدْرِى الْقَاتِلُ فِى أَىِّ شَىْءٍ قَتَلَ وَلاَ يَدْرِى الْمَقْتُولُ عَلَى أَىِّ شَىْءٍ قُتِلَ

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا:قسم ہے اس ذات جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے۔لوگوں پر ضرور ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ قتل کرنے والے کو یہ معلوم نہ ہوگا کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے ؟اور نہ قتل کئے جانے والے کو یہ معلوم ہوگا کہ وہ کیوں قتل کیا گیا؟۔ [مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی ان یکون مکان ا لمیت من البلاء،حدیث: ۲۹۰۸]

عَنْ يُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ قَالَ [روایۃ طویلۃ ومنھا] فَجَاءَهُمُ الصَّرِيخُ إِنَّ الدَّجَّالَ قَدْ خَلَفَهُمْ فِى ذَرَارِيِّهِمْ فَيَرْفُضُونَ مَا فِى أَيْدِيهِمْ وَيُقْبِلُونَ فَيَبْعَثُونَ عَشَرَةَ فَوَارِسَ طَلِيعَةً. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِنِّى لأَعْرِفُ أَسْمَاءَهُمْ وَأَسْمَاءَ آبَائِهِمْ وَأَلْوَانَ خُيُولِهِمْ هُمْ خَيْرُ فَوَارِسَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ يَوْمَئِذٍ أَوْ مِنْ خَيْرِ فَوَارِسَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ يَوْمَئِذٍ

تر جمہ: حضرت یسیر بن جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :ملک شام میں جنگ ہوگی اور مسلمانوں کو فتح ہوگی پھر اچانک ایک چیخ سنائی دے گی کہ مسلمانوں کی اولاد میں دجّال آچکا ہے۔تو ان کے ہا تھوں میں جو کچھ ہوگا ان کو چھوڑ دیں گے اور دس گھوڑ سواروں کا ہراول دستہ بھیجیں گے ،رسول اللہ ﷺ نے فر مایا :بے شک میں ان سواروں کے نام ،ان کے باپ دادا کے نام اور ان کے گھوڑے کا رنگ جانتاہوں وہ روئے زمین کے بہترین گھوڑے سواروں میں سے ہوں گے۔[مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب اقبال الروم فی کثرۃ القتل عند خروج الدجال، حدیث:۲۸۹۹]

عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : افْتَرَقَتِ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ، فَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ ، وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ ، وَافْتَرَقَتِ النَّصَارَى عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ، فَإِحْدَى وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ ، وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَتَفْتَرِقَنَّ أُمَّتِي عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ، وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ ، وَثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ ، قِيلَ : يَا رَسُولَ اللهِ ، مَنْ هُمْ ؟ قَالَ : الْجَمَاعَةُ.

ترجمہ: حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ نے فر مایا :ضرور میری امت تہتر فر قوں میں بٹ جائے گی ، تو ایک جنت میں ہوگی اور بہتّر جہنم میں ،پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! وہ کون ہیں ؟ فر مایا:جماعت۔ [ابن ماجہ،کتاب الفتن ،باب افتراق الامم ،حدیث:۳۹۹۲]

عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ سَالِمٌ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ قَالَ صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً صَلَاةَ الْعِشَاءِ وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ الْعَتَمَةَ ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا فَقَالَ أَرَأَيْتُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ نے ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی (وہی نماز جسے لوگ عتمہ بھی کہتے ہیں )پھر نماز سے فارغ ہوکر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فر مایا:تم لوگ اس رات کو یاد رکھنا۔کیو نکہ آج جو لوگ بھی زندہ ہیں ایک سو سال کے گزرنے تک ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہے گا۔[بخاری،کتاب مواقیت الصلوۃ،باب ذکر العشاء والعتمۃ ومن راہ واسعا، حدیث:۵۶۴]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُحُدٍ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ قَالَ اثْبُتْ أُحُدُ فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدَانِ

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :حضور نبی کریم ﷺ احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم تھے۔ احد پہاڑ لرزنے لگا،تو آپ ﷺ نے اپنے پائے اقدس سے اُسے ٹھوکر مارا،فر مایا:ٹھہر ۔تجھ پر نہیں ہے مگر ایک نبی ،ایک صدیق اور دوشہید۔ [بخاری،کتاب فضائل الصحابہ،باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ،حدیث:۳۶۸۶]

عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : يَا عُثْمَانُ ، إِنْ وَلاَّكَ اللَّهُ هَذَا الأَمْرَ يَوْمًا ، فَأَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تَخْلَعَ قَمِيصَكَ الَّذِي قَمَّصَكَ اللَّهُ ، فَلاَ تَخْلَعْهُ ، يَقُولُ ذَلِكَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ.

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ :اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فر مایا:ائے عثمان!بے شک اللہ تعالی تمہیں ایک دن خلافت کا جامہ پہنائے گا تو منافقین تم سے اس جامہ کو اُتارناچاہیں گے جو تمہیں اللہ نے پہنا یا ،تو تم نہ اُتارنا۔حضور ﷺ نے یہ تین مرتبہ فرمایا۔[ابن ماجہ ،باب فضل عثمان رضی اللہ عنہ ،حدیث:۱۱۲]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « أَتَانِى رَبِّى فِى أَحْسَنِ صُورَةٍ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ قُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّى وَسَعْدَيْكَ قَالَ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَى قُلْتُ رَبِّى لاَ أَدْرِى فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَىَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَىَّ فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ

تر جمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ :نبی ﷺ نے فر مایا:میں نے(خواب میں)اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا ،میرے رب نے کہا:ائے محمد!میں نے کہا :حاضر ہوں یارب!فر مایا :ملاء اعلی کس چیز میں بحث کر رہے ہیں ؟میں نے کہا :یا رب ! میں نہیں جانتا ہوں ،پھر رب تبارک و تعالی نے اپنا دست قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیا ن رکھاجس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی ،پھر میں جان لیا جو کچھ مشر ق و مغرب میں ہے۔ [ترمذی،کتاب التفسیر ،باب ومن سورۃ ص،حدیث:۳۲۳۴]

عَنْ جَابِرٍأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ فَلَمَّا كَانَ قُرْبَ الْمَدِينَةِ هَاجَتْ رِيحٌ شَدِيدَةٌ تَكَادُ أَنْ تَدْفِنَ الرَّاكِبَ فَزَعَمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بُعِثَتْ هَذِهِ الرِّيحُ لِمَوْتِ مُنَافِقٍ فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَإِذَا مُنَافِقٌ عَظِيمٌ مِنْ الْمُنَافِقِينَ قَدْ مَاتَ

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :رسول اللہ ﷺ ایک سفر سے آرہے تھے جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو بڑے زور سے آندھی چلی کہ سوار زمین میں دھنسنے کے قریب ہوگیا ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :یہ آندھی ایک منافق کی موت کے لئے بھیجی گئی ہے ، جب آپ ﷺ مدینہ شریف پہونچے تو منافقوں میں سے ایک بہت بڑا منافق مر چکا تھا۔[مسلم،کتاب صفات المنافقین ، حدیث:۲۷۸۲]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَأَعْلَمُ آخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنْهَا وَآخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنْ النَّارِ حَبْوًا فَيَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَهُ اذْهَبْ فَادْخُلْ الْجَنَّةَ فَيَأْتِيهَا فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهَا مَلْأَى فَيَرْجِعُ فَيَقُولُ يَا رَبِّ وَجَدْتُهَا مَلْأَى فَيَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَهُ اذْهَبْ فَادْخُلْ الْجَنَّةَ قَالَ فَيَأْتِيهَا فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهَا مَلْأَى فَيَرْجِعُ فَيَقُولُ يَا رَبِّ وَجَدْتُهَا مَلْأَى فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ اذْهَبْ فَادْخُلْ الْجَنَّةَ فَإِنَّ لَكَ مِثْلَ الدُّنْيَا وَعَشَرَةَ أَمْثَالِهَا أَوْ إِنَّ لَكَ عَشَرَةَ أَمْثَالِ الدُّنْيَا قَالَ فَيَقُولُ أَتَسْخَرُ بِي أَوْ أَتَضْحَكُ بِي وَأَنْتَ الْمَلِكُ قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ قَالَ فَكَانَ يُقَالُ ذَاكَ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً

تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ:مجھے یقینا معلوم ہے کہ سب سے آخر میں جہنم میں سے کون نکلے گا اور سب کے بعد جنت میں کون داخل ہوگا ،وہ ایک ایسا شخص ہوگا جو کولھوں کے بل گھسٹتا ہو ا جہنم سے نکلے گا ،اللہ تعالی اس سے فر مائے گا:جا،جنت میں داخل ہوجا،جب وہ جنت میں داخل ہوگا تو وہ یہ سمجھے گا کہ جنت بھر چکی ہے ،وہ واپس لوٹ آئے گا اور اللہ تعالی سے عرض کرے گا :ائے میرے رب! جنت تو بھر چکی ہے،اللہ تعالی اس سے فر مائے گا :جا،جنت میں داخل ہوجا ،پھروہ جنت میں آئے گا تو اس کو خیال ہوگا جنت تو بھر چکی ہے وہ پھر لوٹ آئے گا اور عرض کرے گا :ائے میرے رب!میں نے تو جنت کو بھرا ہوا پایا ہے۔تو اللہ تعالی اس سے فر مائے گا :جا،جنت میں داخل ہو،تجھے جنت میں دنیا اور اس کی دس گنا جگہ مل جائے گی ،وہ شخص عرض کرے گا ائے اللہ !تو مالک ہوکر مجھ سے مذاق کرتا ہے،حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :میں نے اس موقع پر حضور ﷺ کو ہنستے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ آپ کی مبارک داڑہیں ظاہر ہو گئیں،پھر حضور ﷺ نے فرمایا:یہ ایک جنتی کا سب سے کم درجہ ہے۔(مسلم،کتاب الایمان،باب آخر اھل النار خروجا،حدیث:۱۸۶)

حیات انبیاء علیھم السلام

عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ قُبِضَ وَفِيهِ النَّفْخَةُ وَفِيهِ الصَّعْقَةُ فَأَكْثِرُوا عَلَىَّ مِنَ الصَّلاَةِ فِيهِ فَإِنَّ صَلاَتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَىَّ ۔ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلاَتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ يَقُولُونَ بَلِيتَ. فَقَالَ : إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الأَرْضِ أَجْسَادَ الأَنْبِيَاءِ ۔

تر جمہ: حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا :بے شک تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے۔اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے ،اسی دن ان کی روح قبض کی گئی،اسی دن صور پھو نکا جائے گا اور اسی دن سب بے ہوش ہو نگے ۔ پس اس دن کثرت سے مجھ پر درود بھیجا کروکیو نکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جا تا ہے۔صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ !اُس وقت ہمارا درود آ پ پر کس طرح پیش کیا جائے گا جبکہ آپ مٹی ہو چکے ہوں گے؟تو ارشاد فر مایا:بے شک اللہ تعالی نے انبیاء کے جسموں کو زمین پر حرام کر دیا ہے۔[ابوداود، کتاب الصلوٰۃ،باب فضل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ ،حدیث:۱۰۴۷،ابن ماجہ،حدیث:۱۶۳۶]

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : أَكْثِرُوا الصَّلاَةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ؛ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ ، تَشْهَدُهُ الْمَلاَئِكَةُ ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ ، إِلاَّ عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلاَتُهُ ، حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا , قَالَ : قُلْتُ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ ؟ قَالَ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الأَنْبِيَاءِ ، فَنَبِيُّ اللهِ حَيٌّ يُرْزَقُ.

تر جمہ: حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا:جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو،کیونکہ یہ یومِ مشہود ہے،اس دن فر شتے حاضر ہوتے ہیں ،کوئی شخص جب بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس سے فارغ ہوجاتا ہے،حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :میں نے عرض کیا :اور وفات کے بعد ؟آپ ﷺ نے فرمایا:اور وفات کے بعد بھی،آپ ﷺ نے فر مایا:اللہ تعالی نے زمین کے لئے انبیائے کرام کے جسموں کو کھانا حرام کردیا ہے ،تو اللہ کے نبی زندہ ہوتے ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔[ابن ماجہ،کتاب الجنائز ،باب ذکر وفاتہ و دفنہ ﷺ ،حدیث:۱۶۳۷]

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لَقَدْ رَأَيْتُنِى فِى الْحِجْرِ وَقُرَيْشٌ تَسْأَلُنِى عَنْ مَسْرَاىَ فَسَأَلَتْنِى عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْهَا. فَكُرِبْتُ كُرْبَةً مَا كُرِبْتُ مِثْلَهُ قَطُّ قَالَ فَرَفَعَهُ اللَّهُ لِى أَنْظُرُ إِلَيْهِ مَا يَسْأَلُونِى عَنْ شَىْءٍ إِلاَّ أَنْبَأْتُهُمْ بِهِ وَقَدْ رَأَيْتُنِى فِى جَمَاعَةٍ مِنَ الأَنْبِيَاءِ فَإِذَا مُوسَى قَائِمٌ يُصَلِّى فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ وَإِذَا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ - عَلَيْهِ السَّلاَمُ - قَائِمٌ يُصَلِّى أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِىُّ وَإِذَا إِبْرَاهِيمُ - عَلَيْهِ السَّلاَمُ - قَائِمٌ يُصَلِّى أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُكُمْ - يَعْنِى نَفْسَهُ - فَحَانَتِ الصَّلاَةُ فَأَمَمْتُهُمْ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنَ الصَّلاَةِ قَالَ قَائِلٌ يَا مُحَمَّدُ هَذَا مَالِكٌ صَاحِبُ النَّارِ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ. فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَبَدَأَنِى بِالسَّلاَمِ ».

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اکرم ﷺ نے فر مایا:میں حطیم کعبہ میں کھڑا تھا اور قریش مجھ سے میرے سفر معراج کے بارے میں سوالات کر رہے تھے انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزیں پوچھیں جن کو میں نے محفوظ نہیں رکھا تھا جس کی وجہ سے میں اتنا پریشان ہواکہ اس پہلے اتنا کبھی پریشان نہیں ہواتھا ،تب اللہ تعالی نے بیت المقدس کو اٹھا کر میر ے سامنے رکھ دیا ،وہ مجھ سے بیت المقدس کی چیزوں کے بارے میں پوچھتے رہے اور میں دیکھ دیکھ کر بیان کرتا رہا۔اور میں نے اپنے آپ کو انبیائے کرام کی جماعت میں پایا،میں نے دیکھا کہ حضرت موسی علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور وہ قبیلئہ شنوء ہ کے لوگوں کی طرح گھنگھریالے بالوں والے تھے ،اور پھر عیسی ابن مریم علیھما السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور عروہ بن مسعود ثقفی ان سے بہت مشابہ ہیں ،اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور تمہارے پیغمبر ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہیں ۔پھر نماز کا وقت آیا تو میں نے ان سب انبیائے کرام علیھم السلام کی امامت کی ،جب میں نماز سے فارغ ہوا تو مجھے ایک کہنے والے نے کہا:یہ مالک،جہنم کے داروغہ ہیں ،انہیں سلام کیجئے،میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے پہلے مجھے سلام کیا۔[مسلم،کتاب الایمان ،باب ذکرالمسیح ابن مریم والمسیح الدجال،حدیث:۱۷۲]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ : أَتَيْتُ - وَفِى رِوَايَةِ هَدَّابٍ مَرَرْتُ - عَلَى مُوسَى لَيْلَةَ أُسْرِىَ بِى عِنْدَ الْكَثِيبِ الأَحْمَرِ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّى فِى قَبْرِهِ

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :معراج کی رات ،میں کثیب احمر [یہ اس جگہ کانام ہے جہاں پر حضرت موسی علیہ السلام کی قبر مبارک ہے]کے پاس سے گذرا(تو میں نے دیکھا کہ)وہ اپنی قبر میں کھڑے ہو کرنماز پڑھ رہے تھے۔[ مسلم،کتاب الفضائل ،باب من فضائل موسی ٰ علیہ السلام ،حدیث:۲۳۷۵۔سنن نسائی،حدیث:۳۳۱۶]

حَدَّثَتْنِى سَلْمَى قَالَتْ دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ وَهِىَ تَبْكِى فَقُلْتُ مَا يُبْكِيكِ قَالَتْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- - تَعْنِى فِى الْمَنَامِ - وَعَلَى رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ فَقُلْتُ مَا لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ « شَهِدْتُ قَتْلَ الْحُسَيْنِ آنِفًا ».

تر جمہ : حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ میں ام المو منین حضرت ام سلمی رضی اللہ عنھا کے کی خدمت میں حاضر ہوئی ،وہ رو رہی تھیں ۔میں نے پو چھا آپ کیوں رو رہی ہیں ؟انہوں نے فر مایا کہ نبی کر یم ﷺ کو خواب میں دیکھا ۔آپ ﷺ کی داڑھی مبارک اور سر انور گرد آلود تھے،میں نے عر ض کیا :یا رسول اللہ ﷺ کیا بات ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا میں ابھی حسین(رضی اللہ عنہ)کی شہادت گاہ میں حاضر ہوا ۔ [تر مذی ،کتاب المناقب ،باب مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہما،حدیث:۳۷۷۱]

عَنْ أَنَسٍ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ "

تر جمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیائے کرام زندہ ہوتے ہیں اور اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں۔[ حیاۃ الانبیاء للبیھقی،حدیث:۱]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، خَادِمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ أَقْرَبَكُمْ مِنِّي يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي كُلِّ مَوْطِنٍ أَكْثَرُكُمْ عَلَيَّ صَلاةً فِي الدُّنْيَا ، مَنْ صَلَّى عَلَيَّ مِائَةَ مَرَّةٍ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةِ الْجُمُعَةِقَضَى اللَّهُ لَهُ مِائَةَ حَاجَةٍ ، سَبْعِينَ مِنْ حَوَائِجِ الآخِرَةِ وَثَلاثِينَ مِنْ حَوَائِجِ الدُّنْيَا ، ثُمَّ يُوَكِّلُ اللَّهُ بِذَلِكَ مَلَكًا يُدْخِلُهُ فِي قَبْرِي كَمَا يُدْخِلُ عَلَيْكُمُ الْهَدَايَا ، يُخْبِرُنِي مَنْ صَلَّى عَلَيَّ بِاسْمِهِ وَنَسَبِهِ إِلَى عَشِيرَتِهِ ، فَأُثْبِتُهُ عِنْدِي فِي صَحِيفَةٍ بَيْضَاءَ "

تر جمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک قیامت کے دن تم میں سے مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو دنیا میں مجھ پر سب سے زیادہ درود پڑھے گا،جو شخص مجھ پر جمعہ کے دن یا رات میں سو مرتبہ درود پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کی سو حاجتیں پوری فرمائے گا،ستر آخرت کی حاجت اور تیس دنیاوی حاجت،پھر اُس پر اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو مقرر فرمائے گا،وہ فرشتہ اسے لے کر میری قبر میں ایسے ہی داخل ہوگا جیسے کوئی شخص تمہارے پاس تحفے لے کر آتا ہے،وہ مجھے درود پڑھنے والے کا نام اور اس کا نسب وغیرہ بتائے گا،تو اُسے میں اپنے پاس ایک سفید صحیفے میں محفوظ کرلوں گا۔ [ حیاۃ الانبیاء للبیھقی،حدیث:۱۳]

اختیارات مصطفی ﷺ

عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ معْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ قَالَ : يُوشِكُ الرَّجُلُ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ ، يُحَدَّثُ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِي ، فَيَقُولُ : بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ، فَمَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَلاَلٍ اسْتَحْلَلْنَاهُ ، وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَرَامٍ حَرَّمْنَاهُ ، أَلا وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ.

ترجمہ :حضرت مقدام بن معدیکرب کندی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور اس سے میری کوئی حدیث بیان کی جائے تو وہ کہے: ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کافی ہے، ہم اس میں جو چیز حلال پائیں گے اسی کو حلال سمجھیں گے اور جو چیز حرام پائیں گے اسی کو حرام جانیں گے، تو سن لو! بے شک وہ چیزیں جسے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے وہ ویسے ہی حرام ہیں جیسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔[ابن ماجہ،المقدمہ،باب تعظیم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والتغلیظ علی من عارضہ،حدیث:۱۲]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَامَ فَقَالَ « إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى كَتَبَ عَلَيْكُمُ الْحَجَّ ». فَقَالَ الأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيمِىُّ كُلُّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَسَكَتَ فَقَالَ : لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ.

ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھمانے کہاکہ: رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایاکہ :بے شک اللہ تعالی نے تم پر حج فرض کیا ہے۔حضرت اقرع ابن حابس تمیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ !کیا ہر سال حج فرض ہے ؟تو آپ ﷺ خاموش رہے ،پھرفرمایا:اگر میں ہاں کر دیتاتو ہر سال حج فرض ہوجاتا۔(معلوم ہواکہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم احکام شرعیہ پر اختیار کلی رکھتے تھے،اگر چاہتے تو ہر سال حج کرنا فرض فرمادیتے۔) [سنن نسائی،کتاب مناسک الحج،باب وجوب الحج،رقم الحدیث:۲۶۲۰،ابن ماجہ،رقم الحدیث:۲۸۸۴،ترمذی،رقم الحدیث : ۸۱۴،ابوداود،رقم:۱۷۲۱]

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ - وَفِى حَدِيثِ زُهَيْرٍ عَلَى أُمَّتِى - لأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلاَةٍ ».[وفی روایۃ ابی امامۃ] وَلَوْلاَ أَنِّي أَخَافُ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي ، لَفَرَضْتُهُ لَهُمْ .

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:اگرمجھے میری امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔ اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفا ظ ہیں کہ:حضور نبی اکرم ﷺ نے فر مایا:اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اس کو ان کے لئے فر ض قرار دے دیتا۔[الصحیح المسلم،کتاب الطہارۃ،باب السواک رقم الحدیث:۲۵۲،ابن ماجہ،باب السواک،حدیث:۲۸۹]

عَنْ عَلِىٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا وَلَيْسَ فِى تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَىْءٌ فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ الدَّرَاهِمِ ».

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ تو میں نے معاف کردی ،تو روپیوں کی زکوٰۃ ادا کرو،ہر چالیس درھم سے ایک درھم۔[ترمذی،کتاب الزکوۃ عن رسول اللہ ﷺ ،باب ماجاء فی الزکاۃ الذھب والورق، حدیث:۶۲۰]

عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا فَلَا يَذْبَحْ حَتَّى يَنْصَرِفَ فَقَامَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَعَلْتُ فَقَالَ هُوَ شَيْءٌ عَجَّلْتَهُ قَالَ فَإِنَّ عِنْدِي جَذَعَةً هِيَ خَيْرٌ مِنْ مُسِنَّتَيْنِ آذْبَحُهَا قَالَ نَعَمْ ثُمَّ لَا تَجْزِي عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ .

ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ عید الاضحی کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد ارشاد فر مایا:جو ہماری طرح نماز پڑھتا ہے اوہمارے ر قبلے کی طرف رخ کرتا ہے وہ نماز عید سے پہلے قر بانی نہ کرے ،حضرت ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا :یارسول اللہ !میں تو قربانی کر چکا،آپ ﷺ نے فر مایا:تم نے جلد بازی کیا،انہوں نے عرض کیا :میرے پاس بکری کا چھ مہینے کا بچہ ہے مگر وہ دو بکریوں سے بھی اچھا ہے،کیا میں اس کو ذبح کردوں؟حضور ﷺ نے فرمایا:ہاں،اس کی جگہ کردو اور ہر گز(اتنی عمر کی بکری) تیرے بعدکسی کی قر بانی میں کافی نہ ہوگی۔ [بخاری،کتاب الاضاحی،باب من ذبح قبل الصلاۃ اعاد،حدیث:۵۵۶۳،مسلم،حدیث:۱۹۶۱]

عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ وَإِنِّى حَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ مَا بَيْنَ لاَبَتَيْهَا لاَ يُقْطَعُ عِضَاهُهَا وَلاَ يُصَادُ صَيْدُهَا ».

ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مکہ کو حرم بنایااور میں نے مدینہ طیبہ کو حرم کیا کہ اس کے خاردار درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے وحشی جانور شکار نہ کئے جائیں ۔ [الصحیح المسلم،کتاب الحج ،باب فضل المدینۃ ودعاء النبی فیھا بالبرکۃ الخ ۔۔۔رقم الحدیث:۱۳۶۲،الصحیح البخاری،رقم الحدیث:۱۸۶۷،سنن ابی داود، رقم الحدیث:۲۰۳۴،۲۰۳۵،۲۰۳۶،۲۰۳۷،۲۰۳۸،۲۰۳۹]

عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ أَنَّ عَمَّهُ حَدَّثَهُ وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- ابْتَاعَ فَرَسًا مِنْ أَعْرَابِىٍّ فَاسْتَتْبَعَهُ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- لِيَقْضِيَهُ ثَمَنَ فَرَسِهِ فَأَسْرَعَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- الْمَشْىَ وَأَبْطَأَ الأَعْرَابِىُّ فَطَفِقَ رِجَالٌ يَعْتَرِضُونَ الأَعْرَابِىَّ فَيُسَاوِمُونَهُ بِالْفَرَسِ وَلاَ يَشْعُرُونَ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- ابْتَاعَهُ فَنَادَى الأَعْرَابِىُّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ إِنْ كُنْتَ مُبْتَاعًا هَذَا الْفَرَسَ وَإِلاَّ بِعْتُهُ. فَقَامَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- حِينَ سَمِعَ نِدَاءَ الأَعْرَابِىِّ فَقَالَ « أَوَلَيْسَ قَدِ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ ». فَقَالَ الأَعْرَابِىُّ لاَ وَاللَّهِ مَا بِعْتُكَهُ. فَقَالَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- « بَلَى قَدِ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ ». فَطَفِقَ الأَعْرَابِىُّ يَقُولُ هَلُمَّ شَهِيدًا. فَقَالَ خُزَيْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ أَنَا أَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَايَعْتَهُ.فَأَقْبَلَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- عَلَى خُزَيْمَةَ فَقَالَ « بِمَ تَشْهَدُ ». فَقَالَ بِتَصْدِيقِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- شَهَادَةَ خُزَيْمَةَ بِشَهَادَةِ رَجُلَيْنِ.

تر جمہ: حضرت عمارہ بن خزیمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :میرے چچا صحابی رسول ﷺ نے بیان فر مایاکہ:حضورﷺ نے ایک اعرابی سے گھوڑا خریدا ،پھر حضور ﷺ اس کو اپنے ساتھ لے چلے تاکہ گھوڑے کی قیمت ادا فر مائیں،حضور ﷺ تو تیزی سے چل رہے تھے مگر اعرابی آہستہ آ ہستہ قدم رکھتا تھا ،راستے میں کچھ لوگوں نے اس اعرابی سے اس گھوڑے کا مول تول کیا ،کیونکہ ان لوگوں کو معلوم نہ تھا کہ حضور نبی کریم ﷺ اس کو خرید چکے ہیں ،اعرابی نے وہیں سے آواز لگائی کہ آپ(ﷺ)گھوڑا لینا چاہیں تو خریدئیے ورنہ میں گھوڑا بیچ دوں گا،حضور ﷺ نے جب اعرابی کی آواز سنی تو رک گئے اور فر مایا:کیا میں نے تجھ سے یہ گھوڑا خرید نہیں لیا ہے؟اعرابی بولا:نہیں ،خدا کی قسم میں نے آ پ کے ہاتھوں نہیں بیچا ہے ،حضور ﷺ نے فر مایا:کیوں نہیں ،بلاشبہ تو نے مجھ سے سودا کر لیا ہے،اعرابی کہنے لگا کوئی گواہ پیش کیجئے۔اس وقت حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے کہا:میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اس سے گھوڑا خرید لیا ہے،حضور نبی کریم ﷺ حضرت خزیمہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فر مایا:تم کیسے گواہی دیتے ہو(جبکہ خریدتے وقت تم موجود نہ تھے)انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! میں حضور کی تصدیق سے گواہی دے رہا ہوں ،تو حضور ﷺ نے حضرت خزیمہ کی گواہی دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دے دیا۔ [سنن ابی داود،کتاب الاقضیۃ،باب اذا علم الحاکم صدق الشاھد الواحد یجوز لہ ان یحکم،حدیث:۳۶۰۷]

حَدَّثَنِى رَبِيعَةُ بْنُ كَعْبٍ الأَسْلَمِىُّ قَالَ كُنْتُ أَبِيتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ فَقَالَ لِى : سَلْ. فَقُلْتُ أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِى الْجَنَّةِ. قَالَ « أَوَغَيْرَ ذَلِكَ ». قُلْتُ هُوَ ذَاكَ. قَالَ « فَأَعِنِّى عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ ».

ترجمہ: حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: ایک مرتبہ میںحضور اقدس رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ رات گزاراتو میں آپ ﷺ کے وضو وغیرہ کے لیے پانی لے کر حاضر ہوا،حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھ سے سے ارشاد فرمایا:مانگ۔ تو میں نے عرض کی کہ :میں حضور سے مانگتا ہوں کہ جنت میں حضور کے ساتھ رہوں ۔فرمایا:اور کچھ؟میں نے عرض کی: میری مراد توبس یہی ہے ۔فرمایا:تواپنے اوپر کثرت سجود سے میری اعانت کر ۔ [الصحیح المسلم، کتاب الصلوٰۃ،باب فضل السجود والحث علیہ، رقم الحدیث :۴۸۹،سنن ابی داود،رقم الحدیث:۱۳۲۰]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ هَلَكْتُ فَقَالَ وَمَا ذَاكَ قَالَ وَقَعْتُ بِأَهْلِي فِي رَمَضَانَ قَالَ تَجِدُ رَقَبَةً قَالَ لَا قَالَ هَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ قَالَ لَا قَالَ فَتَسْتَطِيعُ أَنْ تُطْعِمَ سِتِّينَ مِسْكِينًا قَالَ لَا قَالَ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ بِعَرَقٍ وَالْعَرَقُ الْمِكْتَلُ فِيهِ تَمْرٌ فَقَالَ اذْهَبْ بِهَذَا فَتَصَدَّقْ بِهِ قَالَ أَعَلَى أَحْوَجَ مِنَّا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَهْلُ بَيْتٍ أَحْوَجُ مِنَّا ثُمَّ قَالَ اذْهَبْ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ.

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، میں تو تباہ ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا کہ رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کوئی غلام ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ فرمایا : مسلسل دو مہینے روزے رکھ سکتے ہو، انہوں نے کہا کہ نہیں۔ دریافت فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ایک انصاری صحابیعرقلے کر حاضر ہوئے،]عرق:ایک پیمانہ ہے[ اس میں کھجوریں تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لے جا اور صدقہ کر دے۔ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سے زیادہ ضرورت مند پر صدقہ کروں؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ ان دونوں میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جا اور اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔[بخاری،کتاب کفارات الایمان،باب من اعان المعسر فی الکفارۃ،حدیث:۶۲۱۶]

وسیلہ

عَنْ أَنَسٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ - رضى الله عنه - كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا . قَالَ فَيُسْقَوْنَ .

تر جمہ: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ :جب لوگ قحط کے شکار ہوئے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے اس طرح دعا مانگا:ائے اللہ!بے شک ہم اپنے نبی ﷺ کے وسیلے سے دعا کرتے تھے تو ہمیں بارش عطا فرماتا،اور اب ہم اپنے نبی ﷺ کے چچا کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں بارش عطا فرما،راوی کہتے ہیں :تو بارش ہو ئی۔(الصحیح البخاری،کتاب الاستسقاء،باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا، رقم الحدیث:۱۰۱۰)

عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ ، أَنَّ رَجُلاً ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ فَقَالَ : ادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ يُعَافِيَنِي , فَقَالَ : إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَكَ وَهُوَ خَيْرٌ ، وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ , فَقَالَ : ادْعُهْ ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ ، وَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ ، وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ : اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ ، يَا مُحَمَّدُ , إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى ، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ.

تر جمہ: حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نا بینا شخص نبی کر یم ﷺ کے پاس آیا ا ور اس نے کہا :میر ے لئے اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالی مجھے عا فیت بخشے،تو حضور ﷺ نے کہا :اگر تم چاہو تو میں مؤ خر کردوں اور وہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر چاہو تو دعا کر دوں ،تو انہوں نے کہا :دعا کر دیجئے،تو اس کو حضور ﷺنے حکم دیا کہ وہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز پڑ ھے اور اس طر ح سے دعا کرے:ائے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیری طرف رحمت والے نبی محمد ﷺ کے وسیلے سے متوجہ ہو تا ہوں ،یا محمد ﷺ!بے شک میں نے آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف لَو لگائی اپنی اس ضرورت میں تاکہ میری یہ ضرورت پو ری ہو جائے،ائے اللہ تو میری اس ضرورت کو پو ری فر ما۔(ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب ماجاء فی صلاۃ الحاجۃ،رقم الحدیث:۱۳۸۵،ترمذی ،رقم الحدیث:۳۵۷۸)

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَمَّا اقْتَرَفَ آدَمُ الْخَطِيئَةَ قَالَ : يَا رَبِّ أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لَمَا غَفَرْتَ لِي ، فَقَالَ اللَّهُ : يَا آدَمُ ، وَكَيْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْهُ ؟ قَالَ : يَا رَبِّ ، لأَنَّكَ لَمَّا خَلَقْتَنِي بِيَدِكَ وَنَفَخْتَ فِيَّ مِنْ رُوحِكَ رَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ عَلَىَ قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَكْتُوبًا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ فَعَلِمْتُ أَنَّكَ لَمْ تُضِفْ إِلَى اسْمِكَ إِلاَّ أَحَبَّ الْخَلْقِ إِلَيْكَ ، فَقَالَ اللَّهُ : صَدَقْتَ يَا آدَمُ ، إِنَّهُ لاَُحِبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ ادْعُنِي بِحَقِّهِ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ وَلَوْلاَ مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُكَ.

تر جمہ: حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ ﷺنے کہا :جب حضرت آدم سے خطائے اجتہادی سرزد ہوئی تو انہوں نے دعا کیا : ائے میرے رب !میں تجھ سے محمد ﷺکے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما،اس پر اللہ رب العزت نے فر مایا:ائے آدم !تونے محمد ﷺ کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی میں نے انہیں پیدا بھی نہیں کیا،؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا :مولا! جب تونے اپنے دست قدرت سے مجھے پیدا کیا اور اپنی روح میرے اند ر پھونکی میں نے اپنا سر اوپر اٹھایاتو عرش کے پایوں پر لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا ہوا ،میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھااسی کا نام ہو سکتا ہے جو تمام مخلوق میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ،اس پر اللہ تعالی نے فر مایا:ائے آدم !تو نے سچ کہا:مجھے ساری مخلوق میں سب سے زیادہ وہی ہیں ،اب جبکہ تم نے اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمد(ﷺ)نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہیں کرتا۔یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔ ( المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب تواریخ المتقدمین من الانبیاء والمرسلین ، ومن کتاب آیات رسول اللہ التی ھی دلائل النبوۃ، حدیث:۴۲۲۸)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ : اسْتَسْقَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَامَ الرَّمَادَةِ بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ هَذَا عَمُّ نَبِيِّكَ الْعَبَّاسُ ، نَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِهِ فَاسْقِنَا ، فَمَا بَرِحُوا حَتَّى سَقَاهُمُ اللَّهُ ، قَالَ : فَخَطَبَ عُمَرُ النَّاسَ ، فَقَالَ : أَيُّهَا النَّاسُ ، إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرَى لِلْعَبَّاسِ مَا يَرَى الْوَلَدُ لِوَالِدِهِ ، يُعَظِّمُهُ ، وَيُفَخِّمُهُ ، وَيَبَرُّ قَسَمَهُ فَاقْتَدُوا أَيُّهَا النَّاسُ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَمِّهِ الْعَبَّاسِ ، وَاتَّخِذُوهُ وَسِيلَةً إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فِيمَا نَزَلَ بِكُمْ.

تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ :حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے قحط و ہلاکت کے سال حضرت عباس بن عبد المطلب کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالی سے بارش کی دعا مانگی تو کہا:ائے اللہ! یہ تیرے نبی کے چچا عباس ہیں اِن کے وسیلے سے ہم تیری طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ہمیں بارش عطا فر ما،تو اللہ تعالی نے بارش عطا فر مائی،راوی کہتے ہیں ،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیا تو کہا: ائے لوگوں!حضور ﷺحضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ویسا ہی مقام وحیثیت دیتے تھے جیسا بیٹا اپنے باپ کو دیتا ہے،آپ ﷺان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا کرتے تھے،لوگوں! تم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور نبی کریم ﷺکی اقتدا کرو اور انہیں اللہ تعالی کی بارگاہ میں وسیلہ بنائوتاکہ وہ تم پر بارش برسائے۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم ، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنھم، ذكر إسلام العباس رضي الله عنه و اختلاف الروايات في وقت إسلامه ،حدیث:۵۴۳۸)

حدثنا أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال : قحط أهل المدينة قحطا شديدا فشكوا إلى عائشة فقالت انظروا قبر النبي صلى الله عليه و سلم فاجعلوا منه كووا إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف قال ففعلوا فمطرنا مطرا حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق

تر جمہ: حضرت ابو جوزاء اوس بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ:مدینہ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے ،تو ان لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی ،ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:حضور نبی اکرم ﷺکے قبر انور کے پاس جائواور اس سے ایک کھڑکی(سوراخ یا روشندان)آسما ن کی طرف اس طرح کھولو کہ قبر انور اور آسمان کے در میان کوئی پردہ حائل نہ رہے ۔راوی کہتے ہیں کہ:انہوں نے ایسا ہی کیاتو بہت زیادہ بارش ہوئی یہاں تک کہ خوب سبزہ اُگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ محسوس ہوتا کہ چربی سے پھٹ پڑیں گے لہذا اس سال کانام ہی ’ عام الفتق ‘(پیٹ) پھٹنے کا سال رکھ دیاگیا۔ (سنن الدارمی،باب ما اکرم اللہ تعالی نبیہ ﷺ بعد موتہ،حدیث:۹۲)

عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكِ الدَّارِ , قَالَ : وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ , قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ , فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم , فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ , اسْتَسْقِ لأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا , فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلامَ , وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْك الْكَيْسُ , عَلَيْك الْكَيْسُ , فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ , ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ لاَ آلُو إلاَّ مَا عَجَزْت عَنْهُ.

ترجمہ:مالک الدار،جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وزیر خوراک تھے ،وہ بیان کرتے ہیں کہ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگوں پر قحط آیا،تو ایک شخص(صحابی رسول حضرت بلال بن حارث مزنی)حضور ﷺکے قبر انور پر آئے اور عرض کیا :یارسول اللہ!اپنی امت کے لئے بارش کی دعا کیجئے کیو نکہ وہ قحط سے ہلاک ہورہے ہیں ،نبی ﷺان کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا:عمر کے پاس جائو،ان کو سلام کہواور یہ خبر دو کہ تم پر یقینا بارش ہوگی،اور ان سے کہوکہ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے،تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے،پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا:ائے اللہ !میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ میں عاجز ہو جاؤں۔حافظ ابن کثیر نے کہاکہ:یہ صحیح اسناد سے مروی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الفضائل ،باب ماذکر فی فضل عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ،حدیث :۳۲۶۶۵، جلد ۱۲،ص:۳۲،البدایۃ والنھایۃ،جلد:۷،ص:۹۱۔۹۲،قال الحافظ ابن کثیر ھذا اسناد صحیح)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ - رضى الله عنهما - عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « بَيْنَمَا ثَلاَثَةُ نَفَرٍ يَمْشُونَ أَخَذَهُمُ الْمَطَرُ ، فَأَوَوْا إِلَى غَارٍ فِى جَبَلٍ ، فَانْحَطَّتْ عَلَى فَمِ غَارِهِمْ صَخْرَةٌ مِنَ الْجَبَلِ فَانْطَبَقَتْ عَلَيْهِمْ ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ انْظُرُوا أَعْمَالاً عَمِلْتُمُوهَا صَالِحَةً لِلَّهِ فَادْعُوا اللَّهَ بِهَا لَعَلَّهُ يُفَرِّجُهَا عَنْكُمْ . قَالَ أَحَدُهُمُ اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ لِى وَالِدَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ ، وَلِى صِبْيَةٌ صِغَارٌ كُنْتُ أَرْعَى عَلَيْهِمْ ، فَإِذَا رُحْتُ عَلَيْهِمْ حَلَبْتُ ، فَبَدَأْتُ بِوَالِدَىَّ أَسْقِيهِمَا قَبْلَ بَنِىَّ ، وَإِنِّى اسْتَأْخَرْتُ ذَاتَ يَوْمٍ فَلَمْ آتِ حَتَّى أَمْسَيْتُ ، فَوَجَدْتُهُمَا نَامَا ، فَحَلَبْتُ كَمَا كُنْتُ أَحْلُبُ ، فَقُمْتُ عِنْدَ رُءُوسِهِمَا ، أَكْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا ، وَأَكْرَهُ أَنْ أَسْقِىَ الصِّبْيَةَ ، وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَىَّ ، حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّى فَعَلْتُهُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ لَنَا فَرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ . فَفَرَجَ اللَّهُ فَرَأَوُا السَّمَاءَ . وَقَالَ الآخَرُ اللَّهُمَّ إِنَّهَا كَانَتْ لِى بِنْتُ عَمٍّ أَحْبَبْتُهَا كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَاءَ ، فَطَلَبْتُ مِنْهَا فَأَبَتْ حَتَّى أَتَيْتُهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ ، فَبَغَيْتُ حَتَّى جَمَعْتُهَا ، فَلَمَّا وَقَعْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا قَالَتْ يَا عَبْدَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ ، وَلاَ تَفْتَحِ الْخَاتَمَ إِلاَّ بِحَقِّهِ ، فَقُمْتُ ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّى فَعَلْتُهُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا فَرْجَةً . فَفَرَجَ . وَقَالَ الثَّالِثُ اللَّهُمَّ إِنِّى اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقِ أَرُزٍّ ، فَلَمَّا قَضَى عَمَلَهُ قَالَ أَعْطِنِى حَقِّى . فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ ، فَرَغِبَ عَنْهُ ، فَلَمْ أَزَلْ أَزْرَعُهُ حَتَّى جَمَعْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيهَا فَجَاءَنِى فَقَالَ اتَّقِ اللَّهَ . فَقُلْتُ اذْهَبْ إِلَى ذَلِكَ الْبَقَرِ وَرُعَاتِهَا فَخُذْ . فَقَالَ اتَّقِ اللَّهَ وَلاَ تَسْتَهْزِئْ بِى .فَقُلْتُ إِنِّى لاَ أَسْتَهْزِئُ بِكَ فَخُذْ . فَأَخَذَهُ ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّى فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ مَا بَقِىَ ، فَفَرَجَ اللَّهُ » .

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :تین آدمی سفر میں جارہے تھے کہ زور دار بارش ہو نے لگی،تو انہوں نے پہاڑ کے ایک غار میں پناہ لی ،اتنے میں غار کے منہ پہ پہاڑ کا ایک چٹان آگرا اور یہ لوگ اس میں بند ہو گئے ۔پھر انہوں نے ایک دوسرے سے کہا :تم لوگوں اپنے نیک کاموں پر غور کرو جو تم نے صرف اللہ کی رضا اور خوشنودگی کے لئے کیا ہے ،اور ان نیک کاموں کے وسیلے سے اللہ تعالی سے دعا کرو ،شاید اللہ تعالی تم سے یہ مصیبت دور کر دے ۔تو اس میں سے ایک آدمی نے دعا کیا :ائے اللہ !میرے بوڑ ھے ماںباپ تھے ،اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ،میں بکریاں چرا تا تھا ،جب میں واپس آتا تو دودہ دوہتا اور اپنے بچوں سے پہلے اپنے ماں باپ کو دودہ پلاتا ،ایک دن مجھے آنے میں تا خیر ہو گئی ،تو میں رات سے پہلے نہ آسکا ،جب میں آیا تو میرے ماں باپ سو چکے تھے ،میں نے حسب معمول دودہ دوہا اور ایک بر تن میں دودہ ڈال کر ماں باپ کے سر ہانے کھڑا ہو گیا ،میں ان کو نیند سے بیدار کر نا نا پسند کر تا تھا اور ان سے پہلے اپنے بچوں کو دودہ پلانا بھی نا پسند کر تا تھا ،حالانکہ بچے میرے قدموں مین چیخ رہے تھے،میں اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ائے اللہ! یقینا تو جا نتا ہے کہ یہ کام میں نے تیری رضا کے لئے کیا تھا ،تو ہمارے لئے کچھ کشادگی کردے تاکہ ہم غار میں سے آسمان کو دیکھ لیں۔تو اللہ تعالی نے کچھ کشادگی کر دی تو ان لوگوں نے آسمان کو دیکھ لیا۔ پھر دو سرے آدمی نے دعا کی :ائے اللہ !میر ے چچا کی ایک لڑکی تھی جس سے میں بہت محبت کر تا تھا ،میں نے اس سے مقاربت کی درخواست کی،اس نے انکار کیا اور کہا پہلے سو دینار لائو۔میں نے بڑی محنت کر کے سو دینار جمع کیا اور اس کے پاس گیا ،جب میں جنسی عمل کر نے پر قادر ہو گیا تو اس نے کہا :ائے اللہ کے بندے اللہ سے ڈر اور ناجائز طریقے سے مہر نہ توڑ ،تو میں اسی وقت اس سے الگ ہو گیا ۔ائے اللہ! تجھے یقینا معلوم ہے کہ میں نے یہ کا م صرف تیری خوشی کے لئے کیا تھا ،پس تو ہمارے لئے اس غار کو کچھ کھول دے،تو اللہ تعالی نے غار کو مزید کھول دیا۔ پھرتیسرے شخص نے کہا:ائے اللہ !میں نے ایک شخص کو ایک فر ق(یعنی ایک پیمانہ آٹھ کلو گرام)چا ولوں کی اجرت پہ رکھا تھا ،جب اس نے اپنا کام پورا کر لیا تو اس نے کہا مجھے میری اجرت دو ،میں نے اسے مقررہ اجرت دے دی مگر اس نے اس سےاعراض کیا ،میں ان چاولوں کی کاشت کر تا رہا یہاں تک کہ میں نے اس کی آمدنی سے بیل اور چر واہے جمع کر لئے،پھر ایک دن وہ شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا :اللہ سے ڈرو اور میرا حق نہ مارو ،میں نے کہا :یہ بیل اور چر واہے لے جائو۔اس نے کہا اللہ سے ڈر اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو ،میں نے کہا میں مذاق نہیں کرتا یہ بیل اور چر واہے لے لو ،وہ ان کو لے کر چلا گیا ۔ائے اللہ !تو یقینا جا نتا ہے کہ میں نے یہ کام صرف تیری خوشی اور رضا کے لئے کیا تھا ،تو اب تو غار کا با قی منہ بھی کھول دے ۔تو اللہ تعالی نے غار کا باقی منہ بھی کھول دیا۔ (الصحیح البخاری،کتاب المزارعۃ،باب اذا ذرع بمال قوم بغیر اذنھم و کان فی ذلک صلاح لھم ،رقم الحدیث:۲۳۳۳)

بدعت

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِىِّ أَنَّهُ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رضى الله عنه - لَيْلَةً فِى رَمَضَانَ ، إِلَى الْمَسْجِدِ ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ يُصَلِّى الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ ، وَيُصَلِّى الرَّجُلُ فَيُصَلِّى بِصَلاَتِهِ الرَّهْطُ فَقَالَ عُمَرُ إِنِّى أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلاَءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ . ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَىِّ بْنِ كَعْبٍ ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى ، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاَةِ قَارِئِهِمْ ، قَالَ عُمَرُ نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ ، وَالَّتِى يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِى يَقُومُونَ . يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ ، وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ .

ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن عبد القاری روایت کرتے ہیں :میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگ متفرق تھے،کو ئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور کوئی گروہ کے ساتھ ۔حضرت عمر نے فرمایا :میرے خیال میں انہیں ایک قاری کے پیچھے جمع کر دیا جائے تو اچھا ہو گا ،پس حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے انہیں جمع کر دیا گیا ،پھر میں ایک دوسری رات کو ان کے ساتھ نکلا اور لوگ اپنے قاری کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فر مایا :یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔(الصحیح البخاری،کتاب صلاۃ التراویح ،باب فضل من قام رمضان ،رقم الحدیث:۲۰۱۰)

عَنْ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ.

تر جمہ: حضرت جریر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا جس نے اسلام میں کسی اچھے طریقے کو رائج کیا تو اس کو رائج کر نے کا ثواب ملے گا اور ان لوگوں کے عمل کرنے کا بھی جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرتے رہیں گے،اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔اور جس نے اسلام میں کسی برے طریقے کو رائج کیا تو اس کو اس کا گناہ ہوگا اور ان لوگوں کے عمل کرنے کا بھی گناہ ہوگا جو اس کے بعد اس طریقے پر عمل کرتے رہیں گے اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی۔(الصحیح المسلم، کتاب الزکوٰۃ،باب الحث علی الصدقۃ ولو بشق تمرۃ ۔۔۔رقم الحدیث:۱۰۱۷،ابن ماجہ،رقم الحدیث :۲۰۷ )

عَنِ الزُّهْرِىِّ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ كَانَ النِّدَاءُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوَّلُهُ إِذَا جَلَسَ الإِمَامُ عَلَى الْمِنْبَرِ عَلَى عَهْدِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - وَأَبِى بَكْرٍ وَعُمَرَ - رضى الله عنهما - فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ - رضى الله عنه - وَكَثُرَ النَّاسُ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى الزَّوْرَاءِ .

تر جمہ : حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ ،حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہو تی تھی جبکہ امام منبر پر بیٹھ جاتے،پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں جب لوگوں کی کثرت ہو گئی تو آپ نے تیسری اذان کا اضافہ کیا۔ (الصحیح البخاری،کتاب الجمعۃ ،باب الاذان یوم الجمعۃ ،رقم الحدیث :۹۱۲،۹۱۳،۹۱۵،۹۱۶ )

عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ - رضى الله عنه - قَالَ أَرْسَلَ إِلَىَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عِنْدَهُ قَالَ أَبُو بَكْرٍ - رضى الله عنه - إِنَّ عُمَرَ أَتَانِى فَقَالَ إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ وَإِنِّى أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ ، فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ الْقُرْآنِ وَإِنِّى أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ .قُلْتُ لِعُمَرَ كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ عُمَرُ هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ .فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِى حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِى لِذَلِكَ ، وَرَأَيْتُ فِى ذَلِكَ الَّذِى رَأَى عُمَرُ . قَالَ زَيْدٌ قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لاَ نَتَّهِمُكَ ، وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْىَ لِرَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِى نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَىَّ مِمَّا أَمَرَنِى مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَكْرٍ يُرَاجِعُنِى حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِى لِلَّذِى شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِى بَكْرٍ وَعُمَرَ - رضى الله عنهما - فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الْعُسُبِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ حَتَّى وَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ التَّوْبَةِ مَعَ أَبِى خُزَيْمَةَ الأَنْصَارِىِّ لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرَهُ ( لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ ) حَتَّى خَاتِمَةِ بَرَاءَةَ ، فَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِى بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ رضى الله عنه.

ترجمہ : عبید بن سباق سے روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ یمامہ میں[صحابہ کی بہت بڑی تعداد کے] شہید ہو جانے کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ یمامہ کی جنگ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہو گئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اسی طرح کفار کے ساتھ دوسری جنگوں میں بھی قرّاءِ قرآن بڑی تعداد میں قتل ہو جائیں گے اور یوں قرآن کے جاننے والوں کی بہت بڑی تعداد ختم ہو جائے گی۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ آپ قرآن مجید کو[باقاعدہ کتابی شکل میں] جمع کرنے کا حکم دے دیں۔ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے[اپنی زندگی میں] نہیں کیا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ کی قسم! یہ تو ایک بڑا اچھا کام ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ بات مجھ سے باربار کہتے رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ میں میرا بھی سینہ کھول دیا اور اب میری بھی وہی رائے ہو گئی جو عمر رضی اللہ عنہ کی تھی۔ زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا آپ[زید رضی اللہ عنہ] جوان اور عقلمند ہیں، آپ کو معاملہ میں متہم بھی نہیں کیا جا سکتا اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھتے بھی تھے، اس لیے آپ قرآن مجید کو پوری تلاش اور محنت کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دیں۔ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو بھی اس کی جگہ سے دوسری جگہ ہٹانے کے لیے کہتے تو میرے لیے یہ کام اتنا مشکل نہیں تھا جتنا کہ ان کا یہ حکم کہ میں قرآن مجید کو جمع کر دوں۔ میں نے اس پر کہا کہ آپ لوگ ایک ایسے کام کو کرنے کی ہمت کیسے کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں کیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ ایک عمل خیر ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ جملہ برابر دہراتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا بھی ان کی اور عمر رضی اللہ عنہ کی طرح سینہ کھول دیا۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید[جو مختلف چیزوں پر لکھا ہوا موجود تھا] کی تلاش شروع کر دی اور قرآن مجید کو کھجور کی چھلی ہوئی شاخوں، پتلے پتھروں سے، [جن پر قرآن مجید لکھا گیا تھا]اور لوگوں کے سینوں کی مدد سے جمع کرنے لگا۔ سورۃ التوبہ کی آخری آیتیں مجھے ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس لکھی ہوئی ملیں، یہ چند آیات مکتوب شکل میں ان کے سوا اور کسی کے پاس نہیں تھیں "لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم‏"سے سورۃ براۃ[سورۃ توبہ] کے خاتمہ تک۔ جمع کے بعد قرآن مجید کے یہ صحیفے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ تھے۔ پھر ان کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے جب تک وہ زندہ رہے اپنے ساتھ رکھا پھر وہ ام المؤمنین حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہے۔ (الصحیح البخاری،کتاب فضائل القرآن ،باب جمع القرآن ،رقم الحدیث:۴۹۸۶)

عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ : مَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللهِ حَسَنٌ ، وَمَا رَآهُ الْمُسْلِمُونَ سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللهِ سَيِّءٌ

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:انہوں نے ارشاد فر مایا:جسے مسلمان اچھا سمجھے تو وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے اور جسے مسلمان برا سمجھے تو وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنھم ،باب ابو بکر الصدیق بن ابی قحافۃ رضی اللہ عنہما،حدیث:۴۴۶۵)

عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ قَالَ : مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ , فَهُوَ رَدٌّ.

ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا روایت کر تی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرےجو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردودہے۔(الصحیح البخاری، کتاب الصلح ،باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود،رقم الحدیث:۲۶۹۷)

عِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ يَقُولُ : قَامَ فِينَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ، فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ، وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ ، وَذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ ، فَقِيلَ : يَا رَسُولَ اللهِ ، وَعَظْتَنَا مَوْعِظَةَ مُوَدِّعٍ ، فَاعْهَدْ إِلَيْنَا بِعَهْدٍ ، فَقَالَ : عَلَيْكُمْ بِتَقْوَى اللهِ ، وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا ، وَسَتَرَوْنَ مِنْ بَعْدِي اخْتِلاَفًا شَدِيدًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي ، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَالأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ.

ترجمہ :حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، آپ نے ہمیں ایک مؤثر نصیحت فرمائی، جس سے دل لرز گئے اور آنکھیں ڈبڈبا گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے تو رخصت ہونے والے شخص جیسی نصیحت کی ہے، لہٰذا آپ ہمیں کچھ وصیت فرما دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم اللہ سے ڈرو، اور امیر[سربراہ]کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، گرچہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، عنقریب تم لوگ میرے بعد سخت اختلاف دیکھو گے، تو تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رہنا، اور دین میں نئی باتوں[بدعتوں]سے اپنے آپ کو بچانا، اس لیے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔[یعنی ہر وہ بدعت جو دین کے خلاف یا نقصان پہونچانے والا ہے وہ سب کی سب گمراہی ہے،جیسے قرآن وحدیث کے خلاف غلط عقیدے نکالنا اور اُسے صحیح سمجھنا وغیرہ][ابن ماجہ،المقدمہ،باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین،حدیث:۴۲]

عَنِ ابْنِ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ سَنَّ سُنَّةَ خَيْرٍ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا فَلَهُ أَجْرُهُ وَمِثْلُ أُجُورِ مَنِ اتَّبَعَهُ غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ سَنَّ سُنَّةَ شَرٍّ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهُ وَمِثْلُ أَوْزَارِ مَنِ اتَّبَعَهُ غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا ».

تر جمہ: حضرت ابن جریر بن عبد اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے اپنا ثواب بھی ہے اور اسے عمل کرنے والوں کے برابر بھی ثواب ملے گا ،اور ان لوگوں کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہ ہوگی۔ اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا، پھر وہ طریقہ اپنایا گیا تو اس کو اپنا گناہ ہوگا اور ان تمام لوگوں کے برابر بھی گناہ ہوگاجن لوگوں نے اُسے اپنایا،اور ان لوگوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی۔ (تر مذی،کتاب العلم عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجاء فیمن دعا الی ھدی فاتبع او الی ضلالۃ،حدیث:۲۶۷۵)

سماع موتیٰ

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِىَّ - رضى الله عنه - قَالَ كَانَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ « إِذَا وُضِعَتِ الْجِنَازَةُ فَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ ، فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً قَالَتْ قَدِّمُونِى . وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ لأَهْلِهَا يَا وَيْلَهَا أَيْنَ يَذْهَبُونَ بِهَا يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَىْءٍ إِلاَّ الإِنْسَانَ ، وَلَوْ سَمِعَ الإِنْسَانُ لَصَعِقَ » .

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:حضور سید عالم ﷺفر ماتے تھے کہ:جب جنازہ رکھا جاتا ہے اور لوگ اسے اپنی گردنوں پر اٹھاتے ہیں ،اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے:مجھے آگے بڑھائو ،اور اگر بُرا ہوتا ہے تو اپنے گھر والوں سے کہتا ہے: ہائے خرابی! کہاں لئے جاتے ہو؟انسان کے سوا ہر چیز اس کی آواز کو سنتی ہے اور اگر انسان سن لے تو بے ہوش ہوجائے۔( بخاری،کتاب الجنائز،باب قول المیت وھو علی الجنازۃ قدمونی،حدیث:۱۳۱۶)

عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ - رضى الله عنه - عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِى قَبْرِهِ ، وَتُوُلِّىَ وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ ، أَتَاهُ مَلَكَانِ فَأَقْعَدَاهُ فَيَقُولاَنِ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِى هَذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ - صلى الله عليه وسلم - فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ . فَيُقَالُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ ، أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ - قَالَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا - وَأَمَّا الْكَافِرُ - أَوِ الْمُنَافِقُ - فَيَقُولُ لاَ أَدْرِى ، كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ . فَيُقَالُ لاَ دَرَيْتَ وَلاَ تَلَيْتَ . ثُمَّ يُضْرَبُ بِمِطْرَقَةٍ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً بَيْنَ أُذُنَيْهِ ، فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ إِلاَّ الثَّقَلَيْنِ » .

تر جمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا:جب مردے کو قبر میں رکھ دیا جاتاہے،اور اس کے ساتھی واپس جانے لگتے ہیں تو بے شک وہ ان کی جوتیوں کی آواز کا سنتا ہے،اس کے پاس دو فر شتے آتے ہیں اور اس کو بیٹھاتے ہیں ،دونوں اس سے کہتے ہیں :تو اس شخص(محمد ﷺ)کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتا تھا؟تو وہ کہتا ہے :میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔تو اسے کہا جاتا ہے جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھو۔اللہ تعالی نے اسے تیرے جنت کے ٹھکانے سے بدل دیا ہے۔حضور ﷺنے فر مایا:تو اسے جنت وجہنم کے دونوں ٹھکانے دیکھایا جاتا ہے۔اور رہا کافر اور منافق تو وہ کہتا ہے:میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہا کرتے تھے،دونوں فر شتے کہتے ہیں کہ:نہ تو نے سمجھا اور نہ ہی نیک لوگوں کی پیروی کی،پھر اسے لوہے کے ہتھوڑے سے اس کے کانوں کے درمیان مارتے ہیں ،تو وہ ایسے بھیانک انداز سے چیختا ہے کہ آس پاس کی ساری مخلوقات اس کی چیخ کو سنتی ہے سوائے انسان اور جنات کے۔(بخاری،کتاب الجنائز،باب المیت یسمع خفق النعال، حدیث :۱۳۳۸)

عَنْ قَتَادَةَ قَالَ ذَكَرَ لَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ عَنْ أَبِى طَلْحَةَ أَنَّ نَبِىَّ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - أَمَرَ يَوْمَ بَدْرٍ بِأَرْبَعَةٍ وَعِشْرِينَ رَجُلاً مِنْ صَنَادِيدِ قُرَيْشٍ فَقُذِفُوا فِى طَوِىٍّ مِنْ أَطْوَاءِ بَدْرٍ خَبِيثٍ مُخْبِثٍ ، وَكَانَ إِذَا ظَهَرَ عَلَى قَوْمٍ أَقَامَ بِالْعَرْصَةِ ثَلاَثَ لَيَالٍ ، فَلَمَّا كَانَ بِبَدْرٍ الْيَوْمَ الثَّالِثَ ، أَمَرَ بِرَاحِلَتِهِ فَشُدَّ عَلَيْهَا رَحْلُهَا ، ثُمَّ مَشَى وَاتَّبَعَهُ أَصْحَابُهُ وَقَالُوا مَا نُرَى يَنْطَلِقُ إِلاَّ لِبَعْضِ حَاجَتِهِ ، حَتَّى قَامَ عَلَى شَفَةِ الرَّكِىِّ ، فَجَعَلَ يُنَادِيهِمْ بِأَسْمَائِهِمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِهِمْ « يَا فُلاَنُ بْنَ فُلاَنٍ ، وَيَا فُلاَنُ بْنَ فُلاَنٍ ، أَيَسُرُّكُمْ أَنَّكُمْ أَطَعْتُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا ، فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا » . قَالَ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا تُكَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ لاَ أَرْوَاحَ لَهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - « وَالَّذِى نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ، مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ » .

ترجمہ : حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :اللہ کے رسول ﷺ بدر کے میدان میں قتل کئے گئے کافروں کے لاشوں کے پاس کھڑے ہوئے اور ان کو ان کے باپوں کے نام کے ساتھ پکارا۔ائے فلاں بن فلاں!اور ائے فلاں بن فلاں!ہم نے تو اس کو پا لیا جس کا وعدہ ہم سے ہمارے رب نے کیا (یعنی فتح و نصرت)تو کیا تم لو گوں نے بھی اس کو پا لیا جس کا وعدہ تم سے تمہارے رب نے کیا تھا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا آپ بے جان جسموں سے بات کر تے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فر مایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ ء قدرت میں محمد(ﷺ)کی جان ہے۔میری باتوں کو تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔ (بخاری، کتاب المغازی،باب قتل ابی جھل۔حدیث:۳۹۷۶)

عَنْ ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ قَالَ حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ (فساق الحدیث الی ان قال) فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلَا نَارٌ فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا حَتَّى أَسْتَأْنِسَ بِكُمْ وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي.

تر جمہ: حضرت ابن شماشہ مہری سے روایت ہے کہ:حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے وقت نزاع اپنے صاحبزادے سے کہا:جب انتقال کر جاؤں تو میرے جنازے کے ساتھ کوئی نوحہ کرنے والی نہ چلے اور نہیں آگ لے کر کوئی چلے پھر جب مجھے دفن کردینا،تو مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا پھر میری قبر کے پاس اتنی دیر ٹھہرے رہنا جتنی دیر میں ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتاہے،تاکہ میں تم سے انس حاصل کروں اور جان لو کہ میں اپنے رب کے فر شتوں کو کیا جواب دیتا ہوں ۔ (مسلم،کتاب الایمان ،باب کون الاسلام مایھدم ماقبلہ وکذا الھجرۃ والحج،حدیث: ۱۲۱)

أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ ، قَالَ : مَا أُبَالِي فِي الْقُبُورِ قَضَيْت حَاجَتِي ، أَوْ فِي السُّوقِ وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ.

تر جمہ: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:انہوں نے کہا:میں برابر جانتاہوں کہ میں قبرستان میں قضائے حاجت کے لئے بیٹھوں یا بازار میں کہ لوگ دیکھتے رہے۔(یعنی مردے بھی دیکھتے ہیں جیسے زندہ دیکھتا ہے) (مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب الجنائز،باب فی الرجل یبول ،او یحدث بین القبور،باب نمبر:۱۴۱جلد:۳؍ ص:۳۳۹،حدیث:۱۱۹۰۳)

عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إبْرَاهِيمَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : أَذَى الْمُؤْمِنِ فِي مَوْتِهِ كَأَذَاهُ فِي حَيَاتِهِ.

تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:انہوں نے ارشاد فر مایا:مومن کو مرنے کے بعد تکلیف دینا ایسے ہی جیسے اس کی زندگی میں تکلیف دینا۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد:۳؍ص:۳۶۷،حدیث: ۱۲۱۱۵)

عَنْ أَبِي أَيُّوبَ : أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم سَمِعَ صَوْتًا حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ ، فَقَالَ : هَذِهِ أَصْوَاتُ الْيَهُودِ تُعَذَّبُ فِي قُبُورِهَا.

ترجمہ: حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:نبی اکرم ﷺنے سورج کے ڈوبنے کے وقت ایک آواز سنی تو فر مایا:یہ یہودیوں کی آواز ہے جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جارہاہے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد:۳؍ص:۳۷۵،حدیث: ۱۲۱۶۰)

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : إِنَّ الدُّنْيَا جَنَّةُ الْكَافِرِ وَسِجْنُ الْمُؤْمِنِ ، وَإِنَّمَا مَثَلُ الْمُؤْمِنِ حِينَ تَخْرُجُ نَفْسُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ كَانَ فِي سِجْنٍ ، فَخَرَجَ مِنْهُ فَجَعَلَ يَتَقَلَّبُ فِي الأَرْضِ ، وَيَتَفَسَّحُ فِيهَا ۔ و لفظ ابی بکر ھکذا: الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ ، فَإِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ يُخْلَى سربه , يَسْرَحُ حَيْثُ شَاءَ.

تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا:بے شک دنیا کافر کی جنت ہے اور مسلمانوں کا قید خانہ،اور ایمان والوں کی جب جان نکلتی ہے تو اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی قید خانہ میں تھا اور اب اسے نکال دیا گیا کہ زمین میں گشت کرتا اور با فر اغت چلتا پھرتا ہے۔اور ابو بکر بن ابی شیبہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ:دنیا مسلمانوں کا قید خانہ ہے اور کافروں کی جنت ،جب مسلمان مرتا ہے تو اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے۔ (کتاب الزھد لابن المبارک،ص:۲۱۱،حدیث:۵۹۷،دارالکتب العلمیہ بیروت،مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب الزھد، جلد: ۱۳، ص: ۳۵۵،حدیث:۳۵۸۶۷)

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ الْمَيِّتَ يَعْرِفُ مَنْ يَحْمِلُهُ وَمَنْ يُغَسِّلُهُ ، وَمَنْ يُدَلِّيهِ فِي قَبْرِهِ .

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: نبی اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا:بے شک مردہ اسے پہچانتا ہے جو اس کو غسل دے اور جو اٹھائے اور جو کفن پہنائے اور جو قبر میں اتارے۔ (مسند احمد بن حنبل،مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ،جلد:۳؍ ص: ۳،حدیث:۱۱۰۱۰)

عن ام المومنین عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت:کنت ادخل بیتی الذی فیہ رسول اللہ ﷺ وانی واضع ثوبی واقول انما ھو زوجی و ابی ،فلما دفن عمر ،فواللہ ما دخلتہ الا و انا مشدودۃ علی ثیابی حیاء من عمر۔

تر جمہ: ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:وہ فر ماتی ہیں کہ:میں اس مکان جنت آستاں میں جہاں حضور سید عالم ﷺ کا مزار پُر انوار ہے یوں ہی بے لحاظ ستر و حجاب چلی جاتی ،اور جی میں کہتی وہاں کون ہے،یہی میرے شوہر یا میرے والد پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ دفن ہوئے تو قسم بخدا ،میں عمر سے حیاء کرتے ہوئے کبھی بغیر سراپا بدن چھپائے نہ گئی۔(امام حاکم نے بھی اس حدیث کو روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔) (مشکوۃ المصابیح،باب زیارۃ القبور،ص:۱۵۴)

ایصال ثواب

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ.

ترجمہ: ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :ایک آدمی نے حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا :میری والدہ اچانک فوت ہوگئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقت نزاع)گفتگو کر سکتی تو صد قہ کرتی ۔اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے ثواب پہونچے گا آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں۔ (بخاری ،کتاب الجنائز،باب موت الفجأۃ البغتۃ، حدیث:۱۳۸۸،مسلم،حدیث:۱۰۰۴،ابوداود،حدیث:۲۸۸۱)

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- إِنَّ أَبِى مَاتَ وَتَرَكَ مَالاً وَلَمْ يُوصِ فَهَلْ يُكَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ قَالَ « نَعَمْ ».

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :ایک شخص نے حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا :میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے مال چھوڑا ہے مگر اس کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی کیا ہے ۔اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ صدقہ کرنا اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا ؟آپ ﷺ نے فر مایا :ہاں۔ (مسلم،کتاب الو صیۃ ،باب وصول ثواب الصدقات الی المیت،حدیث:۱۶۳۰،نسائی، حدیث:۳۶۵۲،ابن ماجہ، حدیث:۲۷۱۶،مسند احمد بن حنبل، حدیث:۸۸۲۸،صحیح ابن خز یمہ،حدیث: ۲۴۹۸)

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أُمَّهُ تُوُفِّيَتْ أَيَنْفَعُهَا إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ لِي مِخْرَافًا وَأُشْهِدُكَ أَنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا.

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :ایک شخص نے عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺ!میری والدہ انتقال کر چکی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا وہ اسے کوئی نفع دے گا ؟آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں۔اس نے عرض کیا :میرے پاس ایک باغ ہے آپ گواہ رہے میں نے یہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کردیا۔ (بخاری،کتاب الوصایا،باب اذا وقف ارضا ولم یبین الحدود فھو جائز و کذالک الصدقۃ،حدیث:۲۷۷۰،ترمذی ،حدیث:۶۶۹، ابوداود،حدیث: ۲۸۸۲،نسائی،حدیث:۳۶۵۵)

عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّى مَاتَتْ أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا قَالَ « نَعَمْ ». قُلْتُ فَأَىُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ قَالَ : سَقْىُ الْمَاءِ ۔

تر جمہ : حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی والدہ انتقال کر گئی تو انہوں نے عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺ!میری والدہ انتقال کر گئی ہے ۔کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں ؟فر مایا :ہاں !انہوں نے عرض کیا :تو کونسا صدقہ بہتر رہے گا؟آپ ﷺ نے فرمایا:پانی پلانا۔پس مدینہ منورہ میں یہ سعد کی پانی کی سبیل ہے۔ (نسائی،کتاب الوصایا ،باب ذکر الاختلاف علی سفیان ،حدیث:۳۶۶۴،۳۶۶۶،ابن ماجہ،حدیث:۳۶۸۴،مسند احمد بن حنبل،حدیث:۲۲۵۱۲)

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاأَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ جَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ فَلَمْ تَحُجَّ حَتَّى مَاتَتْ أَفَأَحُجُّ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ حُجِّي عَنْهَا أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ أَكُنْتِ قَاضِيَةً اقْضُوا اللَّهَ فَاللَّهُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ.

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلئہ جحنیہ کی ایک خاتون نے حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا :میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی یہاں تک انتقال کر گئی ۔کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟فر مایا :ہاںتم اس کی طرف سے حج کرو۔بھلا بتائو اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں ؟اللہ تعالی کا حق ادا کیا کرو،کیو نکہ اللہ تعالی زیادہ حقدار ہے کہ اس سے وفاء کی جائے۔ (بخاری، کتاب الجزاء الصید ،باب الحج والنذور عن المیت والرجل یحج عن المرأۃ،حدیث: ۱۸۵۲، سنن النسائی،کتاب مناسک الحج ،باب الحج عن المیت الذی نذر ان یحج،حدیث: ۲۶۳۲،صحیح ابن خزیمہ،حدیث:۳۰۴۱)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ - رضى الله عنه - قَالَ بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذْ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ إِنِّى تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّى بِجَارِيَةٍ وَإِنَّهَا مَاتَتْ - قَالَ - فَقَالَ « وَجَبَ أَجْرُكِ وَرَدَّهَا عَلَيْكِ الْمِيرَاثُ ». قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ كَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ أَفَأَصُومُ عَنْهَا قَالَ « صُومِى عَنْهَا ».قَالَتْ إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ أَفَأَحُجُّ عَنْهَا قَالَ « حُجِّى عَنْهَا ».

تر جمہ: حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ: میں حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں بیٹھا ہواتھا کہ ایک عورت نے حاضر ہو کرعرض کیا:میں نے اپنی ماں کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی اور اب میری ماں فوت ہوگئی ہے ۔آپ ﷺ نے فر مایا:تمہیں ثواب مل گیا اور وراثت نے وہ باندی تمہیں لوٹادی ہے۔اس عورت نے عرض کیا :یارسول اللہ ﷺ!میری ماں پر ایک مہینے کے روزے باقی تھے کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟فر ما یا:ہاں،اس کی طرف سے روزے رکھو۔اس نے عرض کیا :میری ماں نے حج کبھی نہیں کیا تھا ،کیا میں اس کی طرف سے حج ادا کر لوں؟آپ ﷺ نے فر مایا :ہاں،اس کی طرف سے حج بھی ادا کرو۔ (مسلم،کتاب الصیام ،باب قضاء الصوم عن المیت، حدیث: ۱۱۴۹، تر مذی، حدیث:۶۶۷،سنن الکبری ،حدیث:۶۳۱۴،۶۳۱۶)

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ شَهِدْتُ مَعَ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- الأَضْحَى بِالْمُصَلَّى فَلَمَّا قَضَى خُطْبَتَهُ نَزَلَ عَنْ مِنْبَرِهِ فَأُتِىَ بِكَبْشٍ فَذَبَحَهُ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِيَدِهِ وَقَالَ « بِسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ هَذَا عَنِّى وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِى ».

تر جمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:میں عید الاضحی کی نماز میں حضور اکرم ﷺکے ساتھ حاضر تھا ،جب آپ ﷺ نے خطبہ مکمل کر لیا تو منبر سے اترے ،تو دو مینڈھا لایا گیا ،اسے حضور ﷺنے اپنے ہاتھوں سے ذبح کیا اور کہا: بسم اللہ واللہ اکبر ، یہ میری طرف سے ہے اور میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے جنہوں نے قربانی نہیں کی۔ (تر مذی ،کتاب الاضاحی عن رسول اللہ ﷺ،باب۲۲،حدیث: ۱۵۲۱)

عَنْ عَلِىٍّ أَنَّهُ كَانَ يُضَحِّى بِكَبْشَيْنِ أَحَدُهُمَا عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- وَالآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ فَقِيلَ لَهُ فَقَالَ أَمَرَنِى بِهِ يَعْنِى النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- - فَلاَ أَدَعُهُ أَبَدًا.

ترجمہ: حضرت حنش روایت کرتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہ:وہ دو مینڈھوں کی قر بانی کیا کرتے تھے ،ایک نبی ﷺکی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے،جب ان سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: اس کا حکم مجھے حضور نبی کریم ﷺنے دیا تو میں کبھی اس کو نہ چھوڑوں گا۔ (ترمذی،کتاب الاضاحی عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجاء فی الاضحیۃ عن المیت،حدیث:۱۴۹۵)

عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ فَلَا تَحْبِسُوهُ وَأَسْرِعُوا بِهِ إِلَى قَبْرِهِ وَلْيُقْرَأْ عِنْدَ رَأْسِهِ فَاتِحَةُ الْكِتَابِ وَعِنْدَ رِجْلَيْهِ بِخَاتِمَةِ الْبَقَرَةِ فِي قَبْرِهِ.

تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:میں نے نبی ﷺکو فر ماتے ہوئے سناکہ:جب تم میں سے کو ئی انتقال کرجائے تو اس کو روکے مت رکھو،اس کو جلد اس کے قبر کی طرف لے جائو ،اور دفن کے بعد اس کے سر کے پاس سورہ فاتحہ اور پائتانے سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھو۔ (شعب الایمان للبیہقی،باب الصلاۃ علی من مات من اھل القبلۃ،حدیث:۸۸۵۴)

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَيَّاشِ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا الْمَيِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ أَخٍ أَوْ صَدِيقٍ فَإِذَا لَحِقَتْهُ كَانَ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيُدْخِلُ عَلَى أَهْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْأَرْضِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ وَإِنَّ هَدِيَّةَ الْأَحْيَاءِ إِلَى الْأَمْوَاتِ الِاسْتِغْفَارُ لَهُمْ ".

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عیاش سے مروی ہے کہ: نبی کریم ﷺ نے فر مایا:میت قبر میں سمندر میں ڈوبتے ہوئے شخص کی طرح ہوتا ہے، وہ انتظار کرتا رہتا ہے دعا کا جو اس کے باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے پہونچے۔تو جب اِن کی طرف سے اسے پہونچ جاتا ہے تو یہ اسے پوری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ،سے زیادہ محبوب ہوتا ہے۔اور بے شک اللہ عز وجل زمین والوں کی دعا کو مردوں پر پہاڑوں کی طرح بڑا کر کے داخل کرتا ہے ۔اور بے شک زندوں کا تحفہ مردوں کے لئے ان کے لئے استغفار کر نا ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی،باب الصلاۃ علی من مات من اھل القبلۃ،حدیث:۸۸۵۵)

گستاخوں کی پہچان

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي نُعْمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْيَمَنِ بِذُهَيْبَةٍ فِي أَدِيمٍ مَقْرُوظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا قَالَ فَقَسَمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ بَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ وَأَقْرَعَ بْنِ حابِسٍ وَزَيْدِ الْخَيْلِ وَالرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَةُ وَإِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ كُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلَاءِ قَالَ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَلَا تَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً قَالَ فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ نَاشِزُ الْجَبْهَةِ كَثُّ اللِّحْيَةِ مَحْلُوقُ الرَّأْسِ مُشَمَّرُ الْإِزَارِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ قَالَ وَيْلَكَ أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الْأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اللَّهَ قَالَ ثُمَّ وَلَّى الرَّجُلُ قَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَهُ قَالَ لَا لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ يُصَلِّي فَقَالَ خَالِدٌ وَكَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ وَلَا أَشُقَّ بُطُونَهُمْ قَالَ ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ فَقَالَ إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبًا لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ وَأَظُنُّهُ قَالَ لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ. [وفی روایۃ ابی داؤد]يَقْتُلُونَ أَهْلَ الإِسْلاَمِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الأَوْثَانِ لَئِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُمْ قَتَلْتُهُمْ قَتْلَ عَادٍ ».

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا ،جس سے ابھی مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔حضور ﷺنے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم فر مادیا، عیینہ بن بدر،اقرع بن حابس ،زید بن خیل،اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان۔اس پر آپ ﷺ کے اصحاب میں سے کسی نے کہا:ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔جب یہ بات حضور نبی کریم ﷺتک پہونچی تو آپ ﷺنے فرمایا:کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے ؟حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں ،اس کی خبریں تو میرے پاس صبح وشام آتی رہتی ہیں ،راوی بیان کرتے ہیں کہ :پھر ایک آدمی کھڑا ہوگیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں ،چہرے کی ہڈیاں ابھری ہوئیں ،اونچی پیشانی،گھنی داڑھی ،سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا،وہ کہنے لگا:یارسول اللہ !اللہ سے ڈرئیے،آپ ﷺنے فر مایا: تو ہلاک ہو،کیا میں تمام اہل زمین سے زیادہ اللہ سے ڈرنے کا حقدار نہیں ہوں ؟پھر جب وہ آدمی جانے کے لئے پلٹا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا:یا رسول اللہ ﷺ !میں اس کی گردن نہ اڑادوں ؟آپ ﷺنے فر مایا:ایسا نہ کرو ،شاید یہ نمازی ہو،حضرت خالد بن ولید نے عرض کیا:بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں ۔راوی کا بیان ہے کہ: وہ پلٹا تو آپ ﷺ نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فر مایا:اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب سے زبان تر رکھیں گے ،لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا ۔دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے،راوی کہتے ہیں :میرا خیال ہے کہ آ پ ﷺنے یہ بھی فر مایاکہ:اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو قوم ثمود کی طرح قتل کردوں۔اور ابوداود کی روایت میں ہے کہ:وہ لوگ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بتوں کے پوجنے والوں کو چھوڑیں گے۔ (بخاری ،کتاب المغازی،باب بعث علی بن ابی طالب وخالد بن ولید الی الیمن قبل حجۃ الوداع،حدیث:۴۳۵۱، سنن ابی داود، کتاب السنۃ، باب فی قتال الخوارج ،حدیث:۴۷۶۳)

أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْسِمُ قِسْمًا أَتَاهُ ذُو الْخُوَيْصِرَةِ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اعْدِلْ فَقَالَ وَيْلَكَ وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ قَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ إِنْ لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي فِيهِ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَقَالَ دَعْهُ فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ.

تر جمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: حضور نبی اکرم ﷺمال غنیمت تقسیم فر مارہے تھے کہ عبد اللہ بن ذو الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا :یارسول اللہ !انصاف سے تقسیم کیجئے ،حضور نبی کریم ﷺ نے فر مایا:تیرے لئے بربادی ہو، اگر میں انصاف نہیں کروں گاتو اور کون انصاف کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:یارسول اللہ ﷺ!اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑادوں ،فر مایا:رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہوں گےکہ ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانوگے ۔لیکن وہ لوگ دین سے اس طر ح نکل جائیں گے جیسے تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔ (بخاری،کتاب المنا قب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام،حدیث:۳۶۱۰،و کتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین و قتالھم ،حدیث : ۶۹۳۳،مسلم،حدیث:۱۰۶۴)

عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَأَنْ أَخِرَّ مِنْ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَكْذِبَ عَلَيْهِ وَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ فَإِنَّ الْحَرْبَ خَدْعَةٌ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَأْتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ حُدَثَاءُ الْأَسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ يَمْرُقُونَ مِنْ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ لَا يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

تر جمہ : حضرت سوید بن غفلہ نے بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا، جب تم سے کوئی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے میں بیان کروں تو یہ سمجھو کہ میرے لیے آسمان سے گر جانا اس سے بہتر ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی جھوٹ باندھوں البتہ جب میں اپنی طرف سے کوئی بات تم سے کہوں تو لڑائی تو تدبیر اور فریب ہی کا نام ہے۔ دیکھو میں نے رسول اللہ ﷺکو فر ماتے ہوئے سنا کہ:آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جو نو عمر،عقل سے کورے ہوں گے،وہ مخلوق میں سب سے بہتر کی باتیں بیان کریں گے[یعنی حدیث بیان کریں گے ] ،مگراسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، ایمان ان کے حلق سے نیچے نہ اُترے گا ،پس تم انہیں جہاں کہیں پاؤ تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن بڑا ثواب ملے گا۔(بخاری،کتاب المنا قب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام،حدیث:۳۶۱۱،مسلم،حدیث:۱۰۶۶،ترمذی ، حدیث:۲۱۸۸،سنن نسائی،حدیث:۴۱۰۲،ابن ماجہ،حدیث:۱۶۸)

عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ : « سَيَكُونُ فِى أُمَّتِى اخْتِلاَفٌ وَفُرْقَةٌ قَوْمٌ يُحْسِنُونَ الْقِيلَ وَيُسِيئُونَ الْفِعْلَ وَيَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ لاَ يَرْجِعُونَ حَتَّى يَرْتَدَّ عَلَى فُوقِهِ هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ طُوبَى لِمَنْ قَتَلَهُمْ وَقَتَلُوهُ يَدْعُونَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِى شَىْءٍ مَنْ قَاتَلَهُمْ كَانَ أَوْلَى بِاللَّهِ مِنْهُمْ ». قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا سِيمَاهُمْ قَالَ : « التَّحْلِيقُ ».

تر جمہ: حضرت ابو سعید خدری اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:عنقریب میری امت میں اختلاف اور تفر قہ بازی ہوگی ،ایک قوم ایسی ہوگی کہ وہ بات کے اچھے اور کردار کے برے ہوں گے ،قرآن پڑھیں گے جو ان کے گلے سے نہیں اترے گا ،وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے اور وہ واپس نہیں آئیں گے جب تک کہ تیر کمان میں واپس نہ آجائے ،وہ لوگ ساری مخلوق میں سب سے برے ہوں گے ،خوشخبری ہو اسے جو انہیں قتل کریں گے اور جسے وہ قتل کریں ،وہ اللہ کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ ہوگا ،ان کا قاتل ان کی بہ نسبت اللہ تعالی کے زیادہ قریب ہوگا ،صحابہ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ !ان کی نشانی کیا ہے؟فر مایا:سر منڈوانا ۔ (سنن ابی داود، کتاب السنۃ،باب فی قتل الخوارج ،حدیث: ۴۷۶۵)

عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّمَا أَتَخَوَّفُ عَلَيْكُمْ رَجُلاً قَرَأَ الْقُرْآنَ حَتَّى إِذَا رُئِيَ عَلَيْهِ بَهْجَتُهُ ، وَكَانَ رِدْءًا لِلإِسْلاَمِ اعْتَزَلَ إِلَى مَا شَاءَ اللَّهُ ، وَخَرَجَ عَلَى جَارِهِ بِسَيْفِهِ ، وَرَمَاهُ بِالشِّرْكِ.وَهَذَا الْحَدِيثُ بِهَذَا اللَّفْظِ لاَ نَعْلَمُهُ يُرْوَى إِلاَّ عَنْ حُذَيْفَةَ بِهَذَا الإِسْنَادِ ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

تر جمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:بے شک جس چیز کا مجھے تم پرڈر ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اللہ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا رہا ،پھر وہ اس قرآن سے دور ہو گیااور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگادیا۔ (مسند البزار،جلد :۷،ص :۲۲۰،اول مسند حذیفہ ،جندب بن عبد اللہ عن حذیفہ ،حدیث:۲۷۹۳)

وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللَّهِ وَقَالَ إِنَّهُمْ انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْكُفَّارِ فَجَعَلُوهَا عَلَى الْمُؤْمِنِينَ.

ترجمہ: امام بخاری نے باب کے عنوان کے طور پر یہ حدیث روایت کی کہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان (خوارج)کو اللہ تعالی کی بد ترین مخلوق سمجھتے تھے(کیونکہ)وہ لوگ ان آیتوں کو جو کافروں کے بارے میں نازل ہوئیں مسلمانوں پر چسپاں کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین و قتالھم، باب قتل الخوارج والملحدین بعد اقامۃ الحجۃ علیھم)

نماز کی فضیلت

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم - أَىُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ قَالَ « الصَّلاَةُ عَلَى وَقْتِهَا » . قَالَ ثُمَّ أَىُّ قَالَ « ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ » . قَالَ ثُمَّ أَىُّ قَالَ : الْجِهَادُ فِى سَبِيلِ اللَّهِ .

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ: میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا: کونسا عمل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپ ﷺ نے فر مایا: وقت پر نماز پڑھنا، میں نے کہا پھر کونسا؟ فرمایا: پھر والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا،میں نے کہا: پھر کونسا؟ فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ [بخاری،کتاب مواقیت الصلوٰۃ،باب فضل الصلاۃ لوقتھا،حدیث:۵۲۷]

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ : خَمْسُ صَلَوَاتٍ كَتَبَهُنَّ اللَّهُ عَلَى الْعِبَادِ مَنْ جَاءَ بِهِنَّ لَمْ يُضَيِّعْ مِنْهُنَّ شَيْئًا اسْتِخْفَافًا بِحَقِّهِنَّ كَانَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ وَمَنْ لَمْ يَأْتِ بِهِنَّ فَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ وَإِنْ شَاءَ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ .

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ نمازیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بندوں پر فرض کی ہیں، جو آدمی انھیں ادا کرے، ان میں سے کسی کو ان کی حیثیت ہلکی سمجھ کر ضائع نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کے لیے وعدہ ہوچکا ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور جو شخص ان کو ادا نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کے لیے کوئی عہد نہیں۔ چاہے اسے عذاب دے، چاہے جنت میں داخل کرے۔ [سنن نسائی،کتاب الصلوٰۃ،باب المحافظۃ علی الصلوات الخمس،حدیث:۴۶۱]

عَنْ حُرَيْثِ بْنِ قَبِيصَةَ قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ قَالَ قُلْتُ اللَّهُمَّ يَسِّرْ لِى جَلِيسًا صَالِحًا فَجَلَسْتُ إِلَى أَبِى هُرَيْرَةَ - رضى الله عنه - قَالَ فَقُلْتُ إِنِّى دَعَوْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُيَسِّرَ لِى جَلِيسًا صَالِحًا فَحَدِّثْنِى بِحَدِيثٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَنِى بِهِ. قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ « إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ بِصَلاَتِهِ فَإِنْ صَلَحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ ».

تر جمہ : حضرت حریث بن قبیصہ بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ آیا تو میں نے دعا کیا" یا اللہ ! مجھے نیک ہم نشیں عطا فرما،تو میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ،اور میں نے اُن سے کہا کہ میں نے اللہ عزوجل سے دعا کی وہ مجھے نیک ہم نشیں عطا فر مائے تو مجھ سے آپ کوئی ایسی حدیث بیان کر یں جو آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ،شاید اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہونچائے ۔تو انہوں فر مایا کہ :میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فر ماتے ہوئے سنا ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا۔ اگروہ صحیح رہا [یعنی شرائط، اَرکان اور وقت کے مطابق ادا کیا ہوگا] تو وہ شخص ضرور کامیاب ہوگا اور نجات پائے گا۔ اور اگر اس کا معاملہ خراب رہا تو وہ ناکام اور نامُراد ہوگا۔ [سنن نسائی،کتاب الصلوٰۃ،باب المحاسبۃ علی الصلوات ،حدیث:۴۶۵]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ فُرِضَتْ عَلَى النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- لَيْلَةَ أُسْرِىَ بِهِ الصَّلَوَاتُ خَمْسِينَ ثُمَّ نُقِصَتْ حَتَّى جُعِلَتْ خَمْسًا ثُمَّ نُودِىَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّهُ لاَ يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَىَّ وَإِنَّ لَكَ بِهَذِهِ الْخَمْسِ خَمْسِينَ.

تر جمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: حضور نبی کریم ﷺ پر معراج کی رات پچاس وقت کی نماز فر ض کی گئیں،پھر کمی کر پانچ کردی گئیں پھر ندا دی گئی" یا محمد [ﷺ] بے شک میری باتیں بدلی نہیں جاتی، اور بے شک اِن پانچ میں آپ کے لئےپچاس وقت کی نماز کا ثواب ہے۔ [ترمذی،کتاب الصلوٰۃ،باب ماجاء کم فرض اللہ علیٰ عبادہ من الصلوات،حدیث:۲۱۳،بخاری ،حدیث: ۳۲۰۷، مسلم، حدیث:۱۶۲]

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ « أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ ، يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا ، مَا تَقُولُ ذَلِكَ يُبْقِى مِنْ دَرَنِهِ » . قَالُوا لاَ يُبْقِى مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا . قَالَ « فَذَلِكَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ ، يَمْحُو اللَّهُ بِهَا الْخَطَايَا » .

تر جمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا: بتاؤ! اگر تم میں سے کسی کے دروازے کے پاس نہر ہو اور وہ اُس میں ہر دن پانچ بار غسل کرے، تو تم کیا کہتے ہو،کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل باقی رہے گا؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: اس کے جسم پر کچھ بھی میل باقی نہیں رہے گا۔آقا کریم ﷺ نے فرمایا:یہی مثال ہے پانچوں نمازوں کی، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ [بخاری،کتاب مواقیت الصلوٰۃ،باب الصلوات الخمس کفارۃ،حدیث:۵۲۸]

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ : الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ كَفَّارَاتٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ مَا لَمْ تُغْشَ الْكَبَائِرُ .

تر جمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا: پانچوں وقت کی نماز اور جمعہ دوسرے جمعہ تک ،اُن گناہوں کے لئے کفارہ ہو جاتے ہیں جو اُن کے درمیان ہو جب کہ وہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کرے۔ [ترمذی،کتاب الصلوٰۃ،باب ماجاء فی فضل الصلوات الخمس،حدیث:۲۱۴،مسلم،حدیث:۲۳۳]

حَدَّثَنَا أَبُو عُقَيْلٍ، أَنَّهُ سَمِعَ الْحَارِثَ، مَوْلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ: جَلَسَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَجَلَسْنَا مَعَهُ، فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ، فَدَعَا عُثْمَانُ بِمَاءٍ أَظُنُّهُ سَيَكُونُ مُدٌّ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ ثُمَّ قَالَ: " مَنْ تَوَضَّأَ مِثْلَ وُضُوئِي هَذَا، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى صَلَاةَ الظُّهْرِ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ الصُّبْحِ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ الظُّهْرِ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعَصْرِ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ، ثُمَّ لَعَلَّهُ يَبِيتُ يَتَمَرَّغُ لَيْلَتَهُ، فَإِنْ قَامَ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى الصُّبْحَ غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَها وَبَيْنَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ، وَهِيَ الْحَسَنَاتُ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ "، قَالُوا: هَذِهِ الْحَسَنَاتُ فَمَا الْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ يَا عُثْمَانُ ؟ قَالَ: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَسُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ "

تر جمہ : ابو عقیل بیان کرتے ہیں کہ انہوں حارث سے سنا جو حضرت عثمان بن عفان کے آزاد کردہ غلام ہیں: حارث کہتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی بیٹھے،میں بھی اُن کے ساتھ بیٹھا،تو مؤذن آیا، پھر حضرت عثمان غنی نے وضو کے لئے پانی منگایا،اور میں گمان کرتا ہوں کہ پانی ایک مد رہا ہوگا،[ مد، ایک مقدار ہے،جدید وزن کے حساب سے ۶۰۰ گرام کو ایک مد کہتے ہیں] پھر حضرت عثمان غنی نے فرمایا کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا،اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ: جس نے میری اِس وضو کرنے کی طرح وضو کیا اور ظہر کی نماز ادا کیا تو صبح سے اس وقت کے درمیان میں جو گناہ ہوئے بخش دیا جائے گا،پھر عصر پڑھا تو ظہر سے عصر کے درمیانی وقت میں جو گناہ ہوئے،بخش دیا جائے گا،پھر مغرب پڑھا تو عصر اور مغرب کے درمیان میں جو گناہ ہوئے، بخش دیا جائے گا،پھر عشاء پڑھا تو مغرب اور عشاء کے درمیان جو گناہ ہوئے،بخش دیا جائے گا،پھر وہ شاید اپنی رات سو کر یا اونگھتے ہوئے گزارے،پھر اگر وہ بیدار ہوجائے اور وضو کرکے فجر کی نماز ادا کرے تو عشاء اور فجر کے درمیان ہوئے گناہ کو بخش دیا جائے گا، یہی نیکیاں ہیں جو برائیوں کو دور کر دیتی ہیں،[جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے] لوگوں نے کہا: یا عثمان ، یہ حسنات یعنی نیکیاں ہیں،تو باقیات صالحات [جس کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے] وہ کیا ہیں؟ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ " لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، سُبْحَانَ اللهِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اور لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ " ہے۔ [شعب الایمان،کتاب الصلوٰۃ،فصل فی الصلوات ومافی ادائھن من الکفارات،حدیث:۲۵۶۰]

عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : اسْتَقِيمُوا ، وَلَنْ تُحْصُوا ، وَاعْلَمُوا أَنَّ خَيْرَ أَعْمَالِكُمُ الصَّلاَةُ ، وَلاَ يُحَافِظُ عَلَى الْوُضُوءِ إِلاَّ مُؤْمِنٌ.

تر جمہ : حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا: سیدھے راستے پر قائم رہو ، اور تم ہر گز [اُس طرح سے جیساکہ اس کا حق ہے] قائم نہیں رہ سکتے، اور جان لو کہ تمہارے اعمال میں سب سے بہتر عمل نماز ہے، اور وضو کی حفاظت[پابندی] مومن ہی کرتا ہے۔ [ابن ماجہ،کتاب الطہارۃ،باب المحافظۃ علی الوضوء،حدیث:۲۷۷]

عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ زَمَنَ الشِّتَاءِ وَالْوَرَقُ يَتَهَافَتُ فَاَخَذَ بِغُصْنَيْنِ مِنْ شَجَرَةٍ، قَالَ : فَجَعَلَ ذَلِکَ الْوَرَقُ يَتَهَافَتُ، قَالَ : فَقَالَ : يَا أَبَا ذَرٍّ قُلْتُ : لَبَّيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ : إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ لَيُصَلِّ الصَّلَاةَ يُرِيْدُ بِهَا وَجْهَ اﷲِ فَتَهَافَتُ عَنْهُ ذُنُوْبُهُ کَمَا يَتَهَافَتُ هَذَا الْوَرَقُ عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ.

تر جمہ : حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موسمِ سرما میں جب پتے (درختوں سے) گر رہے تھے باہر نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک درخت کی دو شاخوں کو پکڑ لیا، ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : شاخ سے پتے گرنے لگے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پکارا : اے ابو ذر! میں نے عرض کیا : لبیک یا رسول اﷲ ﷺ!حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمان بندہ جب نماز اس مقصد سے پڑھتا ہے کہ اسے اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑ تے ہیں جس طرح یہ پتے درخت سے جھڑرہے ہیں۔ [مسند احمد بن حنبل،مسند الانصار،حدیث المشائخ عن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ،۵/۱۷۹،حدیث:۲۱۵۹۶]

عن سهل بن سعد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ساعتان تفتح فيهما أبواب السماء عند حضور الصلاة وعند الصف في سبيل الله

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا: دو وقت آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں،نماز کے وقت اور اللہ کے راستے میں جنگ کے لئے صف بندی کرنے کے وقت۔ [ٍصحیح ابن حبان،باب فضل الصلوات الخمس، ذکر فتح أبواب السماء عند دخول أوقات الصلوات المفروضات ، حدیث:۲۷۷]

ترک نماز کی مذمت

عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلَاةِ

حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: بے شک انسان اور (اس کے) کفر و شرک کے درمیان (فرق) نماز کا چھوڑدینا ہے۔ [ مسلم، کتاب الإيمان، باب بیان إطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاة، رقم الحدیث: ۸۲]

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: اَلْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَکَهَا فَقَدْ کَفَرَ

حضرت عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہمارے اور ان (کافروں) کے درمیان عہد (ضمانت) نماز ہی ہے، جس نے اسے چھوڑا اس نے کفر کیا (یعنی کافروں جیسا عمل کیا)۔ [سنن الترمذي | أَبْوَابُ الْإِيمَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الصَّلَاةِ رقم الحديث :۲۶۲۱]

عَبْدِ اﷲِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ قَالَ: کَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الْأَعْمَالِ تَرْکُهُ کُفْرٌ غَيْرَ الصَّلَاةِ

حضرت عبد اللہ بن شقیق العقیلی فرماتے ہیں کہ: حضرت محمد (مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے اصحاب نمازعلاوہ کسی دوسرے عمل کے ترک کو کفر نہیں گردانتے تھے۔ [سنن الترمذي | أَبْوَابُ الْإِيمَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الصَّلَاةِ رقم الحديث :۲۶۲۲]

عَنْ انسُ رضی الله عنه: قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ تَرَکَ الصَّلَاةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ کَفَرَ جِهَارًا

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی (گویا) اس نے اِعلانیہ کفر کیا۔[المعجم الأوسط للطبراني ،من اسمہ جعفر ، جزء:۳،ص:۳۴۳، رقم الحدیث:۳۳۴۸ ]

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه، قَالَ: أَوْصَانِي خَلِیلِي صلی الله عليه وآله وسلم: أَنْ لَا تُشْرِکْ بِاﷲِ شَيْئًا وَإِنْ قُطِّعْتَ وَحُرِّقْتَ، وَلَا تَتْرُکْ صَلَاةً مَکْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا، فَمَنْ تَرَکَهَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ، وَلَا تَشْرَبِ الْخَمْرَ، فَإِنَّهَا مِفْتَاحُ کُلِّ شَرٍّ.

ترجمہ : حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: مجھے میرے خلیل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصیت فرمائی: تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا چاہے تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں اور تجھے جلا دیا جائے،اور جان بوجھ کر کوئی فرض نماز نہ چھوڑنا کیونکہ جو جان بوجھ کر نماز چھوڑتا ہے اس سے( اللہ تعالیٰ کا) ذمہ ختم ہوجاتا ہے،اور شراب نہ پیناکیونکہ شراب تمام برائیوں کی چابی ہے۔ (یعنی شراب نوشی سے برائیوں کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں)۔[ابن ماجه ، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء، رقم الحدیث:۴۰۳۴]

عَنْ عِكْرِمَةَ : أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ لَمَّا سَقَطَ فِى عَيْنَيْهِ الْمَاءُ أَرَادَ أَنْ يُخْرِجَهُ مِنْ عَيْنَيْهِ ، فَقِيلَ لَهُ : إِنَّكَ تَسْتَلْقِى سَبْعَةَ أَيَّامٍ لاَ تُصَلِّى إِلاَّ مُسْتَلْقِيًا. قَالَ : فَكَرِهَ ذَلِكَ وَقَالَ : إِنَّهُ بَلَغَنِى أَنَّهُ مَنْ تَرَكَ الصَّلاَةَ وَهُوَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يُصَلِّىَ لَقِىَ اللَّهَ تَعَالَى وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ.

حضرت عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی آنکھوں میں موتیابِند ہوئی تو انہوں نے آپریشن کرانے کا ارادہ کیا تو اُن سے کہا گیا کہ:آپ سات دن تک لیٹ کر رہیں گے اور نماز بھی لیٹ ہی کر ادا کرنا ہوگا،تو انہوں نے اسے ناپسند کیا اور فرمایا:مجھ تک یہ بات پہونچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز ادا کرنے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی چھوڑدی وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس سے ناراض ہو گا۔ [السنن الکبریٰ للبیھقی،کتاب الصلاۃ،باب من وقع فی عینیہ الماء،حدیث:۳۸۳۵]

قَالَ الْحَسَنُ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : مَنْ تَرَكَ صَلاةً مَكْتُوبَةً حَتَّى تَفُوتَه مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ.

حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے بغیر عذر کے فرض نماز چھوڑی اس کے عمل اکارت گئے / برباد ہوئے۔[مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الایمان والرویاء،باب:۶، حدیث :۳۱۰۳۹]

عن عبد الله بن عمرو عن النبي صلى الله عليه و سلم : أنه ذكر الصَّلَاةَ يَوْمًا فَقَالَ: " مَنْ حَافَظَ عَلَيْهَا كَانَتْ لَهُ نُورًا وَبُرْهَانًا وَنَجَاةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ لَمْ يُحَافِظْ عَلَيْهَا لَمْ تَكُنْ لَهُ نُورًا وَلَا بُرْهَانًا وَلَا نَجَاةً، وَكَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ فِرْعَوْنَ، وَقَارُونَ، وَهَامَانَ، وأبي بن خلف

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی کریم ﷺ نے نماز کا ذکر کیاتو ارشاد فرمایا: جس نے اس کی پابندی کی اُس کے لئے قیامت کے دن نور،برہان اور نجات ہوگی اور جس نے اس کی پابندی نہیں کی تو اس کے لئے نور ہوگا نہیں برہان اور نجات،وہ قیامت کے دن فرعون،قارون،ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ [مسند احمد،مسند المکثرین من الصحابہ ،مسند عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما،حدیث:۶۵۷۵]

عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ عِنْدَ اللهِ فِي الْإِسْلَامِ ؟ قَالَ: " الصَّلَاةُ لِوَقْتِهَا، وَمَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ فَلَا دِينَ لَهُ، وَالصَّلَاةُ عِمَادُ الدِّينِ

حضرت عمررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! اسلام میں اللہ کے نزدیک سب سے محبوب چیز کونسی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وقت پر نماز ادا کرنا، اور جس نے نماز چھوڑ دیا تو اس کا کوئی دین نہیں،اور نماز دین کا ستون ہے۔[شعب الایمان،کتاب الصلاۃ،حدیث:۲۵۵۰]

سنت ونفلی نمازوں کی تعداد اور ان کی اہمیت وفضیلت

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَىْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِى الْجَنَّةِ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ .

ترجمہ : سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص ہمیشہ بارہ رکعت سنت پڑھتا رہے گا اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لئے ایک مکان بنائے گا، چار رکعت ظہر سے پہلے دو ظہر کے بعد دو رکعتیں مغرب کے بعد دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے۔ [ترمذی،کتاب الصلاۃ ،باب ماجاء فیمن صلی فی یوم ولیلۃ ، حدیث :۴۱۴]

عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يُصَلِّي لِلَّهِ كُلَّ يَوْمٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً تَطَوُّعًا غَيْرَ فَرِيضَةٍ إِلَّا بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ أَوْ إِلَّا بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ قَالَتْ أَمُّ حَبِيبَةَ فَمَا بَرِحْتُ أُصَلِّيهِنَّ بَعْدُ و قَالَ عَمْرٌو مَا بَرِحْتُ أُصَلِّيهِنَّ بَعْدُ

ترجمہ :حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ: جو مسلمان بندہ روزانہ اللہ کے لئے بارہ رکعتیں نفل نماز پڑھتا ہے،فرض نمازوں کے علاوہ ،تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہےیا (فرمایا کہ) اس کے لئے جنت میں گھر بنایا جائے گا، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اس کے بعد سے ان نمازوں کو ہمیشہ پڑھتی رہی ہوں ، عمرو نے بھی اپنی روایت میں اسی طرح کہا ہے۔ [مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب فضل السنن الراتبہ قبل الفرائض وبعد ھن وبیان عددھن ، حدیث :۷۲۸]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَطَوُّعِهِ فَقَالَتْ كَانَ يُصَلِّي فِي بَيْتِي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا ثُمَّ يَخْرُجُ فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ الْمَغْرِبَ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَيُصَلِّي بِالنَّاسِ الْعِشَاءَ وَيَدْخُلُ بَيْتِي فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ تِسْعَ رَكَعَاتٍ فِيهِنَّ الْوِتْرُ وَكَانَ يُصَلِّي لَيْلًا طَوِيلًا قَائِمًا وَلَيْلًا طَوِيلًا قَاعِدًا وَكَانَ إِذَا قَرَأَ وَهُوَ قَائِمٌ رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَائِمٌ وَإِذَا قَرَأَ قَاعِدًا رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَاعِدٌ وَكَانَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ

ترجمہ :عبداللہ بن شقیق سے روایت ہے کہ:انھوں نے کہا،میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نفل نماز کے بارے میں سوال کیا؟تو انھوں نے جواب دیا:آپ میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعت پڑھتے،پھر(گھر سے)نکلتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے،پھر گھر واپس آتے اور دو رکعتیں ادا فرماتے۔اور آپ لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھاتے پھر گھر آتے اور دو رکعت نماز پڑھتے،اور لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھاتے اور میرے گھر آتے اور دو رکعتیں پڑھتے،اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات میں نو رکعات پڑھتے ،ان میں وتر بھی شامل ہوتا،اور رات کو بڑی لمبی نماز پڑھتےکھڑے ہوکر اور بیٹھ کر ، اور جب کھڑے ہوکر قراءت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی کھڑے ہوکر کرتے اور جب بیٹھ کر قراءت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی بیٹھ کر کرتے اور جب فجر طلوع ہوتی تو دو رکعتیں پڑھتے۔ [مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب فضل السنن الراتبہ قبل الفرائض وبعد ھن وبیان عددھن ، حدیث :۷۳۰]

عَنْ عَائِشَةَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا

ترجمہ :سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فجر کی دورکعت [سنت ]دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ،اُن ساری چیزوں سے بہتر ہے۔ [مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب استحباب رکعتی سنۃ الفجر والحث علیھا وتخفیفھما،حدیث:۷۲۵]

عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ قَالَ لَمَّا نُزِلَ بِعَنْبَسَةَ جَعَلَ يَتَضَوَّرُ فَقِيلَ لَهُ فَقَالَ أَمَا إِنِّى سَمِعْتُ أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجَ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- تُحَدِّثُ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهُ قَالَ « مَنْ رَكَعَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَأَرْبَعًا بَعْدَهَا حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَحْمَهُ عَلَى النَّارِ ». فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ.

ترجمہ :حضرت حسان بن عطیہ سے منقول ہے کہ جب حضرت عنبسہ بن ابوسفیان کی وفات قریب ہوئی تو وہ تڑپنے لگے۔ ان سے کہا گیا (یعنی ان کو تسکین دی گئی) تو انھوں نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ محترمہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بیان فرماتے ہوئے سنا ہے: جس شخص نے ظہر سے پہلے چار رکعات اور ظہر کے بعد چار رکعات پڑھیں، اللہ تعالیٰ اس کا گوشت آگ پر حرام کر دے گا۔ جب سے میں نے یہ روایت سنی ہے، میں نے یہ رکعات نہیں چھوڑیں۔ [سنن نسائی،کتاب قیام اللیل وتطوع النھار،باب الاختلاف علی اسماعیل بن ابی خالد،حدیث:۱۸۱۲]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ : رَحِمَ اللَّهُ امْرَأً صَلَّى قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا .

ترجمہ :حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اُس بندے پر رحم فرمائے جو عصر سے پہلے چار رکعات پڑھتا ہے۔[ترمذی،کتاب الصلاۃ ،باب ماجاء فی الاربع قبل العصر، حدیث :۴۳۰]

عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال ( جئت ورسول الله صلى الله عليه و سلم قاعد في أناس من أصحابه فيهم عمر بن الخطاب رضي الله عنه فأدركت آخر الحديث ورسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من صلى أربع ركعات قبل العصر لم تمسه النار

ترجمہ :حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ میں آیا،اُس وقت اللہ کے رسول ﷺ اپنے صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے،اُن میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے،آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص عصر سے پہلے چار رکعات نماز[پابندی سے] پڑھے اُسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔ [المعجم الاوسط،جزء دوم،باب من اسمہ ابراہیم ، حدیث :۲۵۸۰]

عن محمد بن عمار بن ياسر قال رأيت عمار بن ياسر صلى بعد المغرب ست ركعات فقلت يا ابه ما هذه الصلاة قال رأيت حبيبي رسول الله صلى الله عليه و سلم صلى بعد المغرب ست ركعات وقال من صلى بعد المغرب ست ركعات غفرت له ذنوبه وإن كانت مثل زبد البحر

ترجمہ :حضرت محمد بن عمار بیان کرتے ہیں کہ: میں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ کو مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھتے ہوئے دیکھا،تو میں نے کہا: ائے والد محترم! یہ کونسی نماز ہے؟ انہوں نے کہا :میں نے اپنے حبیب ﷺ کو مغرب کے بعد چھ رکعات [دو دو کرکے] پڑھتے ہوئے دیکھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ: جس نے مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھی اس کے تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے اگر چہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔ [المعجم الاوسط،جزء:۷،ص:۱۹۱، باب المیم ، حدیث :۷۲۴۵]

عَنْ عَائِشَةَ - رضى الله عنها - قَالَ سَأَلْتُهَا عَنْ صَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَتْ مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- الْعِشَاءَ قَطُّ فَدَخَلَ عَلَىَّ إِلاَّ صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ أَوْ سِتَّ رَكَعَاتٍ وَلَقَدْ مُطِرْنَا مَرَّةً بِاللَّيْلِ فَطَرَحْنَا لَهُ نِطْعًا فَكَأَنِّى أَنْظُرُ إِلَى ثُقْبٍ فِيهِ يَنْبُعُ الْمَاءُ مِنْهُ وَمَا رَأَيْتُهُ مُتَّقِيًا الأَرْضَ بِشَىْءٍ مِنْ ثِيَابِهِ قَطُّ.

ترجمہ : شریح بن ہانی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ : میں نے ان سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ جب بھی عشاء کی نماز پڑھ کر میرے ہاں تشریف لاتے تو چار یا چھ رکعت پڑھتے ۔ ایک رات بارش ہو گئی ہم نے آپ ﷺ کے لیے چمڑا بچھا دیا ، پس گویا میں دیکھ رہی ہوں کہ اس کے ایک سوراخ سے پانی نکل رہا تھا ۔ اور میں نے آپ ﷺ کو کبھی نہیں دیکھا کہ ( اثنائے نماز میں ) اپنے کپڑوں کو مٹی سے بچاتے ہوں ۔[سنن ابوداؤد،کتاب التطوع،باب الصلاۃ بعد العشاء، حدیث :۱۳۰۳]

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ كَانَ يُصَلِّي ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي ثَمَانَ رَكَعَاتٍ ثُمَّ يُوتِرُ ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ فَرَكَعَ ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءِ وَالْإِقَامَةِ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ

ترجمہ : ابو سلمہ سے ر وایت ہے،انھوں نے کہا کہ:میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سوا ل کیا تو انھوں نے کہا آپ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے،آٹھ رکعتیں پڑھتے پھر وتر ادا فرماتے،پھر بیٹھے ہوئے دو رکعتیں پڑھتے،پھر جب رکوع کرنا چاہتے تو اٹھ کھڑے ہوتے اور رکوع کرتے،پھر صبح کی نماز کی اذان اور اقامت کے درمیا ن دو رکعتیں پڑھتے۔(کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز اس ترتیب سے بھی ادا فرما تے) [مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب صلاۃ اللیل وعدد رکعات النبی ﷺ فی اللیل الخ۔۔، حدیث :۷۳۸]

عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فِى سَفَرٍ فَقَالَ :إِنَّ السَّفَرَ جَهْدٌ وَثِقَلٌ فَإِذَا أَوْتَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ فَإِنِ اسْتَيْقَظَ وَإِلاَّ كَانَتَا لَهُ .

ترجمہ : حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ رسول اللہﷺ کے ہمراہ کسی سفر میں تھے آپ نے فرمایا: یہ سفر بہت مشقت طلب اور بھاری ہوتا ہے ،جب تم میں سے کوئی وترپڑھے تو اسے چاہیے کہ دورکعت بھی ان کے بعد پڑھ لے اگر تہجد کے لئے بیدار ہواتو زہے قسمت! اگر نہ اٹھ سکا تو یہ دورکعت اس کےلئے کافی ہوں گے۔ [سنن دارقطنی،کتاب الوتر،باب مایقراء فی رکعات الوتر والقنوت فیہ، حدیث :۱۷۰۰]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ يَرْكَعُ قَبْلَ الْجُمُعَةِ أَرْبَعًا ، لاَ يَفْصِلُ فِي شَيْءٍ مِنْهُنَّ.

ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: حضور نبی کریم ﷺ جمعہ سے پہلے چار رکعات نماز پڑھتے تھے،اور ان کے درمیان فصل نہیں کرتے تھے۔[یعنی ایک ساتھ چار رکعات ادا فرماتے تھے] [ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ،باب ماجاء فی الصلاۃ قبل الجمعۃ ، حدیث :۱۱۲۹]

عَنْ جَبَلَةَ بْنِ سُحَيْمٍ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا " أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الْجُمُعَةِ أَرْبَعًا , لَا يَفْصِلُ بَيْنَهُنَّ بِسَلَامٍ , ثُمَّ بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ أَرْبَعًا "

ترجمہ : حضرت جبلہ بن سحیم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جمعہ سے پہلے چار رکعات ایک ساتھ پڑھتے تھے،پھر جمعہ کے بعد دو پھر چار۔[شرح معانی الآثار،کتاب الصلاۃ،باب التطوع باللیل والنھار کیف ھو؟، حدیث :۱۹۶۵]

عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: " قَدِمَ عَلَيْنَا عَبْدُ اللهِ فَكَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ أَرْبَعًا فَقَدِمَ بَعْدَهُ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَكَانَ إِذَا صَلَّى الْجُمُعَةَ صَلَّى بَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ وَأَرْبَعًا فَأَعْجَبَنَا فِعْلُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَاخْتَرْنَاهُ " فَثَبَتَ بِمَا ذَكَرْنَا أَنَّ التَّطَوُّعَ الَّذِي لَا يَنْبَغِي تَرْكُهُ بَعْدَ الْجُمُعَةِ سِتٌّ , وَهُوَ قَوْلُ أَبِي يُوسُفَ رَحِمَهُ اللهُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُبْدَأَ بِالْأَرْبَعِ ثُمَّ يُثَنَّى بِالرَّكْعَتَيْنِ لِأَنَّهُ هُوَ أَبْعَدُ مِنْ أَنْ يَكُونَ قَدْ صَلَّى بَعْدَ الْجُمُعَةِ مِثْلَهَا عَلَى مَا قَدْ نُهِيَ عَنْهُ

ترجمہ : حضرت ابو عبد الرحمن سلمی بیان کرتے ہیں کہ: ہم لوگوں کے یہاں [کوفہ میں ]حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو وہ جمعہ کے بعد چار رکعات پڑھتے تھے،پھر اُن کے بعد حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے ، جب انہوں نے جمعہ کی نماز ادا فرمایا ،تو اس کے بعد دو رکعت اور چار رکعات پڑھا،تو ہم لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ عمل بھلا لگا اور ہم لوگوں نے اُسی کو اختیار کرلیا۔ اس روایت سے ثابت ہوا کہ جمعہ کے بعد چھ رکعات نماز ہیں جن کا چھوڑ دینا مناسب نہیں ہے۔اور یہی امام ابو یوسف کا قول ہے مگر امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ مجھے زیادہ پسند یہ ہے کہ جمعہ کے بعد پہلے چار پڑھی جائے پھر دو، کیونکہ یہ طریقہ جمعہ کے بعد اس کے مثل سے دور ہے جس سے منع کیا گیا۔ [شرح معانی الآثار،کتاب الصلاۃ،باب التطوع بعد الجمعۃ کیف ھو؟، حدیث :۱۹۸۰]

عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ: " أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يُصَلِّيَ بَعْدَ صَلَاةِ الْجُمُعَةِ مِثْلَهَا " قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَلِذَلِكَ اسْتَحَبَّ أَبُو يُوسُفَ رَحِمَهُ اللهُ أَنْ يُقَدِّمَ الْأَرْبَعَ قَبْلَ الرَّكْعَتَيْنِ لِأَنَّهُنَّ لَسْنَ مِثْلَ الرَّكْعَتَيْنِ فَكُرِهَ أَنْ يُقَدَّمَ الرَّكْعَتَانِ لِأَنَّهُمَا مِثْلُ الْجُمُعَةِ .

ترجمہ : حضرت خرشہ بن حر بیان کرتے ہیں کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ جمعہ کی نماز کے بعد اسی کے مثل[ دو رکعات]پڑھی جائے۔ امام ابو جعفر نے کہا کہ اِسی وجہ سے امام ابو یوسف نے مستحب قرار دیا کہ پہلے چار رکعات پڑھی جائے دو رکعات سے پہلے۔کیونکہ یہ چار رکعات جمعہ کی طرح دو نہیں ہیں،اور مکروہ قرار دیا گیا کہ پہلے دو پڑھے کیونکہ یہ جمعہ کے مثل ہے۔ [شرح معانی الآثار،کتاب الصلاۃ،باب التطوع بعد الجمعۃ کیف ھو؟، حدیث :۱۹۸۱]

رفع یدین

عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلاَ أُصَلِّى بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِى أَوَّلِ مَرَّةٍ.

ترجمہ: حضرت علقمہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا :کیا میں تم لو گوں کو رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھنے کی طرح نماز نہ پڑھا دوں؟پھر آپ نے نماز پڑھایا تو ہاتھ نہ اٹھایا مگر صرف پہلی مرتبہ(یعنی نماز شروع کر تے وقت)۔یہ حدیث صحیح ہے۔ اور امام ترمذی نے کہا بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور تابعین اسی کے قائل ہیں۔ (تر مذی ،کتاب الصلاۃ ،باب ماجاء ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یرفع الا فی اول مرۃ،رقم الحدیث:۲۵۷،نسائی رقم الحدیث: ۱۰۵۸، ابوداود، رقم الحدیث: ۷۴۸،۷۴۹،مصنف ابن ابی شیبہ،حدیث:۲۴۵۶)

عَنِ الْبَرَاءِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَى قَرِيبٍ مِنْ أُذُنَيْهِ ثُمَّ لاَ يَعُودُ.

تر جمہ:حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دو نوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے پھر دوبارہ ایسا نہ کرتے۔ [حدثنا الحسن بن علی حدثنا معاویۃ وخالد بن عمر و وابو حذیفہ قالوا:حدثنا سفیان باسناد ہ بھذاقال :فرفع یدیہ فی اول مرۃ ،وقال بعضھم مرۃ واحدۃ۔اس سند کے ساتھ یہ حدیث صحیح ہے۔] (ابوداود، کتاب الصلاۃ،باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع ،ر قم ا لحدیث:۴۹ ۷، مصنف ابن ابی شیبۃ ،رقم الحدیث:۲۴۴،سنن الدار قطنی، حدیث:۱۱۳۹ )

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلاَةَ ثُمَّ لَمْ يَرْفَعْهُمَا حَتَّى انْصَرَفَ.

ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ ﷺنے نماز شروع فر مائی تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا،پھر نہ اٹھایا یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوگئے۔ (ابوداود،کتاب الصلوٰۃ،باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع ،حدیث:۷۵۲،مصنف ابن ابی شیبہ کتا ب الصلوۃ ،باب من کا ن یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود،حدیث:۲۴۵۵)

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ.

تر جمہ : حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا :کیا وجہ ہے میں تم کو سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح رفع یدین کرتے ہو ئے دیکھتا ہوں ،نماز سکون کے ساتھ پڑھا کرو۔ (الصحیح المسلم ،کتاب الصلاۃ،باب الامر بالسکون فی الصلاۃ الخ۔۔۔۔۔رقم الحدیث :۴۳۰)

عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- وَمَعَ أَبِى بَكْرٍ وَمَعَ عُمَرَ رضى الله عنهما فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلاَّ عِنْدَ التَّكْبِيرَةِ الأُولَى فِى افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ.

تر جمہ:حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں :میں حضور نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنھما کے ساتھ نماز پڑھی ،تو وہ حضرات صرف نماز کے شروع ہی میں ہاتھ اٹھاتے تھے۔ (سنن الدار قطنی، کتاب الصلاۃ،باب ذکر التکبیر ورفع الیدین عند الافتتاح ، حدیث :۱۱۴۴،سنن الکبری للبیھقی، ج:۲ / ص: ۷۹، حدیث:۲۳۶۵)

عَنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: قُلْتُ لِإِبْرَاهِيمَ: حَدِيثُ وَائِلٍ " أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ , وَإِذَا رَكَعَ , وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ ؟ " فَقَالَ: إِنْ كَانَ وَائِلٌ رَآهُ مَرَّةً يَفْعَلُ ذَلِكَ , فَقَدْ رَآهُ عَبْدُ اللهِ خَمْسِينَ مَرَّةً , لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ "

تر جمہ: حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ:میں نے حضرت ابراہیم نخعی سے حضرت وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث کے متعلق کہا کہ:انہوں نے حضور ﷺ کو دیکھا کہ:آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے جب نماز شروع کرتے ،اور جب رکوع کرتے ،اور جب رکوع سے سر اٹھاتے ،تو انہوں نے کہاکہ:اگر حضرت وائل رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺکو ایک مرتبہ ایسا کرتے دیکھا ہے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺکو پچا سوں مرتبہ ایسا نہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔(کیونکہ حضرت وائل رضی اللہ عنہ دیہات کے رہنے والے صحابی تھے اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور ﷺکے ساتھ ہی رہتے تھے) (شرح معانی الاثار،کتاب الصلاۃ ،بَابُ التَّكْبِيرِ لِلرُّكُوعِ وَالتَّكْبِيرِ لِلسُّجُودِ وَالرَّفْعِ مِنَ الرُّكُوعِ هَلْ مَعَ ذَلِكَ رَفْعٌ أَمْ لَا ؟ حدیث:۱۳۵۱)

قَالَ: ثنا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ: " أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ مِنَ الصَّلَاةِ , ثُمَّ لَا يَرْفَعُ بَعْدُ "

تر جمہ: حضرت عاصم بن کلیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ:بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز میں اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلی تکبیر کے وقت اٹھاتے تھے پھر اس کے بعد نہیں اٹھاتے تھے۔ (شرح معانی الاثار،کتاب الصلاۃ،باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود الخ۔۔۔۔حدیث:۱۳۵۳،مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث:۲۴۵۷ ، موطا امام محمد،حدیث:۱۰۵،۱۰۹)

عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: " صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنَ الصَّلَاةِ "

ترجمہ: حضرت مجاھد کہتے ہیں کہ:میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز پڑھا،تو انہوں نے اپنے ہاتھوں کونہ اٹھایامگر صرف نماز کی پہلی تکبیر ہی کے وقت ۔ (شرح معانی الاثار، کتاب الصلاۃ،باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود الخ۔۔۔۔حدیث: ۱۳۵۷،مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث:۲۴۶۷ )

عَنْ إِبْرَاهِيمَ , قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللهِ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنَ الصَّلَاةِ إِلَّا فِي الِافْتِتَاحِ " وَقَدْ رُوِيَ مِثْلُ ذَلِكَ أَيْضًا عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ

ترجمہ: حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ،نماز شروع کرتے وقت کے علاوہ کبھی اپنے ہاتھوں کو نہ اٹھاتے تھے۔اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طر ح مروی ہے۔ (شرح معانی الاثار،حدیث:۱۳۶۳،مصنف ابن ابی شیبہ،حدیث:۲۴۵۸،مصنف عبد الرزاق،حدیث:۲۵۳۳)

عَنِ الْأَسْوَدِ , قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ , ثُمَّ لَا يَعُودُ , قَالَ: وَرَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ , وَالشَّعْبِيَّ يَفْعَلَانِ ذَلِكَ " قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَهَذَا عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ لَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ أَيْضًا إِلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى فِي هَذَا الْحَدِيثِ , وَهُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ لِأَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَيَّاشٍ , وَإِنْ كَانَ هَذَا الْحَدِيثُ إِنَّمَا دَارَ عَلَيْهِ , فَإِنَّهُ ثِقَةٌ حُجَّةٌ

ترجمہ: حضرت اسود کہتے ہیں کہ:میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ:آپ اپنے ہاتھوں کو پہلی تکبیر کے وقت اٹھاتے ،پھر دوبارہ ایسا نہیں کرتے ۔(یہ حدیث صحیح ہے) (شرح معانی الاثار،حدیث:۱۳۶۴،مصنف ابن ابی شیبہ،حدیث:۲۴۶۹)

امام کے پیچھے تلاوت

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا ، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا ، وَإِذَا قَالَ : {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ} ، فَقُولُوا : آمِينَ

تر جمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا :امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے ۔جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو، اور جب وہ"غیر المغضوب علیھم ولاالضالین" کہے تو تم آمین کہو۔ (ابن ماجہ ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب اذا قرأ الامام فانصتوا، رقم الحدیث :۸۴۶،الصحیح البخاری،رقم الحدیث :۷۲۲ ،الصحیح المسلم،رقم الحدیث:۴۱۴، سنن الدار قطنی،حدیث:۱۲۴۳،۱۲۴۴،۱۲۴۵،سنن النسائی الکبری،حدیث:۹۹۴)

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ ».

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا :امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے ۔جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو،اور جب ’سمع اللہ لمن حمدہ‘کہے تو تم ’اللھم ربنا لک الحمد ‘کہو۔ (سنن نسائی،کتاب الافتتاح ،باب تاویل قولہ عز وجل "اذا قری القرآن فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون "،رقم الحدیث:۹۲۱،سنن النسائی الکبری، حدیث:۹۹۳)

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ فَجَعَلَ رَجُلٌ يَقْرَأُ خَلْفَهُ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ أَيُّكُمْ قَرَأَ أَوْ أَيُّكُمْ الْقَارِئُ فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا فَقَالَ قَدْ ظَنَنْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ خَالَجَنِيهَا

تر جمہ: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے نماز ظہر پڑھائی تو ایک شخص نے آپ کے پیچھے سورہ’سبح اسم ربک الاعلی‘کی تلاوت کیا،جب حضور ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا :تم میں سے کس نے تلاوت کیا؟تو ایک شخص نے کہا :میں ،تو حضور ﷺ نے فرمایا :مجھے معلوم ہو گیا کہ تم میں سے کو ئی مجھ سے تلاوت میں اختلاج کر رہا ہے۔[یعنی جھگڑ رہا ہے،جو کہ درست نہیں ہے] (الصحیح المسلم ،کتاب الصلاۃ ،باب نہی الماموم عن جھرہ بالقرأۃ خلف امامہ ،رقم الحدیث:۳۹۸،سنن البیہقی الکبری، حدیث:۲۷۳۳ ، سنن الدار قطنی،حدیث:۱۲۳۵،سنن النسائی الکبری، حدیث:۹۸۹،۹۹۰،صحیح ابن حبان،حدیث:۱۸۴۵)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم انْصَرَفَ مِنْ صَلاَةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ : هَلْ قَرَأَ مَعِيَ أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفًا ؟ فَقَالَ رَجُلٌ : نَعَمْ ، يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ : إِنِّي أَقُولُ مَالِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ ؟ قَالَ : فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم فِيمَا جَهَرَ فِيهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِالْقِرَاءَةِ مِنَ الصَّلَوَاتِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم.

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :رسول اللہ ﷺایسی نماز سے فارغ ہوئے جس میں قرأت زور سے کی جاتی ہے،توفر مایا: کیا ابھی تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرأت کیا؟ایک شخص نے کہا:ہاں ،یارسول اللہ ﷺ!آپ ﷺ نے فرمایا:بے شک میں نے کہا کہ کیا بات ہے کہ میرے ساتھ قرآن میں جھگڑا کیا جارہاہے؟راوی نے کہا :جب یہ بات نبی اکرم ﷺ سےلو گوں نے سنا تو لوگوں نےحضور ﷺکے ساتھ جہری نمازوں میں قرأت کرنا چھوڑ دیا۔ ( سنن ابی داود،کتاب الصلاۃ،باب من کرہ القرأۃ بفاتحۃ الکتاب اذا جھر الامام ،رقم الحدیث:۸۲۶،سنن البیہقی الکبری، حدیث:۲۷۱۶،۲۷۲۰ ،سنن الدار قطنی،حدیث: ۱۲۶۶،سنن النسائی الکبری،حدیث:۹۹۱،صحیح ابن حبان،حدیث:۱۸۴۳،موطا امام محمد،حدیث:۱۱۱)

عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ، قَالَ : كُلُّ مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ ، فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ.

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ نے فر مایا:جس کے لئے امام ہو ،تو امام کی قرأت مقتدی کی بھی قرأت ہے(یعنی مقتدی کو پڑھنے کی ضرورت نہیں) (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام،حدیث:۳۸۰۰،۳۸۲۳،شرح معانی الا ثار،حدیث:۱۲۹۴، سنن البیہقی الکبری،حدیث:۲۷۲۳،۲۷۲۴،سنن الدار قطنی،حدیث:۱۲۳۳،۱۲۳۸،۱۲۵۳،۱۲۶۴، موطا امام محمد،حدیث:۱۱۷)

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَجُلاً قَرَأَ خَلْفَ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- فِى الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَنَهَاهُ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ أَتَنْهَانِى أَنْ أَقْرَأَ خَلْفَ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- فَتَذَاكَرَا ذَلِكَ حَتَّى سَمِعَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ صَلَّى خَلْفَ الإِمَامِ فَإِنَّ قِرَاءَتَهُ لَهُ قِرَاءَةٌ ».[اللفظ لدار قطنی] عن جابر بن عبد الله عن النبي صلى الله عليه و سلم : أنه صلى وكان من خلفه يقرأ فجعل رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم ينهاه عن القراءة في الصلاة فلما انصرف أقبل عليه الرجل فقال أتنهاني عن القراءة خلف رسول الله صلى الله عليه و سلم فتنازعا حتى ذكرا ذلك للنبي صلى الله عليه و سلم فقال النبي صلى الله عليه و سلم من صلى خلف الإمام فإن قراءة الإمام له قراءة[اللفظ للبیھقی]

تر جمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:حضور ﷺ نے نماز پڑھائی تو ایک شخص جو آپ ﷺ کے پیچھے تھا قرأت کیا ،تو حضور ﷺ کے اصحاب میں سے ایک صحابی اسے نماز میں قرأت کرنے سے منع کر نے لگے،جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوا ،تو اس صحابی رسول ﷺ کی طرف متوجہ ہوا ،اور کہا :کیا آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے قرأت کرنے سے منع کرتے ہیں،پھر ان دونوں میں بحث چھڑ گئی یہاں تک کہ اس کا تذکرہ حضور ﷺ سے کیا گیاتو آپ ﷺ نے فرمایا:جو امام کے پیچھے نماز پڑھے تو بے شک امام کی قرأت اس کی قرأت ہے۔ (سنن البیہقی الکبریٰ،باب من قال لایقرأ خلف الامام علی الاطلاق،حدیث:۲۷۲۲،سنن الدار قطنی،حدیث:۱۲۴۹،موطا امام محمد،حدیث:۱۲۵)

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « كُلُّ صَلاَةٍ لاَ يُقْرَأُ فِيهَا بِأُمِّ الْكِتَابِ فَهِىَ خِدَاجٌ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ إِمَامٍ ».

تر جمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:ہر وہ نماز جس میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی جاتی وہ ناقص ہوتی ہے ،ہاں مگر یہ کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔ (سنن الدار قطنی مکنز، کتاب الصلاۃ۔باب ذکر قولہ "من کان لہ امام فقراتہ لہ قراۃ"،حدیث:۴۹ ۱۲)

عَنْ عَلِىٍّ قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ أَوْ أُنْصِتُ قَالَ « بَلْ أَنْصِتْ فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ ».

تر جمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ:ایک شخص نے حضور نبی کریم ﷺسے در یافت کیا کہ:میں امام کے پیچھے قرأت کروں یا خاموش رہوں؟حضور ﷺنے فر مایا:خاموش رہو،کیونکہ بے شک اس کی قرأت تمہیں کافی ہے۔ (سنن الدار قطنی مکنز، کتاب الصلاۃ۔باب ذکر قولہ "من کان لہ امام فقراتہ لہ قراۃ"،حدیث:۱۲۶۲)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « يَكْفِيكَ قِرَاءَةُ الإِمَامِ خَافَتَ أَوْ جَهَرَ ».

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیا ن کیا کہ: حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فر مایا:تم کو امام کی قرأت کافی ہے،سِرّی نماز ہو یا جہری۔(سنن الدار قطنی مکنز، کتاب الصلاۃ۔باب ذکر قولہ "من کان لہ امام فقراتہ لہ قراۃ"،حدیث:۱۲۶۶)

عن عبد الرحمن بن زيد بن أسلم عن أبيه قال نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن القراءة خلف الإمام، قال وأخبرني أشياخنا أن عليا قال من قرأ خلف الإمام فلا صلاة له قال وأخبرني موسى بن عقبة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم وأبو بكر وعمر وعثمان كانوا ينهون عن القراءة خلف الإمام

ترجمہ:حضرت عبد الرحمن بن زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:نبی کریم ﷺ نے امام کے پیچھے قرأت کر نے سے منع فر مایا۔ حضرت عبد الرحمن بن زید بن اسلم کہتے ہیں کہ مجھے میرے شیوخ نے بتایا کہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :جس نے امام کے پیچھے تلاوت کیا تو اس کی نماز نہیں ہوگی ،اور راوی کہتے ہیں کہ :مجھے خبر دیاحضرت موسی بن عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہ:بے شک رسول اللہ ﷺ،حضرت ابو بکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم امام کے پیچھے قرأت کرنے سے منع فر مایا کرتے تھے۔(مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلوۃ،باب القرأۃ خلف الامام،حدیث:۲۸۱۰)

عَنْ أَبِى نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الإِمَامِ.قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ترجمہ: حضرت ابو نعیم وھب بن کیسان سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ کو یہ فر ماتے ہوئے سنا کہ:جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورہ ء فاتحہ نہ پڑھی تو گویا اس نے نماز ہی نہ پڑھی،سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو(یعنی جب امام کے پیچھے ہو تو اس کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔(ترمذی،کتاب الصلاۃ،باب ماجاء فی ترک القراۃ خلف الامام اذا جھر الامام بالقراۃ،رقم الحدیث :۳۱۳ ،سنن البیہقی،حدیث:۲۷۲۵،موطا امام محمد، حدیث:۱۱۳)

عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنْ الْقِرَاءَةِ مَعَ الْإِمَامِ فَقَالَ لَا قِرَاءَةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَيْءٍ

ترجمہ:عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت زید بن ثابت سے امام کے ساتھ قرأت کرنے کے بارے میں سوال کیا ،تو انہوں نے فرمایا:امام کے ساتھ کسی چیز میں قرأت نہیں ہے۔(مسلم،کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ،باب سجود التلاوۃ،رقم الحدیث:۵۷۷ )

عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إلَى عَبْدِ اللهِ ، فَقَالَ : أَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ ؟ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللهِ : إنَّ فِي الصَّلاَةِ شُغْلاً ، وَسَيَكْفِيك ذَاكَ الإِمَامُ.

ترجمہ: حضرت ابووائل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:ایک شخص حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا،اور پوچھا کہ:کیا میں امام کے پیچھے قرأت کروں؟تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا:یہ نماز میں شغل (یعنی ایسا کام ہے جو جائز نہیں)ہے ،تم کو اُس امام کی قرأت کافی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام،حدیث:۳۸۰۱،شرح معانی الاثار،حدیث:۱۳۰۷،مصنف عبد الرزاق،حدیث:۲۸۰۳،سنن البیہقی الکبری،۲۷۲۶،موطا امام محمد، حدیث:۱۲۰)

عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الإِمَامِ فَقَدْ أَخْطَأَ الْفِطْرَةَ.

ترجمہ:حضرت ابو لیلی سے مروی ہے کہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فر مایا:جس نے امام کے پیچھے قرأت کیا اس نے سنت میں خطاء(غلطی) کیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام،حدیث:۳۸۰۲،شرح معانی الاثار،حدیث:۱۳۰۶،مصنف عبد الرزاق،حدیث:۲۸۰۱،سنن الدار قطنی،حدیث:۱۲۵۵،۱۲۵۷،۱۲۵۸،۱۲۵۹)

عَنْ أَبِي بِجَادٍ ، عَنْ سَعْدٍ ، قَالَ : وَدِدْت أَنَّ الَّذِي يَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ فِي فِيهِ جَمْرَةٌ.

ترجمہ:حضرت ابو بجاد سے مروی ہے کہ :حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا:میری خواہش ہے کہ جو لوگ امام کے پیچھے قرأت کرتے ہیں ان کے منہ میں آگ کا شعلہ ہو۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام،حدیث:۳۸۰۳،موطا امام محمد،حدیث:۱۲۶)

عَنِ ابْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : لاَ تَقْرَأْ خَلْفَ الإِمَامِ إِنْ جَهَرَ ، وَلاَ إِنْ خَافَتَ.

ترجمہ: حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ :حضرت زید بن ثا بت رضی اللہ عنہ نے کہا:امام کے پیچھے قرأت نہ کر، امام زور سے قرأت کرے یا آہستہ۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام،حدیث:۳۸۰۸)

عَنْ مُوسَى بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الإِمَامِ فَلاَ صَلاَةَ لَهُ.

ترجمہ: حضرت موسی بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا:جس نے امام کے پیچھے قرأت کیا تو اس کی نماز ہی نہ ہوئی۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام،حدیث:۳۸۰۹،مصنف عبد الرزاق،حدیث:۲۸۰۲،موطا امام محمد،حدیث:۱۲۸)

عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ : سَأَلْتُه عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ ؟ قَالَ : لَيْسَ وَرَاءَ الإِمَامِ قِرَاءَةٌ.

ترجمہ: حضرت ابو بشر کہتے ہیں کہ :میں نے حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے امام کے پیچھے قرأت کرنے کے بارے میں پوچھا ،تو انہوں نے فر مایا:امام کے پیچھے قرأت کرنا جا ئز نہیں ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام،حدیث:۳۸۱۳)

عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَكَانَ إِذَا سُئِلَ هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ خَلْفَ الْإِمَامِ قَالَ إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ خَلْفَ الْإِمَامِ فَحَسْبُهُ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ وَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيَقْرَأْ

ترجمہ: حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جب سوال کیا گیا کہ :کیا کوئی امام کے پیچھے قرأت کرے؟تو آپ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قرأ ت کافی ہے اور جب تنہا پڑھے تو چاہئے کہ وہ قرأت کرے۔(موطا امام مالک ،باب ترک القرأۃ خلف الامام، حدیث:۲۸۳،موطا امام محمد،حدیث:۱۱۲)

عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " لَيْتَ الَّذِي يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ مُلِئَ فُوهُ تُرَابًا "

ترجمہ: حضرت علقمہ سے روایت ہے کہ :حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کاش !وہ لوگ جو امام کے پیچھے قرأت کرتے ہیں ان کے منہ مٹی سے بھر دیا جاتا۔(شرح معانی الاثار،کتاب الصلاۃ،باب القراۃ خلف الامام ،حدیث:۱۳۱۰)

عن محمد بن عجلان قال قال علي من قرأ مع الإمام فليس على الفطرة قال وقال بن مسعود ملىء فوه ترابا قال وقال عمر بن الخطاب وددت أن الذي يقرأ خلف الإمام في فيه حجر

ترجمہ: محمد بن عجلان رضی اللہ عنہ نے کہاکہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:جو شخص امام کے ساتھ قرأت کرے وہ فطرت(یعنی سنت)پر نہیں،اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:کاش !اس کا منہ مٹی سے بھر دیا جاتا،اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا:میری خواہش ہے کہ وہ لوگ جو امام کے پیچھے قرأت کرتے ہیں ان کے منھ میں پتھر ہو۔ (مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلوۃ،باب القرأۃ خلف الامام،حدیث:۲۸۰۶ ،موطا امام محمد،حدیث:۱۲۷)

عن عبيد الله بن مقسم قال سألت جابر بن عبد الله أتقرأ خلف الإمام في الظهر والعصر شيئا فقال لا

ترجمہ: حضرت عبید اللہ بن مقسم کہتے ہیں کہ :میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ:کیا آپ ظہر اور عصر میں امام کے پیچھے قرأت کرتے ہیں؟ فرمایا:نہیں۔(مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلوۃ،باب القرأۃ خلف الامام،حدیث:۲۸۱۹)

عن علقمة بن قيس : أن عبد الله بن مسعود كان لا يقرأ خلف الإمام فيما جهر فيه وفيما يخافت فيه

تر جمہ: حضرت علقمہ بن قیس سے مروی ہے کہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے قرأت نہیں کرتے تھے نہ جہری نماز میں اور نہ ہی سِرّی نماز میں۔(موطا امام محمد،ابواب الصلاۃ،باب القراۃ فی الصلاۃ خلف الامام ،حدیث:۱۲۱)

نماز تراویح کی فضیلت اور تعداد رکعات

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

تر جمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص رمضان کے مہینے میں ثواب کی نیت سے قیام کرے(یعنی نماز تراویح ادا کرے)تو اللہ تعالی اس کے گذشتہ تمام گناہوں کو معاف فر مادیتا ہے،یونہی جو شخص شب قدر میں ثواب کی نیت سے قیام کرے اللہ تعالی اس کے گذشتہ تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔ (الصحیح البخاری،کتاب صلاۃ التراویح ،باب فضل لیلۃ القدر،رقم الحدیث:۱۹۰۱،الصحیح المسلم،رقم الحدیث:۷۶۰)

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ - رضى الله عنها أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - صَلَّى ذَاتَ لَيْلَةٍ فِى الْمَسْجِدِ فَصَلَّى بِصَلاَتِهِ نَاسٌ ، ثُمَّ صَلَّى مِنَ الْقَابِلَةِ فَكَثُرَ النَّاسُ ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ « قَدْ رَأَيْتُ الَّذِى صَنَعْتُمْ وَلَمْ يَمْنَعْنِى مِنَ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلاَّ أَنِّى خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ » ، وَذَلِكَ فِى رَمَضَانَ .

تر جمہ:ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا سے مروی ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی پھر آپ ﷺ نے اگلی رات نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہو گئے،پھر تیسری یا چوتھی رات بھی جمع ہو ئے لیکن رسول اللہ ﷺ ان کی طرف تشریف نہ لائے۔جب صبح ہو ئی تو فرمایا میں نے دیکھا جو تم نے کیا ،مگر میں صرف اس اندیشے سے تمہاری طرف نہیں آیا کہ کہیں تم پر یہ نماز (تراویح)فرض نہ کر دیا جائے۔ (الصحیح البخاری،کتاب التہجد،باب تحریض النبی ﷺ علی صلاۃ اللیل والنوافل ،رقم الحدیث :۱۱۲۹)

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِىِّ أَنَّهُ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رضى الله عنه - لَيْلَةً فِى رَمَضَانَ ، إِلَى الْمَسْجِدِ ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ يُصَلِّى الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ ، وَيُصَلِّى الرَّجُلُ فَيُصَلِّى بِصَلاَتِهِ الرَّهْطُ فَقَالَ عُمَرُ إِنِّى أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلاَءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ . ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَىِّ بْنِ كَعْبٍ ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى ، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاَةِ قَارِئِهِمْ ، قَالَ عُمَرُ نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ ، وَالَّتِى يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِى يَقُومُونَ . يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ ، وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ .

ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن عبد القاری روایت کرتے ہیں :میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگ متفرق تھے،کو ئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور کوئی گروہ کے ساتھ ۔حضرت عمر نے فرمایا :میرے خیال میں انہیں ایک قاری کے پیچھے جمع کر دیا جائے تو اچھا ہو گا ،پس حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے انہیں جمع کر دیا گیا ،پھر میں ایک دوسری رات کو ان کے ساتھ نکلا اور لوگ اپنے قاری کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فر مایا :یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔(الصحیح البخاری،کتاب صلاۃ التراویح ،باب فضل من قام رمضان ،رقم الحدیث:۲۰۱۰)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ.

تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے انہوں نے فرمایاکہ حضور نبی کریم ﷺ رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الصلاۃ،باب کم یصلی فی رمضان من رکعۃ ،باب :۶۸۰ ، رقم الحدیث:۷۷۷۴،مسند عبد بن حمید ،رقم الحدیث:۶۵۳)

عن السائب بن يزيد قال : كانوا يقومون على عهد عمر بن الخطاب رضي الله عنه في شهر رمضان بعشرين ركعة

ترجمہ: حضرت سائب بن یزید سے مروی ہے ،انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم رمضان کے مہینے میں بیس رکعت تراویح ُپڑھا کرتے تھے۔ (السنن البیھقی الکبری ، باب ماروی فی عدد رکعات القیام فی شھر رمضان ،رقم الحدیث :۴۳۹۳)

عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِى زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِى رَمَضَانَ بِثَلاَثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً.

ترجمہ:حضرت یزید بن رومان بیان کرتے ہیں کہ :حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ (بشمول وتر)۲۳ رکعات پڑھتے تھے۔ (موطا امام مالک،کتاب الصلوۃ فی رمضان ،باب التر غیب فی الصلوۃ فی رمضان،حدیث:۲۵۲،سنن الکبر ی للبیہقی، حدیث:۴۳۹۴)

عَنِ أَبِي الْحَسْنَاءِ : أَنَّ عَلِيًّا أَمَرَ رَجُلاً يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً.

تر جمہ: حضرت ابو الحسناء بیان کرتے ہیں کہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو رمضان میں پانچ ترویحوں میں بیس رکعات پڑھا نے کا حکم دیا۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الصلاۃ،باب کم یصلی فی رمضان من رکعۃ ،باب :۶۸۰ ، حدیث:۷۷۶۳،سنن الکبری للبیہقی،حدیث:۴۳۹۷)

عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَمَرَ رَجُلاً يُصَلِّي بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَةً.

تر جمہ: حضرت یحیی بن سعید بیان کرتے ہیں کہ :حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ انہیں (یعنی مسلمانوں کو)بیس رکعات تراویح پڑھائے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الصلاۃ،باب کم یصلی فی رمضان من رکعۃ ،باب :۶۸۰ ، حدیث:۷۷۶۴)

عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ ، قَالَ : كَانَ أُبَيّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ بِالْمَدِينَةِ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَيُوتِرُ بِثَلاَثٍ.

ترجمہ: حضرت عبد العزیز بن رفیع نے بیان کیا کہ:حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں لوگوں کو رمضان المبارک میں بیس رکعات تراویح اور تین رکعات تراویح پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الصلاۃ،باب کم یصلی فی رمضان من رکعۃ ،باب :۶۸۰ ، حدیث:۷۷۶۶)

عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ : كَانَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ يُصَلِّي بِنَا فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً

تر جمہ: حضرت نافع بن عمر نے بیان کیا کہ: حضرت ابن ابی ملیکہ ہمیں رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑ ھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الصلاۃ،باب کم یصلی فی رمضان من رکعۃ ،باب :۶۸۰ ، حدیث:۷۷۶۵)

عن أبي عبد الرحمن السلمي عن على رضي الله عنه قال : دعا القراء في رمضان فأمر منهم رجلا يصلي بالناس عشرين ركعة قال وكان علي رضي الله عنه يوتر بهم

تر جمہ: حضرت عبد الرحمن بن سلمی سے مروی ہے کہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان المبارک میں قاریوں کو بلایا اور ان میں سے ایک شخص کو بیس رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں وتر پڑھاتے تھے۔ (السنن البیھقی الکبری ، کتاب الحیض ،باب ماروی فی عدد رکعات القیام فی شھر رمضان ،رقم الحدیث :۴۳۹۶)

نماز وتر کا وجوب اور اس کی رکعات

عَنْ أَبِي أَيُّوبَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْوِتْرُ حَقٌّ

ترجمہ: حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے فر مایا:وتر واجب ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب الوتر،رقم الحدیث:۱۱۳۲)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ : الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا .

تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺنے فر مایا:وتر واجب ہے ۔تو، جو وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔تین بار ارشاد فر مایا۔(سنن ابی داود،کتاب الوتر،باب فیمن لم یوتر ،رقم الحدیث :۱۴۱۹،المستدرک علی الصحیحین للحاکم،رقم الحدیث:۱۱۴۶،مصنف ابن ابی شیبۃ،حدیث:۶۹۳۴)

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : إِنَّ اللَّهَ زَادَكُمْ صَلاَةً إِلَى صَلاَتِكُمْ ، وَهِيَ الْوِتْرُ.

ترجمہ: حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے والد سے روایت کیاکہ:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بے شک اللہ نے تمہاری نمازوں میں ایک نماز کا اضافہ فرمایا ،اور وہ وتر ہے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب الصلاۃ،باب :۵۸۰،من قال الوتر واجب ، حدیث:۶۹۲۹)

عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ قَالَ مَنْ صَلَّى مِنْ اللَّيْلِ فَلْيَجْعَلْ آخِرَ صَلَاتِهِ وِتْرًا فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ بِذَلِكَ

تر جمہ: حضرت نافع سے روایت ہے کہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:جو شخص رات میں نماز پڑھے تو چاہئے کہ اس کی آخری نماز وتر ہو کیونکہ حضور نبی کریم ﷺاس کا حکم دیا کرتے تھے۔(مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب صلاۃ اللیل مثنی مثنیٰ والوتر رکعۃ من آخر اللیل ،حدیث:۷۵۱، سنن النسائی،حدیث:۱۶۸۲)

عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مَنْ نَامَ عَنِ الْوِتْرِ أَوْ نَسِيَهُ فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَ وَإِذَا اسْتَيْقَظَ.

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص وتر سے سو جائے یا وتر پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آئے یا جب بیدار ہو تو پڑ ھ لے۔(ترمذی،کتاب الصلاۃ،باب ماجاء فی الرجل ینام عن الوتر او ینساہ ،رقم الحدیث:۴۶۵،المستدرک علی الصحیحین للحاکم،رقم الحدیث:۱۱۲۷)

حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ : هُوَ وَاجِبٌ ، وَلَم يُكْتَبُ.

تر جمہ: حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ :وتر واجب ہے ،فر ض نہیں۔(مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الصلاۃ،باب :۵۸۰،من قال الوتر واجب ، حدیث: ۶۹۳۱)

عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلاَثٍ لاَ يُسَلِّمُ إِلاَّ فِي آخِرِهِنَّ وَهَذَا وِتْرُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَعَنْهُ أَخَذَهُ أَهْلُ الْمَدِينَةِ.

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: حضور نبی کریم ﷺ تین رکعات وتر پڑھا کرتے تھے،اور سلام نہیں پھیرتے تھے مگر آخر رکعت ہی میں ۔اور یہی امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی وتر ہے ،اور ان سے ہی اہل مدینہ نے اخذ کیاہے ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب الوتر،رقم الحدیث:۱۱۴۰)

عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ قَالَ سَأَلْنَا عَائِشَةَ بِأَىِّ شَىْءٍ كَانَ يُوتِرُ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَتْ كَانَ يَقْرَأُ فِى الأُولَى بِ (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى) وَفِى الثَّانِيَةِ بِ (قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ) وَفِى الثَّالِثَةِ بِ (قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ.

ترجمہ: حضرت عبد العز یز بن جریج کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ حضور ﷺ وتر کی نماز میں کون سی سورت تلاوت فرماتے تھے؟تو انہوں نے کہا :رسول اللہ ﷺ پہلی رکعت میں ’سبح اسم ربک الاعلی‘اور دوسری رکعت میں ’قل یا ایھا الکفرون‘اور تیسری رکعت میں ’قل ھو اللہ احد اور معوذتین (یعنی ’قل اعوذبرب الفلق اور قل اعوذبرب الناس)پڑھا کرتے تھے۔ (ترمذی،کتاب الصلاۃ،باب ماجاء فیما یقرأبہ فی الوتر،رقم الحدیث:۴۶۳،المستدرک علی الصحیحین للحاکم،رقم الحدیث:۱۱۴۴)

عَنْ أُبَىِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقْرَأُ فِى الْوَتْرِ بِ (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى) وَفِى الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ بِ (قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ) وَفِى الثَّالِثَةِ بِ (قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) وَلاَ يُسَلِّمُ إِلاَّ فِى آخِرِهِنَّ وَيَقُولُ يَعْنِى بَعْدَ التَّسْلِيمِ « سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ». ثَلاَثًا.

ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی پہلی رکعت میں’سبح اسم ربک الاعلی‘اور دوسری رکعت میں ’قل یا ایھا الکفرون‘اور تیسری رکعت میں ’قل ھو اللہ احد پڑھا کرتے تھے،اور آخر ی رکعت کے بعد ہی سلام پھیر تے تھے اور پھر تین مر تبہ’سبحان الملک القدوس‘ کا ورد کرتے تھے۔ (سنن نسائی،کتاب قیام اللیل وتطوع النھار،باب ذکر اختلاف الفاظ الناقلین لخبر ابی بن کعب فی الوتر،رقم الحدیث:۱۷۰۱)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا " أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ بِثَلَاثِ رَكَعَاتٍ "

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ: بے شک رسول اللہ ﷺتین رکعات وتر پڑھا کرتے تھے۔ (شرح معانی الاثار،باب الوتر،حدیث:۱۷۰۸)

حَدَّثَنَا ابْنُ مَرْزُوقٍ، قَالَ: ثنا عَفَّانُ، قَالَ: ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: ثنا ثَابِتٌ، قَالَ: " صَلَّى بِي أَنَسٌ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ الْوِتْرَ أَنَا عَنْ يَمِينِهِ وَأُمُّ وَلَدِهِ خَلْفَنَا , ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ , لَمْ يُسَلِّمْ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ , ظَنَنْتُ أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُعَلِّمَنِي "

ترجمہ: حضرت ثابت بیان کرتے ہیں کہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ہمارے ساتھ وتر کی نماز ادا کی اس حال میں کہ میں ان کی دائیں طرف تھا اور ان کی باندی کا لڑکا ہمارے پیچھے۔تین رکعات ،اور انہوں نے سلام نہیں پھیرا مگر آخر ہی میں ۔حضرت ثابت بیان کرتے ہیں :میں نے گمان کیا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ہمیں وتر کی نماز سکھانے کے ارادے سے ایسا کیا۔ (شرح معانی الاثار، باب الوتر،حدیث:۱۷۴۷)

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ , قَالَ: " الْوِتْرُ ثَلَاثٌ , كَوِتْرِ النَّهَارِ , صَلَاةِ الْمَغْرِبِ " .

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:وتر کی نماز تین رکعات ہیں مغرب کی نماز کی طرح۔ (شرح معانی الاثار ،باب الوتر،حدیث:۱۷۴۴)

دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کرکے پڑھنا

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يُصَلِّى الصَّلاَةَ لِوَقْتِهَا إِلاَّ بِجَمْعٍ وَعَرَفَاتٍ.

تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ:رسول اللہ ﷺ ہمیشہ نماز اس کے وقت میں پڑھا کرتے تھے ،سوائے مزدلفہ اور عر فات کے۔(سنن نسائی،کتاب مناسک الحج ،باب الجمع بین الظہر والعصر بعرفۃ ،رقم الحدیث:۳۰۱۰،الصحیح البخاری،رقم الحدیث:۱۶۸۲،الصحیح المسلم،رقم الحدیث:۱۲۸۹)

عَنْ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ : خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلاَّهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللهِ عَهْدٌ ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ.

ترجمہ:حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :پانچ نمازیں ہیں جنہیں اللہ تعالی نے فر ض کیا ہے تو جو شخص ان کا وضو اچھی طرح کرے اور وقت پر ان کو ادا کرے اور ان کا رکوع اور خشوع مکمل طور سے ادا کرے تو اس کے لئے اللہ پر عہد ہے کہ اسے بخش دے ،اور جو شخص ایسا نہ کرے تو اس کے لئے اللہ پر عہد نہیں ہے اگر چاہے تو اس کو بخش دے اور چاہے تو اس کو عذاب دے۔ (ابو داود،کتاب الصلاۃ،باب فی المحافظۃ علی وقت الصلوات ،رقم الحدیث :۴۲۵)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَىُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ :إِقَامُ الصَّلاَةِ لِوَقْتِهَا وَبِرُّ الْوَالِدَيْنِ وَالْجِهَادُ فِى سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ .

ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ:اللہ عز وجل کے نزدیک سب سے زیادہ پسند یدہ عمل کونسا ہے؟حضور ﷺ نے ارشاد فر مایا :نماز کو اس کے وقت پر پڑ ھنا ،والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور اللہ عز وجل کے راستے میں جہاد کر نا۔ (سنن نسائی،کتاب المواقیت ،باب فضل الصلاۃ لمواقیتھا،رقم الحدیث:۶۱۱)

عَنْ أَبِى قَتَادَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- : لَيْسَ فِى النَّوْمِ تَفْرِيطٌ إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِيمَنْ لَمْ يُصَلِّ الصَّلاَةَ حَتَّى يَجِىءَ وَقْتُ الصَّلاَةِ الأُخْرَى حِينَ يَنْتَبِهُ لَهَا .

تر جمہ: حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ :اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فر مایا :نیند میں کو تاہی اور قصور نہیں ہے۔قصور یہ ہے کہ کوئی شخص نماز نہ پڑھے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت آجائے۔ (سنن نسائی،کتاب المواقیت ،باب فیمن نام عن صلاۃ،رقم الحدیث:۶۱۶)

عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَرَبَ فَخِذِي كَيْفَ أَنْتَ إِذَا بَقِيتَ فِي قَوْمٍ يُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا قَالَ قَالَ مَا تَأْمُرُ قَالَ صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا ثُمَّ اذْهَبْ لِحَاجَتِكَ فَإِنْ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ وَأَنْتَ فِي الْمَسْجِدِ فَصَلِّ

ترجمہ: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : حضور سید المرسلین ﷺنے میری ران پر ہاتھ مار کرفرمایا:تیرا کیا حال ہوگا جب تو ایسے لوگوں میں رہ جائے گا جو نماز کو اس کے مستحب وقت سے تاخیر کرکے پڑ ھیں گے،میں نے کہا: حضور مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟فر مایا:تو وقت پر پڑھ لینا ،پھر اپنی کسی حاجت کے لئے روانہ ہونا تو اگر نماز کے لئے اقامت کہی جائے اور تو مسجد میں رہنا تو پھر نماز پڑھ لینا۔(دوسر ی روایت میں یہ ہے کہ:تو بعد میں جو تو ان کے ساتھ پڑھے گا یہ تیرے لئے نفل ہوگا۔مسلم) (مسلم،کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ،باب کرھیۃ التا خیر الصلاۃ عن وقتھا المختار،حدیث:۶۴۸)

قال محمد : بلغنا عن عمر بن الخطاب أنه كتب في الآفاق ينهاهم أن يجمعوا بين الصلاتين ويخبرهم أن الجمع بين الصلاتين في وقت واحد كبيرة من الكبائر . أخبرنا بذلك الثقات عن العلاء بن الحارث عن مكحول

تر جمہ:امام محمد بن حسن شیبانی فر ماتے ہیں ہم تک یہ روایت ثقہ لوگوں کے ذریعے پہونچی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مملکت اسلامیہ کے چاروں طرف پیغام لکھا،اور انہیں دو نمازوں کو جمع کر نے سے منع فر مایااور کہا کہ: بے شک دونمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔ (موطا امام محمد ،ابواب الصلاۃ،باب الجمع بین الصلاتین فی السفر والمطر، حدیث:۲۰۵) کنز العمال کے الفاظ اس طر ح سے ہیں۔حضرت ابو قتادہ عدوی کہتے ہیں :میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان سنا کہ تین باتیں گناہ کبیر ہ میں سے ہیں ،دو نمازیں ایک ہی وقت میں جمع کرنا،جہاد میں کفار کے مقابلے سے بھا گنااور کسی کا مال لوٹ لینا۔(کنز العمال،باب :الجمع بین الصلوتین،حدیث:۲۲۷۶۵) یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے سب راوی صحیح مسلم کے راویوں سے ہیں۔

عن نَافِع قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِى سَفَرٍ يُرِيدُ أَرْضًا لَهُ فَأَتَاهُ آتٍ فَقَالَ إِنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ أَبِى عُبَيْدٍ لَمَا بِهَا فَانْظُرْ أَنْ تُدْرِكَهَا. فَخَرَجَ مُسْرِعًا وَمَعَهُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُسَايِرُهُ وَغَابَتِ الشَّمْسُ فَلَمْ يُصَلِّ الصَّلاَةَ وَكَانَ عَهْدِى بِهِ وَهُوَ يُحَافِظُ عَلَى الصَّلاَةِ فَلَمَّا أَبْطَأَ قُلْتُ الصَّلاَةَ يَرْحَمُكَ اللَّهُ. فَالْتَفَتَ إِلَىَّ وَمَضَى حَتَّى إِذَا كَانَ فِى آخِرِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَقَامَ الْعِشَاءَ وَقَدْ تَوَارَى الشَّفَقُ فَصَلَّى بِنَا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ السَّيْرُ صَنَعَ هَكَذَا.

ترجمہ : حضرت نافع بیان کر تے ہیں کہ: میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھماکے ساتھ نکلا جب کہ وہ اپنی ایک زمین کی طرف تشریف لے جارہے تھے ،کسی نے آکر کہا:آپ کی بیوی صفیہ بنت ابی عبید اپنے حال میں مشغول ہے شاید ہی آپ انہیں زندہ پائیں ۔یہ سن کر تیزی سے چلنے لگے اور ان کے ساتھ ایک قریشی مرد تھا ،سورج ڈوب گیا اور نماز نہ پڑھی حالانکہ میں نے ہمیشہ ان کی عادت یہی پائی تھی کہ نماز کی محافظت فر ماتے تھے ،جب دیر لگائی تو میں نے کہا :نماز،خدا آپ پر رحم کرے ۔انہوں نے میری طرف پِھر کر دیکھا اور آگے روانہ ہوئے جب شفق کا اخیر حصہ رہا (یعنی مغرب کا آخری وقت)تو سواری سے اُتر کر مغرب کی نماز پڑھی پھر عشاء کی تکبیر اس حال میں کہی کہ شفق ڈوب چکا تھا(یعنی مغرب کا وقت ختم ہو چکا تھا )اس وقت عشاء پڑھی اور ہماری طرف متوجہ ہو کر کہا :رسول اللہ ﷺ کو جب سفر میں جلدی ہوتی تو ایسے ہی کرتے تھے۔یہ حدیث صحیح ہے۔(سنن النسائی،کتاب المواقیت ،باب الوقت الذی یجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشاء،حدیث:۵۹۵) اور دوسری روایت میں ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے فر مایا:جب تم میں سے کسی کو کوئی ایسی ضرورت پیش آجائے تو اسی طر ح نماز پڑھ لیا کرو۔یہ روایت حسن ہے۔(سنن نسائی،حدیث:۵۸۸)

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ رَأَيْتُ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ يُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ ، فَيُصَلِّيهَا ثَلاَثًا ثُمَّ يُسَلِّمُ ، ثُمَّ قَلَّمَا يَلْبَثُ حَتَّى يُقِيمَ الْعِشَاءَ فَيُصَلِّيَهَا رَكْعَتَيْنِ

تر جمہ :حضرت عبد اللہ نے کہا : جب حضور ﷺ کو سفر میں جلدی ہوتی تو مغرب کی نماز میں تا خیر کرتے پھر تین رکعت نماز(مغرب)پڑھ کر سلام پھیرتے پھر تھوڑی دیر انتظار فرماتے پھر عشاء کی اقامت فرما کر دو رکعت عشاء کی نماز پڑھتے۔ ( بخاری ،کتاب تقصیر الصلوۃ،باب یصلی المغرب ثلاثا فی السفر،حدیث: ۱۰۹۲)

عن عبد اللہ بن مسعود :ان النبی ﷺکان یجمع بین المغرب و العشاء یؤخر ھذہ فی آخر وقتھا و یعجل ھذہ فی اول وقتھا۔

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: حضور اقدس ﷺ مغرب اور عشاء کو جمع فر ماتے ،مغرب کو اس کے آخر وقت میں پڑھتے اور عشاء کو اس کے اول وقت میں۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ۔عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حدیث:۹۸۸۰)

نماز جنازہ میں سلام ایک طرف یا دونوں طرف

عَنْ أَبِي الْعَنْبَسِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ فَكَبَّرَ عَلَيْهَا أَرْبَعًا ، وَسَلَّمَ تَسْلِيمَةً . التَّسْلِيمَةُ الْوَاحِدَةُ عَلَى الْجِنَازَةِ قَدْ صَحَّتِ الرِّوَايَةُ فِيهِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُمْ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَى الْجِنَازَةِ تَسْلِيمَةً وَاحِدَةً

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: حضور نبی کریم ﷺ نے نماز جنازہ پڑھایا تو چار تکبیر کہا اور ایک سلام۔ نماز جنازہ میں صرف ایک طرف سلام پھیرنے سے متعلق متعدد روایتیں ہیں، حضرت علی،حضرت عبد اللہ بن عمر،حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت جابر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں آیا ہے کہ یہ سب حضرات جنازہ میں صرف ایک طرف سلام پھیرتے تھے۔[المستدرک للحاکم،کتاب الجنائز ، حدیث :۱۳۳۲]

عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ كَانَ إذَا صَلَّى عَلَى الْجِنَازَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ فَكَبَّرَ , فَإِذَا فَرَغَ سَلَّمَ عَلَى يَمِينِهِ وَاحِدَةً.

ترجمہ :حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب جنازہ کی نماز پڑھاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور تکبیر کہتے پھر جب فارغ ہوتے تو صرف اپنے داہنی طرف سلام پھیرتے۔ [مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الجنائز،باب فی التسلیم علی الجنائز کم ھو؟، حدیث :۱۱۶۱۱]

عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ كَانَ يُسَلِّمُ عَلَى الْجِنَازَةِ تَسْلِيمَةً.

ترجمہ :حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما جنازہ میں ایک سلام کہتے تھے۔ [مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الجنائز،باب فی التسلیم علی الجنائز کم ھو؟، حدیث :۱۱۶۱۳]

عَنْ أَبِي الَعَنَبَسِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ قَالَ : صَلَّيْت خَلْفَ أَبِي هُرَيْرَةَ عَلَى جِنَازَةٍ فَكَبَّرَ عَلَيْهَا أَرْبَعًا , وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ تَسْلِيمَةً.

ترجمہ :حضرت ابو العنبس بیان کرتے ہیں کہ: میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے جنازہ کی نماز ادا کیا تو انہوں نے چار تکبیر کہی اور اپنے داہنی طرف صرف ایک سلام کیا۔ [مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الجنائز،باب فی التسلیم علی الجنائز کم ھو؟، حدیث :۱۱۶۲۰]

عن الزهري قال سمعت ابا أمامة بن سهيل بن حنيف يحدث بن المسيب قال السنة في الصلاة على الجنائز أن يكبر ثم يقرأ بأم القرآن ثم يصلي على النبي صلى الله عليه و سلم ثم يخلص الدعاء للميت ولا يقرأ الا في التكبيرة الاولى ثم يسلم في نفسه عن يمينه

ترجمہ :حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا: نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ تکبیر کہے پھر سورہ فاتحہ پڑھے پھر نبی ﷺ پر درود پڑھے پھر خلوص کے ساتھ میت کے لئے دعا کرے،اور قرأت پہلی تکبیر کے علاوہ میں نہ کرے،پھر صرف اپنے داہنی طرف سلام پھیرے۔ [مصنف عبد الرزاق،کتاب الجنائز،باب القرأۃ والدعا فی الصلوٰۃ علی المیت؟، حدیث :۶۴۲۸]

عَنْ عَلْقَمَةَ، وَالأَسْوَدِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:خِلالٌ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُنَّ، تَرَكَهُنَّ النَّاسُ، إِحْدَاهُنَّ تَسْلِيمُ الإِمَامِ فِي الْجَنَازَةِ مِثْلَ تَسْلِيمِهِ فِي الصَّلاةِ.

ترجمہ :حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے، لیکن لوگوں نے اسے کرنا چھوڑدیا ہے، ان میں سے ایک، نماز کے سلام کی طرح جنازہ کی نماز میں سلام کرنا ہے ۔ [المعجم الکبیر،جزء:۸،ص:۴۱۰، حدیث :۹۸۸۰]

عَنْ أَبِي مُوسَى , قَالَ:"صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَنَازَةٍ، فَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ

ترجمہ :حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ:ہم نے اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ جنازہ کی نماز ادا کیا تو آپ ﷺ نے سلام پھیرا اپنےداہنی طرف اور اپنے بائیں طرف۔ [المعجم الکبیر،قطعۃ من المفقود،جزء:۲۰،ص:۱۸۴،حدیث:۱۶۱۳،المعجم الاوسط، حدیث :۴۴۷۰]

عَنْ إِبْرَاهِيمَ الْهَجَرِىِّ قَالَ أَمَّنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِى أَوْفَى عَلَى جِنَازَةِ ابْنَتِهِ فَكَبَّرَ أَرْبَعًا فَمَكَثَ سَاعَةً حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُكَبِّرُ خَمْسًا ، ثُمَّ سَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْنَا لَهُ : مَا هَذَا؟ فَقالَ : إِنِّى لاَ أَزِيدُكُمْ عَلَى مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَصْنَعُ أَوْ هَكَذَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-

ترجمہ :ابراھیم الھجری بیان کرتے ہیں کہ : حضرت عبدللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کے جنازہ میں ہمیں امامت کرائی تو چار تکبیر کہی ،پھر تھوڑی دیر رکے یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا وہ پانچویں تکبیر کہیں گے لیکن پھر انہوں نے سلام پھیرا اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف پھر جب فارغ ہوئے ہم نےکہا یہ کیا ہے؟ تو فرمایا میں تمہارے سامنے نہیں اضافہ کر رہا اس سےجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا۔ [السنن الکبریٰ للبیھقی،کتاب الجنائز،باب ۱۲۳:من قال یسلم عن یمینہ، حدیث :۷۲۳۸]

مکمل نماز کا طریقہ احادیث نبویہ کی روشنی میں

نیت کرنا۔یعنی دل میں ارادہ کرنا۔

عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ - رضى الله عنه - عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ :إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے منبر پر فر مایا کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ : تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور بے شک ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ثواب ملے گا۔ پس جس کی ہجرت دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو۔تو اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔ [صحیح بخاری،کتاب بدء الوحی،باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ الخ۔۔حدیث:۱]

قبلہ رخ ہو کرتکبیر تحریمہ یعنی ہاتھ اٹھا کر اللہ اکبر کہنا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ يَقُولُ : كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ ، اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ ، وَقَالَ : اللَّهُ أَكْبَرُ.

حضرت ابو حمیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺجب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو قبلہ رُخ ہوکر ہاتھوں کو اٹھاتے اور”اَللّٰہ أکبر“کہتے تھے۔ [ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب افتتاح الصلاۃ۔حدیث:۸۰۳]

ہاتھ کہاں تک اٹھایا جائے؟

عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ رَأَى النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى تَكَادَ إِبْهَامَاهُ تُحَاذِى شَحْمَةَ أُذُنَيْهِ.

حضرت عبد الجبار بن وائل اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم ﷺکو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع فرماتے تو اپنے ہاتھ کانوں تک اتنا اٹھاتے تھے کہ آپ کے دونوں انگوٹھے آپ کے دونوں کانوں کی لَو کے برابر ہو جاتے ۔ [سنن نسائی،کتاب الافتتاح،باب موضع الابھامین عند الرفع۔حدیث:۸۸۲]

ہاتھ کیسے اٹھائے جائیں؟

عن بن عمر قال قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا اسْتَفْتَحَ أَحَدُكُمُ الصَّلَاةَ فَلْيَرْفَعْ يَدَيْهِ، وَلْيَسْتَقْبِلْ بِبَاطِنِهِمَا الْقِبْلَةَ، فَإِنَّ اللَّهَ أَمَامَهُ

حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی تکبیر کہے تو اُسے چاہیے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھائے اور اُن کا اندرونی حصہ (یعنی ہتھیلیوں کا رُخ )قبلہ کی طرف کرے ۔ [المعجم الاوسط،جزء:۸،ص:۱۱، باب من اسمہ محمود۔حدیث:۷۸۰۱]

ہاتھ کیسے باندھیں؟

عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ قَالَ فِيهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ

حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں:پھر آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی پشت ، گٹے اور کلائی پر رکھا ۔ [سنن ابوداؤد،کتاب الصلاۃ،تفریع ابواب استفتاح الصلاۃ،باب رفع الیدین فی الصلاۃ۔حدیث:۷۲۷]

ہاتھ کہاں باندھیں؟

عَنْ عَلقَمَةَ بنِ وِائِل بنِ حُجْرٍ،عَنْ اَبِيْهِ رَضِیَ الله عَنْهُ قَالَ: رَأيتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ يَمِيْنَهُ عَلَی شِمَالِهِ فِی الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ

حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے نماز میں اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا۔ [مصنف ابن ابی شیبۃ،باب وضع الیمین علی الشمال:۳/۳۲۰- ۳۲۱، حدیث:۳۹۵۹]

عَنْ أَبِى جُحَيْفَةَ أَنَّ عَلِيًّا - رضى الله عنه - قَالَ السُّنَّةُ وَضْعُ الْكَفِّ عَلَى الْكَفِّ فِى الصَّلاَةِ تَحْتَ السُّرَّةِ

حضرت علی کرّم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:نماز میں سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا جائے ۔ [سنن ابوداؤد،کتاب الصلاۃ،تفریع ابواب استفتاح الصلاۃ،باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلاۃ۔حدیث:۷۵۶]

ثناء پڑھنا۔

عَنْ أَبِى سَعِيدٍ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ قَالَ : سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ تَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ جب نماز شروع کرتے تو یہ پڑھتے

سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ تَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ. [سنن نسائی،کتاب الافتتاح،باب نوع آخر من الذکر بین افتتاح الصلاۃ وبین القرأۃ۔حدیث:۸۹۹]

تعوذ یعنی اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم پڑھنا۔

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ قَبْلَ الْقِرَاءَةِ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں:نبی کریم ﷺ تلاوت سے پہلے ’’أَعُوذُ بِا اللہِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ‘‘ پڑھا کرتے تھے ۔[مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلاۃ،باب متی یستعیذ؟۔حدیث:۲۵۸۹]

تسمیہ یعنی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- يَفْتَتِحُ صَلاَتَهُ بِ (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ )

ترجمہ: حضرت ابن عباس سے روایت ہےکہ نبی کریمﷺ اپنی نماز کا افتتاح’’بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ‘‘سے کیا کرتے تھے۔[ترمذی،کتاب الصلاۃ،باب من رای الجھر ب "بسم اللہ الر حمٰن الرحیم "،حدیث:۲۴۵]

تعوذ،تسمیہ،آمین وغیرہ کو آہستہ پڑھنا۔

عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ:قَالَ عُمَرُ:أَربَعٌ يُخْفَيْنَ عَنِ الْإِمَامِ:التَّعَوُّذُ،وَبِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحيْمِ، وَ آميْن، وَاَللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ۔

ترجمہ:حضرت ابراہیم نخعی﷫حضرت عمر کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں کہ چار چیزیں امام آہستہ کہے گا :تعوّذ، تسمیہ ،آمین اور اللّٰہم ربنا لک الحمد۔[کنز العمال،حدیث:۲۲۸۹۳]

خَمْسٌ يُخْفِيَنَّ:سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ،وَالتَّعَوُّذُ، وَبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَآمِينَ، وَاللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ۔

ترجمہ : مشہور تابعی حضرت ابراہیم نخعی ﷫فرماتے ہیں :پانچ چیزیں آہستہ آواز میں کہیں گے: ثناء ، تعوذ ، تسمیہ ،آمین اور تحمید ۔[مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلاۃ،باب مایخفی الامام؟۔حدیث:۲۵۹۷]

سورہ فاتحہ اور کوئی سورت ملانا۔

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ « لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا ». قَالَ سُفْيَانُ لِمَنْ يُصَلِّى وَحْدَهُ

ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺکا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں :اُس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ اور اُس سے زائد نہ پڑھے ۔ حدیث کے راوی حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ یہ حکم اُس شخص کے لئے ہے جواکیلے نماز پڑھ رہا ہو۔[سنن ابوداؤد،کتاب الصلاۃ،باب من ترک القرأۃ فی صلاتہ بفاتحۃ الکتاب ،حدیث:۸۲۲]

جب امام کے پیچھے نماز پڑھیں تو قرأت کے وقت خاموش رہیں۔

اِرشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ ترجمہ: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اُس کو کان لگا کر سنو اور خاموش رہوتاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔[ الأعراف:204]
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا ، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا ، وَإِذَا قَالَ : {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ} ، فَقُولُوا : آمِينَ

تر جمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا :امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے ۔جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو، اور جب وہ"غیر المغضوب علیھم ولاالضالین" کہے تو تم آمین کہو۔ (ابن ماجہ ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب اذا قرأ الامام فانصتوا، رقم الحدیث :۸۴۶،الصحیح البخاری،رقم الحدیث :۷۲۲ ،الصحیح المسلم،رقم الحدیث:۴۱۴، سنن الدار قطنی،حدیث:۱۲۴۳،۱۲۴۴،۱۲۴۵،سنن النسائی الکبری،حدیث:۹۹۴)

آمین آہستہ سے کہے۔

صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَرَأَ:{غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ}قَالَ: "آمِينَ " وَأَخْفَى بِهَا صَوْتَهُ۔

ترجمہ: حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں : نبی کریم ﷺنے ہمیں نماز پڑھائی اور جب سورہ فاتحہ ختم کی تو آہستہ آواز میں آمین کہی۔[مسند احمد،مسند الکوفیین،حدیث وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حدیث:۱۸۸۷۴]

چار رکعت والی نماز میں صرف پہلی دو رکعات میں سورہ ملائیں۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ؛ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ ، وَفِي الأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ

ترجمہ: حضرت ابو قتادہ فرماتے ہیں :نبی کریم پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھتے تھے اور آخری دو رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔[مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ،من کان یقرء فی الاولیین بفاتحۃ الکتاب وسورۃ،حدیث:۳۷۶۲]

رکوع کرنا۔

وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ۔

ترجمہ: اور رُکوع کرنے والوں کے ساتھ رُکوع کرو۔[البقرۃ:۴۳]
ایک معروف حدیث جو ”حدیثِ اعرابی“ کے نام سے مشہور ہے اُس میں مذکور ہے کہ نبی کریم ﷺنے اُس اَعرابی کو جس نے جلدی جلدی نماز پڑھی تھی ،آپﷺنے اُسےنماز سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا “یعنی قراءت سے فارغ ہونے کے بعد پھر تم اِطمینان کے ساتھ رکوع کرو ۔ [بخاری،کتاب الاذان،باب وجوب قرأۃ الامام والماموم فی الصلوات کلھا،حدیث:۷۵۷]

رکوع کرنے کا طریقہ

رکوع کرنے کے طریقے میں کئی چیزیں ہیں جن کی تفصیل احادیث طیبہ کے ساتھ مندرجہ ذیل ہے:۔

رکوع میں کمر سیدھی ہونی چاہیئے

حضرت ابوحمیدساعدی نےنبی کریمﷺ کی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے رکوع کا طریقہ یہ اِرشاد فرمایا:۔فَإِذَا رَكَعَ أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ ، ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرَهُ جب آپﷺ نے رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو پکڑا پھر اپنی کمر کو ہموار اور برابر رکھا۔ [صحیح ابن خزیمہ،کتاب الصلاۃ،باب استقبال اطراف اصابع الیدین من القبلۃ فی السجود،حدیث:۶۴۳]

رکوع میں سر کو کمر کے برابر سیدھا رکھنا چاہیئے

حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:۔ كَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يُشْخِصْ رَأْسَهُ، وَلَمْ يُصَوِّبْهُ وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ جب آپ ﷺرکوع کرتے تو نہ اپنے سر کو اونچا رکھتے تھے اور نہ نیچا ،بلکہ دونوں کے درمیان (یعنی برابر) رکھتے تھے ۔ [مسلم،کتاب الصلاۃ،باب مایجمع صفۃ الصلاۃ الخ۔۔۔،حدیث:۴۹۸]

رکوع میں ہاتھوں کو پہلو سے الگ اور اُنگلیاں کشادہ رکھنی چاہیئے

يَا بُنَيَّ! إِذَا رَكَعْتَ فَضَعْ كَفَّيْكَ عَلَى رُكْبَتَيْكَ، وَفَرِّجْ بَيْنَ أَصَابِعَكَ، وَارْفَعْ يَدَيْكَ عَنْ جَنْبَيْكَ۔

ترجمہ: نبی کریم ﷺنے حضرت انس بن مالک سے ارشاد فرمایا : اے میرے بیٹے ! جب تم رکوع کرو تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھو اور اپنی انگلیوں کو کشادہ رکھو اور اپنے ہاتھوں کو پہلووں سے الگ رکھو۔ [المعجم الاوسط،جزء:۶/ص:۱۲۴، حدیث:۵۹۹۱]

رکوع میں ہاتھوں کو گھٹنوں پر سیدھا جما کر اور پہلو سے الگ کر کے رکھنا چاہیے

ثُمَّ رَكَعَ فَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ كَأَنَّهُ قَابِضٌ عَلَيْهِمَا، وَوَتَّرَ يَدَيْهِ فَتَجَافَى عَنْ جَنْبَيْهِ

ترجمہ: حضرت ابو حمید الساعدی فرماتے ہیں : پھر آپ ﷺنے رکوع کیا اور اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر اس طرح رکھا گویا آپ انہیں پکڑے ہوئے ہوں اور اپنے ہاتھوں کو سیدھا رکھا اور انہیں پہلوؤں سے الگ رکھا۔ [سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ،باب افتتاح الصلاۃ،حدیث:۷۳۴]

رکوع کی تسبیحات اور اُس کی تعداد

إذَا رَكَعَ أَحَدُكُمْ، فَقَالَ فِي رُكُوعِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ العَظِيمِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَدْ تَمَّ رُكُوعُهُ، وَذَلِكَ أَدْنَاهُ

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں:جب تم میں سے کوئی رکوع کر ے اور اپنے رکوع میں تین مرتبہ یہ کہے”سُبْحَانَ رَبِّيَ العَظِيمِ “ تو اُس نے اپنا رکوع مکمل کرلیا ، اور یہ کم سے کم مقدار ہے ۔ [ترمذی،کتاب الصلاۃ،باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود،حدیث:۲۶۱]

قومہ میں اطمینان سے کھڑا ہونا

وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ، حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ، لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ جَالِسًا

ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں : آپﷺ رکوع سے اٹھ کر جب تک سیدھے کھڑے نہ ہو جاتے سجدہ نہیں کرتے تھے اور سجدہ سے اُٹھ کر جب تک سیدھے بیٹھ نہ جاتے دوسرے سجدہ میں نہیں جاتے تھے۔ [مسلم،کتاب الصلاۃ، باب مایجمع صفۃ الصلاۃ الخ۔۔۔،حدیث:۴۹۸]

رکوع سے کھڑے ہوتے ہوئے سمع اللہ اور قومہ میں تحمید کہنا

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ، ثُمَّ يَقُولُ وَهُوَ قَائِمٌ: رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :نبی کریمﷺجب نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے پھر(قیام و قراءت سے فارغ ہوکر)جب رکوع کرتے تو تکبیر کہتے پھر رکوع سے اپنی کمر مبارک اٹھاتے تو ”سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ“کہتے پھر کھڑے ہوکر”رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ “کہتے ۔[بخاری،کتاب الاذان،باب التکبیر اذا قام من السجود، حدیث:۷۸۹]

اگر امام کے پیچھے ہو تو صرف تحمید کہے

عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:وَإِذَا قَالَ الْإِمَامُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺکا یہ ارشاد مروی ہے : جب امام ”سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ“کہے تو تم ”رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ“ کہو ۔[سنن دارمی،کتاب الصلاۃ،باب القول بعد رفع الرأس من الرکوع،حدیث:۱۳۱۰]

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا :امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے ۔جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو،اور جب ’سمع اللہ لمن حمدہ‘کہے تو تم ’اللھم ربنا لک الحمد ‘کہو۔(سنن نسائی،کتاب الافتتاح ،باب تاویل قولہ عز وجل "اذا قری القرآن فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون "،رقم الحدیث:۹۲۱،سنن النسائی الکبری، حدیث:۹۹۳)

رکوع میں جاتے ہوئےاور اٹھ کررفع یدین نہ کرنا

عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلاَ أُصَلِّى بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِى أَوَّلِ مَرَّةٍ

ترجمہ: حضرت علقمہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا :کیا میں تم لو گوں کو رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھنے کی طرح نماز نہ پڑھا دوں؟پھر آپ نے نماز پڑھایا تو ہاتھ نہ اٹھایا مگر صرف پہلی مرتبہ(یعنی نماز شروع کر تے وقت)۔یہ حدیث صحیح ہے۔ اور امام ترمذی نے کہا بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور تابعین اسی کے قائل ہیں۔ (تر مذی ،کتاب الصلاۃ ،باب ماجاء ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یرفع الا فی اول مرۃ،رقم الحدیث:۲۵۷،نسائی رقم الحدیث: ۱۰۵۸، ابوداود، رقم الحدیث: ۷۴۸،۷۴۹،مصنف ابن ابی شیبہ،حدیث:۲۴۵۶)

عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- وَمَعَ أَبِى بَكْرٍ وَمَعَ عُمَرَ رضى الله عنهما فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلاَّ عِنْدَ التَّكْبِيرَةِ الأُولَى فِى افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ

تر جمہ:حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں :میں حضور نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنھما کے ساتھ نماز پڑھی ،تو وہ حضرات صرف نماز کے شروع ہی میں ہاتھ اٹھاتے تھے۔(سنن الدار قطنی، کتاب الصلاۃ،باب ذکر التکبیر ورفع الیدین عند الافتتاح ، حدیث :۱۱۴۴،سنن الکبری للبیھقی، ج:۲ / ص: ۷۹، حدیث:۲۳۶۵، مسند ابی یعلی الموصلی،ج:۵/ص:۳۶،مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ،حدیث:۵۰۳۹)

سجدہ کرنا

ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِبْ۠" سجدہ کر اور[اپنے رب سے]قریب ہوجا۔[سورہ علق:۱۹]

سجدہ میں جانے کا طریقہ

عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ:رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السُّجُودِ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ

ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم ﷺکو دیکھا کہ آپ نے سجدہ میں جاتے ہوئے اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھا اور سجدے سے کھڑے ہوتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اُٹھایا ۔ [ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب السجود،حدیث:۸۸۲]

سجدہ میں زمین پر سات اعضاء رکھنے چاہیئے

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ: عَلَى الْجَبْهَةِ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ عَلَى الْأَنْفِ، وَالْيَدَيْنِ وَالرُّكْبَتَيْنِ، وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے آپ ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے:مجھے سات اعضاء پر سجدہ کا حکم دیا گیا ہے : چہرہ پر اور یہ کہتے ہوئے آپ نےاپنے ہاتھ سے ناک کی جانب اِشارہ کیا ،اور دونوں ہاتھ ،گھٹنے اور پاؤں کے کناروں پر ۔ [سنن نسائی،کتاب التطبیق،باب السجود علی الیدین،حدیث:۱۰۹۷]

عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:إِذَا سَجَدَ الْعَبْدُ سَجَدَ مَعَهُ سَبْعَةُ أَطْرَافٍ: وَجْهُهُ، وَكَفَّاهُ، وَرُكْبَتَاهُ، وَقَدَمَاهُ

ترجمہ: حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ اُنہوں نے نبی کریمﷺکو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اُس کے ساتھ سات اعضاء سجدہ کرتے ہیں : اُس کا چہرہ ، دونوں ہتھیلیاں،گھٹنے اور دونوں پاؤں۔ [مسلم،کتاب الصلاۃ،باب اعضاء السجود والنھی عن کف الشعر والثوب وعقص الرأس فی الصلاۃ،حدیث:۴۹۱]

سجدہ میں سر کو دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھنا چاہیئے

حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺکی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا:۔ فَلَمَّا، سَجَدَ سَجَدَ بَيْنَ كَفَّيْهِ نبی کریم ﷺنے جب سجدہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان سجدہ فرمایا۔ [مسلم،کتاب الصلاۃ،باب وضع یدہ الیمنیٰ علی الیسریٰ بعد تکبیرۃ الاحرام الخ۔۔۔،حدیث:۴۰۱]

سجدہ میں ہاتھ کانوں کے بالمقابل ہونے چاہیئے

حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ اُنہوں نے نبی کریمﷺکےسجدہ کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا ثُمَّ سَجَدَ، فَكَانَتْ يَدَاهُ حِذَاءَ أُذُنَيْهِ یعنی پھر آپﷺنے سجدہ فرمایا تو آپ کے ہاتھ آپ کے دونوں کانوں کی سیدھ میں تھے۔[مسند احمد،مسند الکوفیین،حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ، حدیث: ۱۸۸۷۸]

سجدہ میں ہاتھوں اور پاؤں کی اُنگلیوں کو قبلہ رُخ رکھنا چاہیئے

حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِهِ الْقِبْلَةَ آپ ﷺ نے سجدہ میں اپنی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھا۔[صحیح ابن خزیمہ،کتاب الصلاۃ،باب استقبال اطراف اصابع الیدین من القبلۃ فی السجود،حدیث:۶۴۳] وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ رِجْلَيْهِ إِلَى الْقِبْلَةِ آپﷺنے سجدہ میں اپنے پاؤں کی انگلیوں کا رُخ قبلہ کی طرف کیا۔ [صحیح ابن حبان،ج:۵/ص:۱۸۶، حدیث:۱۸۶۹]

سجدہ میں دونوں کُہنیاں زمین سے اُٹھی ہوئی ہونی چاہیئے

عن البراء بن عازب قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إِذَا سَجَدْتَ فَضَعْ كَفَّيْكَ، وَارْفَعْ مِرْفَقَيْكَ ۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو اپنے ہاتھوں کو زمین پر اور کہنیوں کو اٹھا کر رکھو ۔[صحیح ابن خزیمہ،کتاب الصلاۃ،باب وضع الکفین علی الارض ورفع المرفقین فی السجود،حدیث:۶۵۶]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ قَالَ : اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ ، وَلاَ يَسْجُدْ أَحَدُكُمْ وَهُوَ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ كَالْكَلْبِ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: سجدوں میں اعتدال کرو اور تم میں سے کوئی سجدہ اس طرح سے نہ کرے کہ اپنے بازوں کو زمین پر کتے کی طرح بچھائے ہوا ہو۔[ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب الاعتدال فی السجود،حدیث:۸۹۲]

سجدہ میں دونوں ہاتھ پہلووں سے الگ ہونے چاہیئے

حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺکی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ثُمَّ يَقُولُ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». ثُمَّ يَهْوِى إِلَى الأَرْضِ فَيُجَافِى يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ پھر نبی کریم ﷺنے(سجدہ میں جانے کیلئے) اللہ اکبر کہا اور زمین پر سجدہ کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلووں سے الگ رکھا۔[سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ،باب افتتاح الصلاۃ،حدیث:۷۳۰]

حَدَّثَنَا أَحْمَرُ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنْ كُنَّا لَنَأْوِي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يُجَافِي بِيَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ إِذَا سَجَدَ

رسول اللہ ﷺ کے صحابی سیدنا احمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تو ہاتھوں( اور بازوؤں) کو پہلوؤں سے اتنا دور کرتے کہ ہمیں ( اس مشقت کی کیفیت کو دیکھ کر ) ترس آتا۔[ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب السجود،حدیث: ۸۸۶]

سجدہ کی تسبیحات اور اُس کی تعداد

وَإِذَا سَجَدَ، فَقَالَ فِي سُجُودِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَدْ تَمَّ سُجُودُهُ، وَذَلِكَ أَدْنَاهُ

حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں : جب تم میں سے کوئی سجدہ کر ے اور اپنے سجدہ میں تین مرتبہ یہ کہے : " سبحان ربی الاعلیٰ " تو اُس نے اپنا سجدہ مکمل کرلیا ، اور یہ کم سے کم مقدار ہے ۔ [ترمذی،کتاب الصلاۃ،باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود،حدیث:۲۶۱]

جلسہ میں سکون اور اطمینان کے ساتھ بیٹھنا

نبی کریم ﷺنے اُس شخص کو جس نے جلدی جلدی نماز پڑھی تھی ، نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا پھر سجدہ کرو اطمینان کے ساتھ ، پھر سجدہ سے اٹھو یہاں تک کہ اطمینا ن سے بیٹھ جاؤ،پھر دوسرا سجدہ اطمینان سے کرو۔[بخاری،کتاب الاذان،باب امر النبی ﷺ الذی لایتم رکوعہ بالاعادۃ،حدیث:۷۹۳]

سجدہ سے قیام میں جانے کا طریقہ

عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ:رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السُّجُودِ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ

ترجمہ: حضرت وائل بن حجررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم ﷺکو دیکھا کہ آپ نے سجدہ میں جاتے ہوئے اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھا اور سجدے سے کھڑے ہوتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اُٹھایا ۔ [ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا،باب السجود،حدیث:۸۸۲]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَضُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيْهِ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :نبی کریمﷺنماز میں اپنے دونوں پاؤں کی انگلیوں پر زور دے کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ [ترمذی،کتاب الصلاۃ،حدیث:۲۸۸]

تمام رکعات کا طریقہ پہلی رکعت کی طرح ہے

حدیثِ اعرابی میں پہلی رکعت کا مکمل طریقہ سمجھانے کے بعد آپ ﷺنے دوسری تمام رکعات کے لئے اسی طریقے کو متعین کیا ،چنانچہ فرمایا ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلاَتِكَ كُلِّهَاپھر یہی کام اپنی ساری نماز میں کرو۔ [بخاری،کتاب الایمان والنذور،باب اذا حنث ناسیا فی الایمان،حدیث:۶۶۶۷]

دوسری رکعت میں ثناء اور تعوذ نہیں ہے

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ اسْتَفْتَحَ الْقِرَاءَةَ بِـ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَلَمْ يَسْكُتْ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریمﷺ جب دوسری رکعت سے اٹھتے تو اَلْحَمْدُ لِلہِ سے شروع فرماتے اور (ثناء کے لئے ) خاموشی نہ فرماتے ۔[مسلم،کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ،باب مایقال بین تکبیرۃ الاحرام والقراءۃ، حدیث:۵۹۹]

ہر دو رکعت میں قعدہ کیاجائے گا

وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:نبی کریم ﷺہر دو رکعت میں التحیات پڑھا کرتے تھے ۔[مسلم،کتاب الصلاۃ،باب مایجمع صفۃ الصلاۃ الخ۔۔۔۔،حدیث:۴۹۸]

جلسہ اور قعدہ میں بیٹھنے کا طریقہ

نماز میں بیٹھنا خواہ دو سجدوں کے درمیان ہو یا قعدہ میں ، اِسی طرح پہلا قعدہ ہو یا آخری سب کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ بایاں پاؤں بچھاکر اُس پر بیٹھا جائے اور دایاں پاؤں اِس طرح سے کھڑا رکھا جائے کہ اُس کی اُنگلیاں قبلہ رُخ ہوں اور دونوں ہاتھ سامنے کی جانب دائیں بائیں ران پر ہوں۔احادیثِ ذیل میں اِس کی تصریح ملاحظہ فرمائیں:۔

قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا ہوا اور دایاں کھڑا ہوا ہونا چاہیئے

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : مِنْ سُنَّةِ الصَّلاَةِ أَنْ تُضْجِعَ رِجْلَكَ الْيُسْرَى ، وَتَنْصِبَ الْيُمْنَى قَالَ : وَكَانَ النَّبِيُّ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلاَةِ أَضْجَعَ الْيُسْرَى وَنَصَبَ الْيُمْنَى

ترجمہ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نماز کی سنت میں سے یہ ہے کہ تم اپنے بائیں پاؤں کوبچھاؤاور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھو ۔پھر فرمایا : نبی کریم ﷺجب بھی نماز میں بیٹھتے تو اپنے بائیں پاؤں کو بچھاتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کرتے۔[صحیح ابن خزیمہ،کتاب الصلاۃ،باب السنۃ فی الجلوس بین السجدتین ،حدیث:۶۷۹]

قعدہ میں دائیں پاؤں کی انگلیوں کا رُخ قبلہ کی طرف ہونا چاہیئے

حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺکی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرماتے ہیں ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَأَقْبَلَ بِصَدْرِ الْيُمْنَى عَلَى قِبْلَتِهِ پھر آپﷺبیٹھے اور اپنے بائیں پاؤں کو بچھایا اور دائیں پاؤں کے اگلے حصے (یعنی انگلیوں )کا رُ خ قبلہ کی طرف کیا ۔[ابوداؤد،کتاب الصلاۃ،باب من ذکر التورک فی الرابعۃ،حدیث:۹۶۷]

قعدہ میں دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھیں

عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدَ يَدْعُو، وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى

تر جمہ : حضر ت عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :آپﷺ جب تشہد پڑھنے کے لئے بیٹھتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے۔[مسلم،کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ،باب صفۃ الجلوس فی الصلاۃ وکیفیۃ وضع الیدین علی الفخذین،حدیث:۵۷۹]

تشہد کے کلمات

حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریمﷺ نےمجھے تشہد کے کلمات اس طرح سکھائے جیسے قرآن کریم کی سورت سکھاتے ہیں، اور اُس وقت میرا ہاتھ آپ کے ہاتھوں میں تھا،اور وہ تشہد کے کلمات یہ ہیں اَلتَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، اَلسَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ [بخاری،کتاب الاستئذان،باب الاخذ بالیدین،حدیث:۶۲۶۵]

قعدہ اولی میں صرف تشہد پڑھا جائے گا

ثُمَّ إِنْ كَانَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ نَهَضَ حِينَ يَفْرُغُ مِنْ تَشَهُّدِهِ، وَإِنْ كَانَ فِي آخِرِهَا دَعَا بَعْدَ تَشَهُّدِهِ بِمَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدْعُوَ، ثُمَّ يُسَلِّمُ

حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہےکہ جب وہ نماز کے درمیان (یعنی قعدہ اولی میں)ہوتے تو تشہد سے فارغ ہونے کے بعد کھڑے ہوجاتے اور جب نماز کے آخر(یعنی قعدہ اخیرہ میں )ہوتے تو تشہد کے بعد جتنا اللہ چاہتا ،آپ دعاء کرتے ، پھر سلام پھیر لیتے ۔[صحیح ابن خزیمہ،کتاب الصلاۃ،باب الاقتصار فی الجلسۃ الاولیٰ علی التشھد وترک الدعا بعد التشھد الاولیٰ ، حدیث:۷۰۸]

تشہد میں انگلی سے اشارہ کا طریقہ

وَقَبَضَ ثِنْتَيْنِ وَحَلَّقَ حَلْقَةً وَرَأَيْتُهُ يَقُولُ هَكَذَا وَحَلَّقَ بِشْرٌ الْإِبْهَامَ وَالْوُسْطَى وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ

حضرت وائل بن حجررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریمﷺنےدو انگلیوں( یعنی چھوٹی اور اُس سے متصل انگلی) کو بند کیا اور( درمیا نی انگلی اور انگوٹھے سے )حلقہ بنایا ، اور میں نے اُن کو اس طرح اشارہ کرتے ہوئے دیکھا ہے پھر بشر نے انگوٹھے اور درمیانی انگلی سے حلقہ بنایا اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا ۔[ابوداؤد،کتاب الصلاۃ،رفع الیدین فی الصلاۃ،حدیث:۷۲۶]

اشارہ میں انگلی کا نہ ہلانا

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ ذَكَرَ «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ إِذَا دَعَا، وَلَا يُحَرِّكُهَا»۔

حضرت عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم ﷺ جب تشہد پڑھتے تو انگلی سے اشارہ کرتے تھے اور اُسے حرکت دیتے نہیں رہتے تھے۔[ابوداؤد،کتاب الصلاۃ،باب الاشارۃ فی التشھد،حدیث:۹۸۹]

درود شریف

عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِى لَيْلَى قَالَ لَقِيَنِى كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ فَقَالَ أَلاَ أُهْدِى لَكَ هَدِيَّةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - فَقُلْتُ بَلَى ، فَأَهْدِهَا لِى . فَقَالَ سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ الصَّلاَةُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ عَلَّمَنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ . قَالَ : قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

حضرت کعب بن حجرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم نے نبی کریم ﷺسے سوال کیا : یارسول اللہ ! ہم نے آپ پر سلام کا طریقہ تو سیکھ لیا ہے ، درود کس طرح بھیجیں ؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [بخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب :۱۰۔حدیث:۳۳۷۰]

عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ ، وَأَبِي عُبَيْدَةَ ، قَالاَ : قَالَ عَبْدُ اللهِ : يَتَشَهَّدُ الرَّجُلُ ، ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ يَدْعُو لِنَفْسِهِ

حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ :آدمی کو چاہیے کہ تشہد پڑھے ، پھر نبی کریم ﷺپر درود پڑھے ، پھر اپنے لئے دعاء کرے ۔[المستدرک للحاکم،کتاب الامامۃ وصلاۃ الجماعۃ،باب التامین،حدیث:۹۹۰]

دعائے ماثورہ

کوئی بھی دعا پڑھ سکتا ہے جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ثُمَّ يَتَخَيَّرُ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ فَيَدْعُو پھر کوئی بھی پسندیدہ دعا اختیار کر کے مانگے۔[بخاری،کتاب الاذان،باب مایتخیر من الدعاء بعد التشھد،حدیث:۸۳۵]

عَنْ أَبِى بَكْرٍ الصِّدِّيقِ - رضى الله عنه - أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - عَلِّمْنِى دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِى صَلاَتِى . قَالَ :قُلِ اللَّهُمَّ إِنِّى ظَلَمْتُ نَفْسِى ظُلْمًا كَثِيرًا ، وَلاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ ، فَاغْفِرْ لِى مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ ، وَارْحَمْنِى ، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺسے درخواست کی : یا رسول اللہ ! مجھے ایسی دعاء بتلائیے جو میں اپنی نماز میں مانگا کروں۔ آپ ﷺنے یہ دعاء تلقین فرمائی: یا اللہ بے شک میں نے اپنے نفس پر بڑا ظلم کیا،اور تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں،تو تو مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما بے شک تو بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔[ بخاری،کتاب الدعوات،باب الدعا فی الصلاۃ،حدیث:۶۳۲۶]

سلام پھیرنا

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیںوَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ نبی کریم ﷺنماز کو سلام پر ختم فرمایاکرتے تھے ۔[مسلم،کتاب الصلاۃ،باب ما یجمع صفۃ الصلاۃ الخ۔۔۔۔۔،حدیث:۴۹۸]

سلام دونوں جانب پھیرا جاتا ہے

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ خَدِّهِ , السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :نبی کریمﷺ اپنے دائیں اور بائیں دونوں طرف سلام پھیرا کرتے تھے ، یہاں تک کہ آپ ﷺکے رخسارِ انور کی سفیدی دکھائی دیتی تھی ۔ [سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ، باب فی السلام،حدیث:۹۹۶]

نماز کے بعد دعاء

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ:قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ؟ قَالَ: جَوْفَ اللَّيْلِ الآخِرِ، وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ المَكْتُوبَاتِ

ترجمہ : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺسے سوال کیا گیا کہ کون سی دعاء زیادہ قبول ہوتی ہے ؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا :رات کے آخری پہراور فرض نمازوں کے بعد ۔[ترمذی،کتاب الدعوات، حدیث:۳۴۹۹]

عَنْ حَبِيبِ بْنِ مَسْلَمَةَ الْفِهْرِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : لاَ يَجْتَمِعُ مَلاَ فَيَدْعُو بَعْضُهُمْ ، وَيُؤَمِّنُ الْبَعْضُ ، إِلاَّ أَجَابَهُمُ اللَّهُ

ترجمہ: حضرت حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺکا اِرشاد فرمایا کہ: کوئی جماعت جو جمع ہو اور اُن میں سے بعض دعاء کریں اور دوسرے لوگ اُس دعاء پر آمین کہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کی دعاء کو قبول فرماتا ہے [المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، باب ذکر مناقب حبیب بن مسلمہ الفہری،حدیث:۵۴۷۸]

مرد اور عورت کی نماز میں فرق

عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِى حَبِيبٍ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ فَقَالَ : إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الأَرْضِ ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِى ذَلِكَ كَالرَّجُلِ

ترجمہ : حضرت یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں، آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملالیا کرو، کیوں کہ عورت (کا حکم سجدہ کی حالت میں) مرد کی طرح نہیں ہے۔ [السنن الکبریٰ للبیہقی،کتاب الصلاۃ،باب مایستحب للمرأۃ من ترک،حدیث:۳۳۲۵]

عَنْ وَائِلِ بن حُجْرٍ، قَالَ: جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يَا وَائِلَ بن حُجْرٍ، إِذَا صَلَّيْتَ فَاجْعَلْ يَدَيْكَ حِذَاءَ أُذُنَيْكَ، وَالْمَرْأَةُ تَجْعَلُ يَدَيْهَا حِذَاءَ ثَدْيَيْهَا

ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (درمیان میں طویل عبارت ہے، اس میں ہے کہ) حضورصلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے ارشاد فرمایا: اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔ [المعجم الکبیر للطبرانی: ج/۹،ص:۱۴۴،حدیث:۱۷۴۹۷، مجمع الزوائد: ج/۹،ص:۶۲۴، حدیث۱۶۰۵]

عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهُ قَالَ :« خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ الأُوَلُ ، وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ ». وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَتَجَافُوا فِى سُجُودِهِمْ ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ يَنْخَفِضْنَ فِى سُجُودِهِنَّ

ترجمہ: صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مردوں کے صفوں میں سب سے بہتر پہلا صف ہے اور عورتوں کے صفوں میں سب سے بہتر آخری صف ہے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ سجدے میں (اپنی رانوں کو پیٹ سے) جدا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ خوب سمٹ کر (یعنی رانوں کو پیٹ سے ملا کر) سجدہ کریں۔ [السنن الکبریٰ للبیہقی،کتاب الصلاۃ،باب مایستحب للمرأۃ من ترک،حدیث:۳۳۲۳]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- : إِذَا جَلَسْتِ الْمَرْأَةُ فِى الصَّلاَةِ وَضَعَتْ فَخِذَهَا عَلَى فَخِذِهَا الأُخْرَى ، وَإِذَا سَجَدْتْ أَلْصَقَتْ بَطْنَهَا فِى فَخِذَيْهَا كَأَسْتَرِ مَا يَكُونُ لَهَا ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَيَقُولُ : يَا مَلاَئِكَتِى أُشْهِدُكُمْ أَنِّى قَدْ غَفَرْتُ لَهَا

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو اس کے لیے زیادہ پردے کی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتا ہے اور فرماتا ہے: اے میرے ملائکہ ! گواہ بن جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔[السنن الکبریٰ للبیہقی،کتاب الصلاۃ،باب مایستحب للمرأۃ من ترک،حدیث: ۳۳۲۴]

عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : إذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَحْتَفِز ، وَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا

ترجمہ: حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: عورت سمٹ کر سجدہ کرے اور اپنے پیٹ کو رانوں سے ملا کر رکھے۔[مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ،باب المرأۃ کیف تکون فی سجودھا؟،حدیث:۲۷۹۳]

عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الأَشَجِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَلاَةِ الْمَرْأَةِ ؟ فَقَالَ : تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عورت کی نماز سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خوب سمٹ کر نماز پڑھے اور بیٹھنے کی حالت میں سرین کے بل بیٹھے۔ [مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ،باب المرأۃ کیف تکون فی سجودھا؟،حدیث:۲۷۹۴]

عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ؛ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَهُ عَلَى فَخِذَيْهِ إذَا سَجَدَ كَمَا تَصْنَعُ الْمَرْأَةُ.

ترجمہ: حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ اس بات کو مکروہ جانتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں پر رکھے، جیسا کہ عورت رکھتی ہے۔[مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ،باب المرأۃ کیف تکون فی سجودھا؟،حدیث:۲۷۹۶]

عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إبْرَاهِيمَ ، قَالَ : إذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَلْزَقْ بَطْنَهَا بِفَخِذَيْهَا ، وَلاَ تَرْفَعْ عَجِيزَتَهَا ، وَلاَ تُجَافِي كَمَا يُجَافِي الرَّجُلُ.

حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عورت جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے ملا کر رکھے،وہ نہ اپنے سرین کو اٹھائے اور نہیں ایسے پھیل کر سجدہ کرے جیسے مرد پھیل کر کرتا ہے۔ [مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ،باب المرأۃ کیف تکون فی سجودھا؟،حدیث:۲۷۹۸]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:[ نماز کی حالت میں جب کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جس سے خبردار کرنا ہو تو] مردوں کے لئے تسبیح ہے[یعنی وہ سبحان اللہ کہہ کر توجہ دلائے] اور عورتوں کے تصفیق یعنی ہاتھ کو ہاتھ پر مارنا ہے۔[یعنی اسے توجہ دلانے کی ضرورت ہوتو آواز نہ نکالے بلکہ ہاتھ پر ہاتھ مار کر متوجہ اور خبردار کرے] [بخاری،کتاب الصلاۃ،باب التصفیق للنساء،حدیث:۱۲۰۳]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ صَلَّيْتُ أَنَا وَيَتِيمٌ فِي بَيْتِنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ خَلْفَنَا

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے گھر میں نماز ادا کیا اس طرح کہ میں اور یتیم حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے اور ہماری ماں امِّ سُلیم ہمارے پیچھے۔[یعنی عورت مرد کے صف میں کھڑی نہ ہو اگرچہ وہ مرد اس کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔] [بخاری،کتاب الاذان،باب المرأۃ وحدھا تکون صفا،حدیث:۷۲۷]

نماز کے بعد دعا

عَنْ أَبِى أُمَامَةَ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَىُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ قَالَ : جَوْفُ اللَّيْلِ الآخِرُ وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ .

تر جمہ: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:حضور نبی اکرم ﷺسے پو چھا گیا کہ:کس وقت کی دعا زیادہ سنی جاتی ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: رات کی آخری حصے میں( کی گئی دعا )اور فر ض نمازوں کے بعد (کی گئی دعا جلد مقبول ہوتی ہے)۔ (تر مذی ،کتاب الدعوات عن رسول اللہ ﷺ،باب ۷۹،حدیث: ۳۴۹۹)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « أَتَانِى اللَّيْلَةَ رَبِّى تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِى أَحْسَنِ صُورَةٍ قَالَ أَحْسَبُهُ قَالَ فِى الْمَنَامِ[حدیث طویل ومنھا] وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِذَا صَلَّيْتَ فَقُلِ اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ وَإِذَا أَرَدْتَ بِعِبَادِكَ فِتْنَةً فَاقْبِضْنِى إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُونٍ.

ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے فر مایا: آج رات میرا رب میرے پاس(خواب میں)نہایت احسن صورت میں آیا اور حکم دیاکہ:ائے محمد!(ﷺ)جب آپ نماز ادا کر چکیں تو یہ دعا مانگیں:ائے اللہ !میں تجھ سے اچھے اعمال کے اپنانے اور برے اعمال کو چھوڑنے اور مسا کین سے محبت کرنے کا سوال کرتا ہوں اور جب تو اپنے بندوں کو آزمانے کا ارادہ کرے تو مجھے اس سے پہلے ہی اپنے پاس بلالے۔ (تر مذی،کتاب التفسیر عن رسول اللہ ﷺ،باب ومن سورۃ ص،حدیث:۳۲۳۳)

عَنِ الصُّنَابِحِيّ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، أَنَّ رَسُولَ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِهِ ، وَقَالَ : يَا مُعَاذُ ، وَاللَّهِ إِنِّي لأُحِبُّكَ ، وَاللَّهِ إِنِّي لأُحِبُّكَ ، فَقَالَ : أُوصِيكَ يَا مُعَاذُ لاَ تَدَعَنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلاَةٍ تَقُولُ : اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ ، وَشُكْرِكَ ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ ، وَأَوْصَى بِذَلِكَ مُعَاذٌ الصُّنَابِحِيَّ ، وَأَوْصَى بِهِ الصُّنَابِحِيُّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ

ترجمہ: حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ایک دن ان کا ہاتھ پکڑ کر فر مایا:ائے معاذ ! میں تم سے محبت کرتا ہوں ،حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:(یارسول اللہ ﷺ! )میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں ۔پھر آپ ﷺ نے فرمایا:ائے معاذ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ:ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنا ہر گز نہ چھوڑنا ۔ائے اللہ ! اپنے ذکر ،شکر اور اچھی طرح عبادت کی ادائیگی میں میری مدد فر ما ،پھر حضرت معاذ نے اس دعا کی نصیحت صنابحی کو کی اور انہوں نے ابو عبد الرحمن کو۔(سنن ابو داود،کتاب الصلوٰۃ ،باب فی الاستغفار،حدیث:۱۵۲۲)

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ الأَوْدِىَّ قَالَ كَانَ سَعْدٌ يُعَلِّمُ بَنِيهِ هَؤُلاَءِ الْكَلِمَاتِ كَمَا يُعَلِّمُ الْمُعَلِّمُ الْغِلْمَانَ الْكِتَابَةَ ، وَيَقُولُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - كَانَ يَتَعَوَّذُ مِنْهُنَّ دُبُرَ الصَّلاَةِ: اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ .

تر جمہ: حضرت عمرو بن میمون الاودی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضرت سعد رضی اللہ عنہ اپنے صاحبزادوں کو اِن کلمات کو ایسے سکھاتے جیسے استاذ بچوں کو لکھنا سکھاتا ہے،اور فرماتے: بے شک رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد ان کلمات کے ذریعے اللہ تعالی سے پناہ طلب کیا کرتے تھے:ائے اللہ میں بزدلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں ،اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ ذلت کی زندگی کی طرف لوٹایا جائوں ،اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں دنیا کے فتنے سے اور عذاب قبر سے۔ (بخاری ،کتاب الجہاد والسیر،باب ما یتعوذ من الجبن،حدیث:۲۸۲۲)

عَنِ الأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ : صَلَّى بِنَا إِمَامٌ لَنَا يُكْنَى أَبَا رِمْثَةَ ، فَقَالَ : صَلَّيْتُ هَذِهِ الصَّلاَةَ - أَوْ مِثْلَ هَذِهِ الصَّلاَةِ - مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ، قَالَ : وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ ، وَعُمَرُ يَقُومَانِ فِي الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ عَنْ يَمِينِهِ ، وَكَانَ رَجُلٌ قَدْ شَهِدَ التَّكْبِيرَةَ الأُولَى مِنَ الصَّلاَةِ ، فَصَلَّى نَبِيُّ اللهِ صلى الله عليه وسلم ، ثُمَّ سَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ ، وَعَنْ يَسَارِهِ حَتَّى رَأَيْنَا بَيَاضَ خَدَّيْهِ ، ثُمَّ انْفَتَلَ كَانْفِتَالِ أَبِي رِمْثَةَ - يَعْنِي - فَقَامَ الرَّجُلُ الَّذِي أَدْرَكَ مَعَهُ التَّكْبِيرَةَ الأُولَى مِنَ الصَّلاَةِ يَشْفَعُ ، فَوَثَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ ، فَأَخَذَ بِمَنْكِبِهِ فَهَزَّهُ ، ثُمَّ قَالَ : اجْلِسْ فَإِنَّهُ لَمْ يُهْلِكْ أَهْلَ الْكِتَابِ ، إِلاَّ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بَيْنَ صَلَوَاتِهِمْ فَصْلٌ ، فَرَفَعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بَصَرَهُ ، فَقَالَ : أَصَابَ اللَّهُ بِكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ.

تر جمہ:حضرت ازرق بن قیس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ:امام نے ہمیں نماز پڑھائی جن کی کنیت ابو رمثہ رضی اللہ عنہ تھی ،فر مایا کہ: میں نے یہ نماز یا اس جیسی نماز نبی اکرم ﷺکے ساتھ پڑھی ہے،فر مایا کہ:حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما پہلی صف میں دائیں طرف کھڑے تھے اور ایک شخص نماز کی پہلی تکبیر میں آکر شامل ہوا ،جب حضور نبی اکرم ﷺنے نماز پڑھالی تو دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرایہاں تک کہ آپ ﷺکے رخسار مبارک کی سفیدی ہم نے دیکھی،پھر ایسے ہی مڑے جیسے ابو رمثہ مڑے ہیں (یعنی وہ خود)پس جو شخص تکبیر اولی میں آکر شامل ہواتھا دوگانہ پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف جھپٹے اور اس کے کندھے کو پکڑ کر ہلایا اور فر مایا:بیٹھ جا ،کیو نکہ اہل کتاب صرف اس وجہ سے ہلاک ہوئے کہ ان کی نمازوں کے درمیان وقفہ نہیں رہتا تھا ،حضور نبی کریم ﷺ نے نگاہ مبارک اٹھائی اور فر مایا:ائے ابن خطاب !اللہ تعالی نے تمہیں صحیح بات کی تو فیق عطا فر مائی۔(ابوداود،کتاب الصلاۃ،باب فی الرجل یتطوع فی مکانہ الذی صلی فیہ المکتوبۃ ،حدیث:۱۰۰۷)

عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ كَتَبَ الْمُغِيرَةُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِى سُفْيَانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - كَانَ يَقُولُ فِى دُبُرِ كُلِّ صَلاَةٍ إِذَا سَلَّمَ : لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ، وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ ، وَلَهُ الْحَمْدُ ، وَهْوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ ، اللَّهُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ ، وَلاَ مُعْطِىَ لِمَا مَنَعْتَ ، وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ .

تر جمہ:حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: حضور نبی اکرم ﷺہرنماز کے بعدجب سلام پھیرتے تو یوں کہا کرتے تھے۔نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ تعالی کے،وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ،اسی کے لئے بادشاہی ہے اور اسی کے لئے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ائے اللہ جسے تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی دولت مند کو تیرے مقابلے میں دولت نفع نہ دے گی۔ (بخاری کتاب الدعوات،باب الدعا بعدالصلوۃ،حدیث:۶۳۳۰،مسلم،حدیث:۵۹۳)

عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ ، قَالَ : مَا صَلَّيْتُ وَرَاءَ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلاَّ سَمِعْتُهُ حِينَ يَنْصَرِفُ مِنْ صَلاَتِهِ يَقُولُ : اللَّهُمُ اغْفِرْ لِي أَخْطَائِي وَذُنُوبِي كُلَّهَا أَنْعِمْنِي وَأَحْيِينِي وَارْزُقْنِي ، وَاهْدِنِي لِصَالِحِ الأَعْمَالِ وَالأَخْلاَقِ ، فَإِنَّهُ لاَ يَهْدِي لِصَالِحِهَا إِلاَّ أَنْتَ ، وَلاَ يَصْرِفُ عَنْ سَيِّئِهَا إِلاَّ أَنْتَ.

ترجمہ : حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:میں نے جب بھی حضور نبی اکرم ﷺکے پیچھے نماز پڑھی تو دیکھا کہ آپ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو میں آپ ﷺ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنتا :ائے میرے اللہ !میری تمام خطائیں اور گناہ بخش دے ،ائے میرے اللہ مجھے اپنی عبادت و طاعت کے لئے ہشاش بشاش رکھ اور مجھے اپنی آزمائش سے محفوظ رکھ اور مجھے نیک اعمال اور اخلاق کی رہنمائی عطا فر ما،بے شک نیک اعمال اور اخلاق کی ہدایت تیرے سوا کو ئی نہیں دیتا اور برے اعما ل و اخلاق سے تیرے سوا کوئی نہیں بچاتا۔(مستدرک علی الصحیحین للحاکم،باب ذکر مناقب ابی ایوب انصاری رضی اللہ عنہ حدیث:۵۹۴۲)

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رضى الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-: مَنْ لَمْ يَسْأَلِ اللَّهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ .

تر جمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ ﷺنے فر مایا:جو شخص اللہ تعالی سے دعا نہیں مانگتا اللہ تعالی اس پر غضب فر ماتا ہے۔(تر مذی ،کتاب الدعوات عن رسول اللہ ﷺ،باب :۲،حدیث:۳۳۷۳)

روزہ کی فضیلت

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ : مَا مِنْ حَسَنَةٍ عَمِلَهَا ابْنُ آدَمَ إِلاَّ كُتِبَ لَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ إِلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلاَّ الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِى وَأَنَا أَجْزِى بِهِ يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِى الصِّيَامُ جُنَّةٌ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: انسان جو نیکی کرتا ہے، وہ اس کے لیے دس گنا سے سات سو گنا تک لکھی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مگر روزہ کہ وہ میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ بھی میں ہی دوں گا۔ وہ میری وجہ سے اپنی شہوت اور کھانے پینے کو چھوڑ دیتا ہے۔ روزہ ڈھال ہے۔ روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں، ایک تو افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔ اور بے شک روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ عمدہ ہے۔[سنن نسائی،کتاب الصیام ،باب ذکر الاختلاف علی ابی صالح فی ھذالحدیث ،حدیث :۲۲۱۵]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ إِنَّ الصَّوْمَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ إِنَّ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَيْنِ إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ وَإِذَا لَقِيَ اللَّهَ فَرِحَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بےشک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا،بے شک روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں،جب افطار کرتا ہے خوش ہوتا ہے اور جب اللہ سے ملاقات کرے گا تو خوش ہوگا۔آپ ﷺنے فرمایا: قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔[صحیح مسلم،کتاب الصیام ،باب فضل الصیام ،حدیث:۱۱۵۱]

عَنْ سَهْلٍ - رضى الله عنه - عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ : إِنَّ فِى الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ الرَّيَّانُ ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، لاَ يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ يُقَالُ أَيْنَ الصَّائِمُونَ فَيَقُومُونَ ، لاَ يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ ، فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ ، فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ

ترجمہ : حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام "ریّان" ہے۔قیامت کے دن اس سے روزہ دار لوگ جنت میں داخل ہوں گے،اُن کے علاوہ کوئی اُس سے داخل نہ ہوگا،اُس دن کہا جائے گا" روزہ رکھنے والے کہاں ہیں؟ تو وہ لوگ کھڑے ہوں گے،ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس سے داخل نہیں ہوگا،جب وہ لوگ داخل ہو جائیں گے تو اُسے بند کر دیا جائے گا۔[صحیح بخاری،کتاب الصوم،باب الریان للصائمین، حدیث:۱۸۹۶]

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ - رضى الله عنه - عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ : مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا اس کے گذشتہ تمام گناہ بخش دیا جاتا ہے۔[صحیح بخاری،کتاب الصوم،باب من صام رمضان الخ ، حدیث: ۱۸۹۶]

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ : مَنْ صَامَ يَوْمًا فِى سَبِيلِ اللَّهِ زَحْزَحَهُ اللَّهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جوشخص جہاد کرتے وقت ایک دن کا روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اسے سترسال کی مسافت تک جہنم سے دورکردے گا۔[جامع تر مذی،کتاب الجہاد،باب ماجاء فی فضل الصوم فی سبیل اللہ، حدیث: ۱۶۲۲]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ ، يَقُولُ الصِّيَامُ : رَبِّ إِنِّي مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ : مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَيُشَفَّعَانِ

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: روزہ اور قرآن بندے کی شفاعت کریں گے۔روزہ کہے گا،ائے میرے رب بے شک میں نے اِس کو کھانے اور شہوت پوری کرنے سے دن کے وقت میں روکے رکھا تو اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔اور قرآن کہے گا میں نے اِ س کو رات میں نیند سے روک کر رکھا ، تو اُن دونوں کی شفاعت قبول کی جائیں گی۔[المستدرک للحاکم علی الصحیحین،کتاب فضائل القرآن،باب اخبارفی فضائل القرآن جملۃ، حدیث: ۲۰۳۶]

حَدَّثَنَا أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِىُّ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مُرْنِى بِأَمْرٍ يَنْفَعُنِى اللَّهُ بِهِ. قَالَ : عَلَيْكَ بِالصِّيَامِ فَإِنَّهُ لاَ مِثْلَ لَهُ

ترجمہ : حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! مجھے کسی ایسی چیز کا حکم دیجئے جس سے مجھے اللہ تعالیٰ نفع پہونچائے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے اوپر روزہ رکھنے کو لازم کر لو کیونکہ اس کی طرح کوئی عمل نہیں ہے۔[سنن نسائی،کتاب الصیام ،باب ذکر الاختلاف علی محمد بن ابی یعقوب ،حدیث:۲۲۲۱]

عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، أَنَّ مُطَرِّفًا ، مِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ حَدَّثَهُ , أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ الثَّقَفِيَّ دَعَا لَهُ بِلَبَنٍ يَسْقِيهِ ، فَقَالَ مُطَرِّفٌ : إِنِّي صَائِمٌ ، فَقَالَ عُثْمَانُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ يَقُولُ : الصِّيَامُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ ، كَجُنَّةِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْقِتَالِ.

ترجمہ : مطرف بن عبداللہ رضی اللہ عنہ جو قبیلہ بنو عامر بن صعصعہ سے تھے۔ ان سے روایت ہے کہ عثمان بن ابو العاص ثقفی رضی اللہ عنہ نے انہیں پلانے کے لیے دودھ طلب فرمایا۔ مطرف رضی اللہ عنہ نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ عثمان ثقفی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فر رہے تھے ’’روزہ جہنم سے بچانے والی ڈھال ہے ،جس طرح لڑائی میں [دشمن کے وار سے بچنے کے لئے] تم میں سے کسی کی ڈھال ہوتی ہے۔ [ابن ماجہ،کتاب الصیام ،باب ماجاء فی فضل الصیام،حدیث:۱۶۳۹]

ترک روزہ پر وعیدیں

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ، وَلَا مَرَضٍ لَمْ يَقْضِ عَنْهُ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ، وَإِنْ صَامَهُ

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے بغیر شرعی اجازت اور بیماری کے رمضان شریف کا ایک روزہ بھی توڑا اسے عمر بھر کے روزے کفایت نہیں کر سکتے اگرچہ وہ عمر بھر روزے رکھے۔
[ترمذی، أبواب الصوم عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب ماجاء في الإفطَارِ مُتَعَمِّدًا : ، رقم : 723]

عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلاً أَفْطَرَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فَأَتَى أَبَا هُرَيْرَةَ فَقَالَ‏:‏ لاَ يُقْبَل منه صَوْمُ سنة

ترجمہ : حضرت علی بن حسین رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رمضان المبارک میں (دن میں ) کھالیا پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا سال بھر کے روزے اس کے مقبول نہیں ہوں گے۔ /ایک سال کے روزے اس چھوٹے ہوئے روزے کی جگہ نہیں لے سکتے۔
[السنن الكبرى للنسائي. كتاب الصيام، رقم الحديث 3271 ]

أبوأُمَامَةَ، قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ‏:‏ بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ إِذْ أَتَانِي رَجُلاَنِ فَأَخَذَا بِضَبْعَيَّ وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَفِيهِ قَالَ‏:‏، ثُمَّ انْطَلَقَا بِي فَإِذَا قَوْمٌ مُعَلَّقُونَ بِعَرَاقِيبِهِمْ، مُشَقَّقَةٌ أَشْدَاقُهُمْ تَسِيلُ أَشْدَاقُهُمْ دَمًا، قُلْتُ‏:‏ مَنْ هَؤُلاَءِ‏؟‏ قَالَ‏:‏ هَؤُلاَءِ الَّذِينَ يُفْطِرُونَ قَبْلَ تَحِلَّةِ صَوْمِهِمْ

ترجمہ : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دو آدمی آئے اور انہوں نے مجھے میرے بازو سے پکڑ لیا)۔۔۔ لمبی حدیث ذکر کی، اس میں یہ بھی ہے کہ: وہ مجھے ایک ایسی قوم کے پاس لے گئے جنہیں ان کی ایڑھیوں کے بل لٹکایا گیا تھا، ان کی بانچھیں چیر دی گئی تھیں اور ان سے خون بہہ رہا تھا، میں نے کہا: یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا: "یہ افطاری کا وقت ہونے سے پہلے روزہ افطار کرنے والے لوگ ہیں۔[ یہ ایسے شخص کی سزا ہے جس نے روزہ تو رکھا لیکن اسے وقت سے پہلے ہی کھول لیا، تو اس شخص کا حال کیا ہو گا جس نے بالکل روزہ رکھا ہی نہیں ہے]
[السنن الكبرى للنسائي،كتاب الصيام،رقم الحديث 3273 ]

عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم یَقُوْلُ: هَذَا رَمَضَانُ قَدْ جَاءَ تُفْتَحُ فِیْهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَتُغْلَقُ أَبْوَابُ النَّارِ وَتُغَلُّ فِیْهِ الشَّیَاطِیْنُ. بُعْدًا لِمَنْ أَدْرَکَ رَمَضَانَ فَلَمْ یُغْفَرْ لَهُ إِذَا لَمْ یُغْفَرْلَهُ فِیْهِ فَمَتَی؟

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اُنہوں نے بیان کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آگیا ہے۔ اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ اس میں شیاطین کو (زنجیروںمیں) جکڑ دیا جاتا ہے۔ وہ شخص بڑا ہی بد نصیب ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا لیکن اس کی بخشش نہ ہوئی۔ اگر اس کی اس (مغفرت کے) مہینہ میں بھی بخشش نہ ہوئی تو (پھر) کب ہو گی؟
[أخرجه ابن أبي شیبة في المصنف، رقم الحدیث : 8871، والطبراني في المعجم الأوسط، رقم الحدیث : 7627]

عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: احْضُرُوْا الْمِنْبَرَ فَحَضَرْنَا. فَلَمَّا ارْتَقَی دَرَجَةَ قَالَ: آمِیْنَ فَلَمَّا ارْتَقَی الدَّرْجَةَ الثَّانِیَةَ، قَالَ: آمِیْنَ فَلَمَّا ارْتَقَی الدَّرْجَةَ الثَّالِثةَ قَالَ: آمِیْنَ فَلَمَّا نَزَلَ، قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، سَمِعْنَا مِنْکَ الْیَوْمَ شَیْئًا مَا کُنَّا نَسْمَعُهُ، قَالَ: إِنَّ جِبْرِیْلَ عَرَضَ لِي فَقَالَ: بُعْدًا لِمَنْ أَدْرَکَ رَمَضَانَ فَلَمْ یُغْفَرْ لَهُ قُلْتُ آمِیْنَ. فَلَمَّا رَقِیْتُ الثَّانِیَّةَ قَالَ: بُعْدًا لِمَنْ ذُکِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْکَ، قُلْتُ: آمِیْنَ، فَلَمَّا رَقِیْتُ الثَّالِثَةَ، قَالَ: بُعْدًا لِمَنْ أَدْرَکَ أَبَوَاهُ الْکِبَرَ عِنْدَهُ أَوْ أَحَدُهُمَا فَلَمْ یُدْخِلاَهُ الْجَنَّةَ. قُلْتُ: آمِیْنَ

ترجمہ : حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: منبر کے پاس آجاؤ، ہم آ گئے۔ جب ایک درجہ چڑھے تو فرمایا: ’’آمین‘‘ جب دوسرا چڑھے تو فرمایا: ’’آمین‘‘ اور جب تیسرا چڑھے تو فرمایا: ’’آمین‘‘۔ جب اترے تو ہم نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! ہم نے آج آپ سے ایک ایسی چیز سنی ہے جو پہلے نہیں سنا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل ں میرے پاس آئے اور کہاجسے رمضان ملا لیکن اسے بخشا نہ گیا وہ بدقسمت ہوگیا۔ میں نے کہا: آمین۔ جب میں دوسرے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا: جس کے سامنے آپ کا نام لیا گیا اور اس نے درود نہ بھیجا وہ بھی بد قسمت ہوگیا۔ میں نے کہا: آمین جب میں تیسرے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا: جس شخص کی زندگی میں اس کے ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک بوڑھا ہوگیا اور انہوں نے اسے (خدمت و اِطاعت کے باعث) جنت میں داخل نہ کیا، وہ بھی بدقسمت ہوگیا۔ میں نے کہا: آمین
السنن الكبرى البيهقي ، رقم الحديث : 8287

عن جابر بن عبد الله قال‏:‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏ من أدرك رمضان ولم يصمه فقد شقي، ومن أدرك والديه أو أحدهما فلم يبره فقد شقي، ومن ذكرت عنده فلم يصلِّ علي فقد شقي

ترجمہ : حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جس نے ماہ رمضان پایا اور اس میں روزہ نہیں رکھا وہ بد بخت ہے، اور جس نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پایا اور ان کی اطاعت نہ کی وہ بد بخت ہے، اور جس کے پاس میرا ذکر ہوا اور اس نے مجھ پر درود نہیں پڑھا وہ بد بخت ہے۔
[مجمع الزوائد، باب فيمن أدرك شهر رمضان فلم يصمہ ، رقم الحدیث:۴۷۷۳]

عن عبادة بن الصامت: أنَّ رسولَ اللهِ ﷺ قال يومًا وحضر رمضانُ أتاكم رمضانُ شهرُ بركةٍ يغشاكم اللهُ فيه فيُنزِلُ الرَّحمةَ ويحُطُّ الخطايا ويستجيبُ فيه الدُّعاءَ ينظرُ اللهُ تعالى إلى تنافُسِكم فيه ويُباهي بكم ملائكتَه فأروا اللهَ من أنفسِكم خيرًا فإنَّ الشَّقِيَّ من حُرم فيه رحمةَ اللهِ عزَّ وجلَّ

ترجمہ : حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن کہا- اس وقت رمضان شروع ہو چکا تھا-: تمہارے پاس ماہ رمضان آیا ہے، اس میں اللہ تعالی تمہیں اپنی رحمت میں ڈھانپ لے گا؛ تو اس ماہ میں رحمت نازل ہو گی، اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور اس میں دعا قبول کرے گا، نیز اللہ تعالی تمہارے بڑھ چڑھ کر عبادت کرنے کو دیکھے گا اور اپنے فرشتوں کے سامنے تمہارا فخر سے تذکرہ کرے گا، اس لیے تم اپنی خیر و بھلائی اللہ کے سامنے رکھوکیونکہ اس ماہ میں اللہ کی رحمت سے محروم رہنے والا بد بخت ہے۔
[المعجم الكبير للطبراني ، رقم الحديث : ۴۷۸۳]

حج وعمرہ کی فضیلت

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ قَالَ إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ قِيلَ ثُمَّ مَاذَا قَالَ جِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قِيلَ ثُمَّ مَاذَا قَالَ حَجٌّ مَبْرُورٌ

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضور ﷺ سے پو چھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟تو آپ ﷺنے فر مایا کہ:اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔پوچھا گیا کہ پھر کون سا؟ تو آپ ﷺ نے فر مایا کہ:اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ پوچھا گیا کہ پھر کون سا؟ تو آپ ﷺ نے فر مایا کہ:حج کرنا۔
[صحیح بخاری،کتاب الحج ،باب فضل الحج المبرور،حدیث:۱۵۱۹]

عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَرَى الْجِهَادَ أَفْضَلَ الْعَمَلِ أَفَلَا نُجَاهِدُ قَالَ لَا لَكِنَّ أَفْضَلَ الْجِهَادِ حَجٌّ مَبْرُورٌ

ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ:یارسول اللہ ﷺ!آپ جہاد کو افضل عمل بتاتے ہیں تو کیا ہم جہاد نہیں کریں؟ تو آپ ﷺ نے فر مایا کہ: نہیں۔ عورتوں کے لئے سب سے افضل جہاد مقبول حج کرنا ہے۔
[صحیح بخاری، کتاب الحج ،باب فضل الحج المبرور ،حدیث:۱۵۲۰]

حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا سَيَّارٌ أَبُو الْحَكَمِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ حَجَّ لِلَّهِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضور ﷺ نے فر مایا کہ:جس نے حج کیا اور حج کے درمیان کوئی فحش بات نہیں بولا اور نہیں کوئی گناہ کا کام کیا تو وہ گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسے وہ اُس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اُسے جنم دیا تھا۔
[صحیح بخاری، کتاب الحج ،باب فضل الحج المبرور ،حدیث:۱۵۲۱]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضور ﷺ نے فر مایا کہ:عمرہ سے عمرہ تک اُن تمام گناہوں کا کفارہ ہے جو اُس کے درمیان میں ہوئے۔اور مقبول حج کا ثواب جنت ہی ہے۔
[صحیح بخاری،کتا ب العمرۃ ، باب وجوب العمرۃ وفضلھا ،حدیث:۱۷۷۳]

عَنْ عَطَاءٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُخْبِرُنَا يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِامْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ سَمَّاهَا ابْنُ عَبَّاسٍ فَنَسِيتُ اسْمَهَا مَا مَنَعَكِ أَنْ تَحُجِّينَ مَعَنَا قَالَتْ كَانَ لَنَا نَاضِحٌ فَرَكِبَهُ أَبُو فُلَانٍ وَابْنُهُ لِزَوْجِهَا وَابْنِهَا وَتَرَكَ نَاضِحًا نَنْضَحُ عَلَيْهِ قَالَ فَإِذَا كَانَ رَمَضَانُ اعْتَمِرِي فِيهِ فَإِنَّ عُمْرَةً فِي رَمَضَانَ حَجَّةٌ أَوْ نَحْوًا مِمَّا قَالَ

ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:حضور ﷺ نے ایک انصاری خاتون سے فرمایا کہ: تم ہمارے ساتھ حج کیوں نہیں کرتی؟ وہ کہنے لگی کہ ہمارے پاس ایک اونٹ تھا جس پر ابو فلاں[یعنی اس کا شوہر] اور اس کا بیٹا سوار ہو کر حج کے لئے چل دئیے اور ایک اونٹ انہوں نے چھوڑا ہے،جس سے پانی لایا جاتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا جب رمضان آئے تو عمرہ کر لینا کیونکہ رمضان شریف میں عمرہ کرنے سے حج کا ثواب ملتا ہے۔
[صحیح بخاری، کتا ب العمرۃ ، باب عمرۃ فی رمضان ،حدیث:۱۷۸۲]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِى الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلاَّ الْجَنَّةُ

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضور ﷺ نے فر مایا کہ:حج اور عمرہ ایک کے بعد دوسرے کو ادا کرو اس لئے کہ یہ دونوں محتاجی اورگناہوں کو ایسے ختم کرتا ہے جیسے آگ کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی وغیرہ کے زنگ کو۔
[تر مذی،کتاب الحج ،باب ماجاء فی ثواب الحج والعمرۃ ،حدیث:۸۱۰]

عن أبي ذر أن النبي صلى الله عليه و سلم قال إن داود النبي عليه السلام قال إلهي ما لعبادك عليك إذا هم زاروك في بيتك قال إن لكل زائر على المزور حقا يا داود إن لهم علي أن أعافيهم في الدنيا وأغفر لهم إذا لقيتهم

ترجمہ : حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضور ﷺ نے فر مایا کہ:حضرت داؤد علیہ السلام نے عرض کیا:ائے اللہ !جب تیرے بندے تیرے گھر کی زیارت کے لئے آئیں گے تو تو انہیں کیا عطا فر مائے گا؟تو اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ:ہر زیارت کرنے والے کا اُس پر حق ہے جس کی وہ زیارت کرنے جائے۔ میرے اُن بندوں کا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں انہیں دنیا میں عافیت دوں گا اور جب مجھ سے ملیں گے تو میں اُن کے گناہوں کو معاف کر دوں گا۔
[المعجم الاوسط للطبرانی،جزء ،۶/ص :۱۴۴/حدیث:۶۰۳۷]

عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ ، رَفَعَهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْحَاجُّ يَشْفَعُ فِي أَرْبَعِ مِئَةِ أَهْلِ بَيْتٍ ، أَوْ قَالَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ ، وَيَخْرُجُ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ

ترجمہ : حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضور ﷺ نے فر مایا کہ: حاجی اپنے گھر والوں میں سے چار سو لوگوں کی قیامت کے دن شفاعت کرے گا اور وہ گناہوں سے ایسا پاک ہو جائے گا جیسے وہ اپنے پیدا ہونے کے دن تھا۔
[مسند بزار،تحت مسند ابو موسیٰ اشعری،حدیث:۳۱۹۶]

عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : يُغْفَرُ لِلْحَاجِّ ، وَلِمَنَ اسْتَغْفَرَ لَهُ الْحَاجُّ

ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:حاجی کی مغفرت ہو جاتی ہے اور حاجی جس کے لئے استغفار کرتا ہے اُس کی بھی۔
[مصنف ابن ابی شیبہ،باب ما قالوا فی ثواب الحج، حدیث:۱۲۸۰۰]

عَنْ مُجَاهِدٍ ؛ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْحَاجِّ ، وَلِمَنَ اسْتَغْفَرَ لَهُ الْحَاجُّ

ترجمہ : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا اللہ ! حاجی کی مغفرت فرما اور اُس شخص کی مغفرت فرما جس کے لئے حاجی مغفرت کی دعا کرے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ،باب ما قالوا فی ثواب الحج، حدیث:۱۲۸۰۱]

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من خرج حاجا فمات كتب الله له أجر الحاج إلى يوم القيامة ومن خرج معتمرا فمات كتب الله له أجر المعتمر إلى يوم القيامة ومن خرج غازيا في سبيل الله فمات كتب الله له أجر الغازي إلى يوم القيامة

ترجمہ : حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ:جو حج کے لئے نکلا اور مر گیا تو قیامت تک اُس کے لئے حج کر نے کا ثواب لکھا جائے گا۔اور جو عمرہ کر نے کے لئے نکلا اور مر گیا تو قیامت تک اُس کے لئے عمرہ کر نے کا ثواب لکھا جائے گا۔اور جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکلا اور انتقال کر گیا تو اس کے لئے قیامت تک جہاد کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔
[مسند ابو یعلیٰ،تحت مسند ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ،الاعرج عن ابی ہریرۃ،حدیث :۶۳۵۷]

ترک حج کی مذمت

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْيَتَعَجَّلْ

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ:جو حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اُسے چاہئے کہ وہ جلد ادا کر ے۔
[ابو داؤد،کتاب المناسک ،باب :۶/حدیث:۱۷۳۲]

عَنْ عَلِىٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلاَ عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ يَقُولُ فِى كِتَابِهِ (وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً)

ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ: جو شخص اللہ کے گھر پہونچنے کی طاقت رکھتا ہو اُس کے با وجود بھی حج نہیں کرے تو اس کا کوئی ٹھکانا نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرےگا یا نصرانی ہو کر۔اور وہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے"اور اللہ کے لئے اُن لوگوں پر حج کرنا فرض ہے جو اس تک پہونچنے کی طاقت رکھتا ہو"۔
[تر مذی،کتاب الحج ،باب ماجاء فی التغلیظ فی ترک الحج ،حدیث:۸۱۲]

دعوت قرآن